www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

 د) مستدركات صحیفہ ‏

بعض علماء اور دانشوران نے صحیفہ پر مستدركات لکھے ہیں۔ ‏

مستدرکات صحیفہ سے مراد امام سجاد علیہ السلام کی وہ دعائیں ہیں جو صحیفہ میں درج نہیں ہوئی ہیں۔

صحیفہ کے بعض مستدرکات: ‏

‏1۔ «صحیفہ ثانیہ‏»، تألیف شیخ محمد بن حسن الحر العاملی، صاحب وسائل الشیعہ۔ ‏

‏2۔ «صحیفہ ثالثہ‏»، تألیف مشہور مورخ و دانائے رجال معروف، میرزا عبداللہ افندی، ‏صاحب كتاب ریاض العلمأ۔ ‏

‏3۔ «صحیفہ رابعہ‏»، تألیف محدث میرزا حسین نوری طبرسی۔ ‏

‏4۔ «صحیفہ خامسہ‏»، علامہ محسن امین حسینی عاملی۔ ‏

‏5۔ «صحیفہ سادسہ‏»، تألیف شیخ محمد باقر بن محمد حسن بیرجندی قائینی۔ ‏

‏6۔ «صحیفہ سابعہ‏» تألیف شیخ ہادی بن عباس آل كاشف الغطأ نجفی، صاحب ‏كتاب المستدرك۔ ‏

‏7۔ «صحیفہ ثامنہ‏»، تألیف حاج میرزا علی حسینی مرعشی شہرستانی حائری۔ ‏

‏8۔ «ملحقات صحیفہ‏»، مؤلف : مرحوم شیخ بہائی کے نامور شاگرد «شیخ محمد، المعروف «تقی زیابادی قزوینی»  انہوں ملحقات کو سنہ 1023 ہجری میں مکمل کیا ہے۔ (۱۲) ‏

ھ)۔ علماء کے نزدیک صحیفہ کا مقام و مرتبہ

صحیفہ کی دعائیں حسن بلاغت اور کمال فصاحت کے ساتھ ساتھ علوم الہیہ اور معارف یقینیہ کا مجموعہ ہیں جن کے سامنے انسانی عقل سرتسلیم خم کئے رہتی ہے اور عظیم ترین علماء اور دانشور خضوع کے طور پر کرنش بجالاتے ہیں۔ ‏

صحیفہ پر حقیقت بیں صاحبان دل کی ایک نگاہ سے ایک حقیقت کے چہرے سے پردے ہٹ جاتے ہیں کیونکہ صحیفہ کی عبارات خود ہی اس حقیقت کو عیاں کرتے ہیں کہ یہ کلام مخلوق کے کلام سے برتر اور خالق کے کلام سے کمتر ہے؛ چنانچہ یہ جعل سازوں کے اوہام سے بھی برتر و بالاتر ہے اور علماء اور دانشوروں نے بھی اس کی جانب شدید توجہ کی ہے اور اس کی تعریف و تحسین کے مواقع ضائع نہیں ہونے دیئے ہیں۔ کچھ مثالیں ملاحظہ ہوں: ‏

‏1۔ ابن شہر آشوب (متوفی ‏588 ہجری) اپنی کتاب «المناقب» میں لکھتے ہیں: «بصرہ میں ایک مرد بلیغ و ادیب کی موجودگی میں صحیفہ کاملہ کی فصاحت و شائستگی و حسن بیان کا حوالہ دیا گیا کہنے لگا: میں بھی اسی قسم کا صحیفہ املاء اور بیان کرسکتا ہوں اور خود بھی لکھ سکتا ہوں! چنانچہ قلم و قرطاس لےکر لکھنے بیٹھ گیا سرجھکائے بیٹھا رہا اور ایک جملہ بھی نہ لکھ سکا اور نہ بیان کرسکا اور شرمندگی کی حالت میں ہی دنیا سے رخصت ہؤا»۔ ‏(۱۳)

