واقعہ کربلا سے رھتي دنيا نے بھت درس و سبق حاصل کيے ہيں - يہ سانحہ جھاں انسان کو زندگي کے مختلف پھلوۆ ں کے لحاظ سے درس ديتا ہے وھيں يہ مقام عبرت بھي ہے - اس ليۓ ھميں چاھيۓ کہ اس واقعے کا ھر لحاظ سے بغور جائزہ ليں اور اس سے عبرت حاصل کريں-
کربلا سے عبرت لينے کا کيا مطلب ہے؟
اس کا مطلب يہ ہے کہ ھميں تاريخ کي روشني ميں پيش آنے والے حالات کو ذھن نشين کرتے ھوئے ھر طرح کے حالات سے باخبر رھنا چاھيۓ اور مشکل حالات کے ليۓ خود کو تيار رکھنا چاھيۓ اور مصيبت کي گھڑي ميں کيسے خود کو تيار کرنا ہے اس بارے ميں سوچنا چاھيۓ - کون سا امر اُس کيلئے خطرے کا باعث ہے اور کس امر کي انجام دھي اُس کيلئے لازمي و ضروري ہے ؟ اِسے عبرت لينا کھتے ہيں-
مثال کے طور پر سفر کے دوران آپ کي نظر ايک گاڑي پر پڑتي ہے جو حادثے کا شکار ھو کر الٹي پڑي ہے - اس ميں موجود مسافرھلاک ھو گۓ ہيں - آپ کو خيال آتا ہے کہ مجھے يھاں رک کر حالات کا جائزہ لينا چاھيۓ - آپ حادثے کے مقام پر کھڑے ھو کر کچھ دير کے ليۓ گاڑي کو ديکھتے ہيں - آپ کے وھاں کھڑے ھو کر بغور جائزہ لينے کا مقصد يھي ھوتا ہے کہ حادثے کي وجہ معلوم کي جائے تاکہ آپ اس سے عبرت حاصل کرتے ھوئے زندگي ميں وہ غلطي نہ دھرائيں جس کے باعث يہ گاڑي حادثے کا شکار ھوئي - اس کے بعد آپ ڈرائيونگ کرتے ھوئے ھميشہ احتياط برتيں گے-
`يہ بھي درس و سبق لينا ہے ليکن يہ درس از راہ عبرت ہے لہٰذا اِس جھت سے واقعہ کربلا ميں غور وفکر کرنا چاھيے-
پھلي عبرت: مسلمانوں کے ھا تھوں نواسہ رسول (ص) کي شھادت!
واقعہ کربلا ميں پھلي عبرت جو ھميں اپني طرف متوجہ کرتي ہے وہ يہ ہے کہ ھم يہ ديکھيں کہ پيغمبر اکرم (ص) کے وصال کے بعد اسلامي معاشرے ميں وہ کون سے حالات وقوع پذير ھوئے کہ نوبت يھاں تک آ پہنچي کہ امام حسين(ع) جيسي شخصيت، اسلامي معاشرے کي نجات کيلئے ايسي فدا کاري کي زندہ مثال قائم کرے- اگر ايسا ھوتا کہ امام حسين رسول اکرم (ص) کي وفات کے ايک ھزار سال بعد اسلامي ممالک ميں اسلام کي مخالف و معاند اقوام کے اصلاح و تربيت کيلئے ايسي فداکاري کرتے تو يہ ايک الگ بات ہے ليکن يھاں امام حسين(ع) وحي کے مرکز يعني مکہ و مدينہ جيسے عظيم اسلامي شھروں ميں انقطاعِ وحي کہ پچاس سال بعد ايسے اوضاع و حالات کا مشاھدہ کرتے ہيں کہ اُن کي اصلاح کيلئے اپني جان کو فدا کرنے اور قرباني دينے کے علاوہ کوئي اور چارہ کار نھيں پاتے! مگر وہ کون سے حالات تھے کہ جن کيلئے امام حسين(ع) نے يہ احساس کيا کہ فقط اپني جان کي قرباني ھي کے ذريعہ اسلام کو زندہ کرنا ممکن ہے واِلَّا سمجھو کہ پاني سر سے گزر گيا! عبرت کا مقام يہ ہے-
ايسا اسلامي معاشرہ کہ جس کے رھبر اور پيغمبر (ص) مکۃ و مدينہ ميں بيٹھ کر اسلام کے پرچم کو مسلمانوں کے ھاتھوں ميں ديتے تھے اور وہ جزيرۃ العرب کے کونے کونے ميں جاتے اور شام و ايران و روم اُن کے وجود سے کپکپاتے تھے اور انھيں ديکھتے ھي فرار کرجانے ميں اپني غنيمت سمجھتے تھے، يوں مسلمان فاتحانہ اندار ميں واپس لوٹتے تھے؛ بالکل جنگ تبوک کي مانند- يھي اسلامي معاشرہ تھا کہ جس کي مسجدوں اور کوچہ و بازار ميں تلاوت قرآن ھو رھي تھي-