تمدن یعنی مل جل کر رھنا، تعلقات انسانی کو نبھانا۔ تخلیق کائنات سے ھی اللہ تعالٰی نے کائنات کی تمام مخلوقات کو جوڑا جوڑا خلق فرما کر ایک تمدنی مرکز قائم کیا اور آدم (ع) کو اسی کی مرکزیت عطا کی۔
لھذا ایک مسلمان اپنے تمدن و فرھنگ میں مطلق العنان نھیں ہے بلکہ وہ اپنے خالق کی رھنمائی کا محتاج ہے۔ اسی لئے خداوند متعال نے اپنے خاص لطف سے انسان کی عملی رھنمائی کے لئے حضرت آدم (ع) کو تمام انسانوں کے لئے نمونہ قرار دیا۔ پس اس سے معلوم ھوا کہ ابتداء انسان سے لے کر ھر دور میں چاھے ایک مختصر سا گروہ ھی سھی، مگر اس کی ھدایت و رھنمائی کے لئے خدا نے ایک نمونہ عمل خلق کیا ہے۔
یاد رھے کہ خدا کی یھی سنت حضرت آدم (ع) سے لے کر حضرت خاتم (ص) کے نظام ھدایت میں جاری و ساری رھی۔ حتٰی کہ ھر زمانے میں خداوند متعال نے جو بھی نبی مبعوث کیا، حتماً اسکے کے بعد اس کے لئے اس کا جانشین بھی قرار دیا، تاکہ اس نبی کے بعد اسکی امت بے وارث و بے یار ومددگار نہ رھے۔
خداوند متعال کی یہ روش فقط سابقہ ادیان کے ساتھ مخصوص نھیں تھی، بلکہ اس کی یہ سنت اسلام میں بھی کارفرما ہے اور ایسا ھرگز نھیں ہے کہ خدا کی یہ سنت باقی ادیان میں تو ھو، مگر دین اسلام میں یہ سنت باقی نہ رھی ھو، بلکہ جانشین و رھبر کی جتنی ضرورت حضرت خاتم (ص) کے بعد کے زمانے کو تھی، شاید ھی ایسی ضرورت کسی اور زمانے میں پیش آئی ھو، کیونکہ حضرت خاتم (ص) کے بعد دین کے اکمال کا مرحلہ تھا۔ کیونکہ اسلام ایک کامل ضابطہ حیات ھونے کے ناطے عالمگیر حاکمیت کا بھی خواھاں ہے اور جب اسلام نے انسان کی رھبری کی ذمہ داری اٹھائی ہے تو ضروری ہے کہ اسلام کے قوائد و ضوابط کے نفوذ کے لئے ایک مرد کامل موجود ھو۔
اب یہ بات تو روز روشن کی طرح واضح ہے کہ ایک ناقص کسی کامل کا انتخاب نھیں کرسکتا تو پھر یہ کسے ممکن ھوسکتا ہے کہ وہ انسان کہ جو خود ھدایت و رھنمائی کے محتاج ہیں، وہ اپنے لئے کسی مناسب ھادی و رھنما کا انتخاب کریں اور اگر ایسا ھوتا بھی تو یہ ھرگز ممکن نھیں تھا کہ چند افراد کے انتخاب پر تمام امت کا اتفاق ھوتا، کیونکہ فطرتاً ھر انسان دوسرے سے مختلف ہے۔
لھذا اس بناٗ پر امت میں بعد از رسول (ص) رھبر و جانشین کے انتخاب کی ذمہ داری یا تو خود رسول اکرم (ص) کے ذمہ تھی یا پھر حاکم شارع خود خداوند متعال کے ذمہ۔ جبکہ صاحبان قرآن اس بات سے بخوبی آگاہ ہیں کہ رسول خدا (ص) نے اپنی پوری زندگی میں اپنی مرضی سے نہ ھی کوئی قدم اٹھایا اور نہ ھی کبھی اپنی مرضی سے کوئی کلام کیا۔ لھذا اس بنا پر فقط ایک ذات یعنی ذات خدا وندی ھی ہے کہ جو بعد از رسول خدا (ص) انسانوں کے لئے مناسب رھنما کا انتخاب کرے۔
تاریخ سے آشنائی رکھنے والے افراد اس بات سے بخوبی آگاہ ہیں یہ کام خود خدا وند متعال نے ھی اپنے رسول (ص) کے توسط سے مقام غدیر خم میں انجام دیا کہ جس پر اکثر علماء اسلام کا اتفاق ہے۔ اس پر قرآن کی صریح آیت (یاایھا الرسول بلغ ما انزل۔۔۔۔۔۔) دلالت کر رھی ہے اور وہ مسئلہ، مسئلہ رھبر و امامت ھی تھا کہ جس کی خاطر خداوند متعال نے اپنے حبیب سے اس لھجے میں بات کی کہ اے رسول (ص) اگر آپ نے یہ پیغام نہ پھنچایا تو گویا اپنی تمام رسالت کو انجام نھیں دیا اور یھی وہ حقیقت ہے کہ جس کو پھچاننے و سمجھنے میں امت مسلمہ نے خطا کی۔
اب سوال یہ پیدا ھوتا ہے کہ وہ تمام واقعہ کہ جو مقام خم میں رونما ھوا، آیا کیا وہ تمام کا تمام اتفاقی تھا؟ اور اس واقعہ سے پھلے رسول خدا (ص) کا تمام علاقائی و قبائلی سرداروں کو خطوط لکھ کر اس سال حج کی دعوت دینا، آیہ غدیر کا نازل کا ھونا، مقام خم میں اگلوں کو پیچھے جبکہ پچھلوں کا انتظار کرنا، کیا یہ سب اتفاقی تھا؟ پھر ایک بڑے انتظام کے بعد گرمی کی اس شدت میں، پھلے اپنی ولایت کا اقرار لینا اور پھر علی کو بلند کرکے لوگوں کے سامنے لانا، کیا یہ سب فقط اس لئے تھا کہ رسول خدا (ص) فقط یہ بتانا چاھتے تھے کہ "جس جس کا میں دوست ھوں، آج سے علی بھی اسکے دوست ہیں؟ اور پھر موقع پر تمام صحابہ اکرام (رض) کا علیؑ کو مبارک دینا، کیا دوستی کے سبب تھا؟
لمحہ فکریہ ہے کہ انتے سال گزرنے کے باوجود بھی امت مسلمہ نے غدیر کو اس زاویے سے کیوں نہ سوچا۔ اس کے دو سبب ھوسکتے ہیں یا تو واقعہ غدیر امت مسلمہ کی نظر مورد اھمیت ھی نھیں یا پھر آج تک غدیر کے معاملے میں خیانت سے کام لیا گیا ہے۔
تحریر: اشرف سراج گلتری
عید غدیر…۔۔ تمدنی پھلو
- Details
- Written by admin
- Category: غدیر
- Hits: 1234