 ‏2۔ سنہ 1353 ہجری میں مرحوم آیت اللہ العظمی مرعشی نجفی رحمة اللہ علیہ نے ‏صحیفہ سجادیہ کا ایک نسخہ اہل سنت کے عالم و دانشور اور «تفسیر طنطاوی» کے مؤلف «مفتی ‏اسكندریہ» «علامہ طنطاوی کے نام «قاہرہ‏» روانہ کیا۔ طنطاوی نے صحیفہ وصول کیا اور اس بیش بہاء تحفے کا شکریہ ادا کرتے ہوئے جواباً تحریر کیا: «یہ ہماری بدبختی ہے کہ یہ گرانبہاء اور علم و معرفت کا زندہ جاوید خزانہ – جو انبیاء کی میراث ہے – اب تک ہماری دسترس سے خارج تھا، میں جتنا بھی اس میں غور کرتا ہوں دیکھتا ہوں کہ یہ کلام، کلام خالق سے کمتر اور کلام مخلوق سے برتر و بالاتر ہے»۔ (۱۴) ‏

البتہ ہمیں اس معاصر مفسر پر حیرت ہے جنہوں نے حتی اہل سنت ہے کے مصادر ومنابع تک میں غور نہیں کیا ہے؛ حالانکہ قندوزی حنفی جیسے کئی سنی علماء نے اس کتاب کے کچھ حصے اپنی تألیفات میں نقل کئے ہیں۔(۱۵) ‏

 ‏3۔ «میرزا ہادی مشہدی "ذاكر"» سے نقل ہؤا کہ ابن جوزی نے «خصائص الائمة‏» میں لکھا ہے: «اگر امیرالمؤمنین علی علیہ السلام نہ ہوتے، مسلمانوں کی توحید اور ان کے عقائد مکمل نہ ہوتے؛ کیونکہ جو کچھ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا وہ اصول عقائد اور دین کے اہم فروعات ہیں مگر عقائد کی باریکیاں اور دقائق [جیسے صفات ذات و فعل، صفات کا عین ذات ہونا] ایسے مسائل ہیں جن کے سلسلے میں مسلمان امیرالمؤمنین علیہ السلام کے مرہون منت اور آپ کے خوان علم و دانش کے ریزہ خوار اور شاگرد ہیں۔۔۔»،

اس کے بعد امام سجاد علیہ السلام کے بارے میں لکھتے ہیں: «علی بن الحسین زین العابدین املاء و  انشاء، خدا کے ساتھ بات کرنے اور کلام و خطاب کرنے کے کیفیت و روش کے حوالے سے مسلمانوں پر استادی کا حق رکھتے ہیں؛ انہوں نے ہمیں اپنی حاجت خدا کے سامنے رکھنے کا سلیقہ سکھایا؛ کیونکہ اگر امام سجاد علیہ السلام نہ ہوتے تو مسلمان خدا کے ساتھ بات اور مناجات کرنے اور اپنی حاجات بارگاہ قدس الہی میں پیش کرنے کی روش سے محروم رہتے؛ امام سجاد علیہ السلام نے لوگوں کو سکھایا کہ وہ استغفار کے وقت خدا کے ساتھ کس طرح بات کریں اور بارش کی درخواست کرتے وقت کس زبان اور کس لب و لہجے میں خدا سے نزول باران کی درخواست کریں، اور دشمن سے خوف کے وقت کس طرح خدا سے پناہ مانگیں اور کس طرح دشمنوں کے شر کو دفع کرنے کی التجا کریں۔۔۔ (۱۶) »

و) صحیفه کی دعاؤں پر ایک نظر

صحیفہ سجادیہ بارگاہ الہی میں راز و نیاز و مناجات اور بیان حاجات کا  ہی مجموعہ نہیں ہے بلکہ اسلامی علوم و معارف کا بیش بہاء خزانہ ہے جس میں اعتقادی، ثقافتی، معاشرتی و سیاسی امور اور بعض قوانین فطرت اور احکام شرعیہ بھی بیان ہوئے ہیں۔ ہاں مگر ان سب کو دعاء اور مناجات کے سانچے میں ڈھالا گیا ہے۔۔۔ [ستمگر گروہ کی حاکمیت اور دنیائے اسلام کے حالات کے پیش نظر یہی روش مناسب ترین تھی]‏۔

خدا کے ساتھ راز و نیاز اور مناجات و ارتباط کے باب میں ایسی دعائیں ہیں جو سال میں ایک دفعہ پڑھی جاتی ہیں جیسے دعائے عرفہ اور ماہ رمضان کی دعائے وداع؛ بعض دعائیں مہینے میں ایک بار پڑھی جاتی ہیں جیسے: دعائے رؤیت ہلال؛ بعض ہفتہ وار ہیں  اور بعض دعائیں ہر شب و روز کے لئے ہیں۔ ‏

Add comment


Security code
Refresh