فروشگاه اینترنتی هندیا بوتیک
آج: Wednesday, 04 December 2024

www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

1. انسان کی خلقت:

صحیفہ سجادیہ کی متعدد دعاوں سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ انسان ازلی نہیں ہے اور کسی حادثے کے نتیجے میں بھی معرض وجود میں نہیں آیا بلکہ اسے خداوند عالم نے ایک خاص ہدف اور مقصد کیلئے خلق کیا ہے۔

امام زین العابدین علیہ السلام خداوند عالم کی حمد و ستائش کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

"کائنات [منجملہ انسان] کو بغیر کسی نمونے کے اپنی کامل قدرت اور ارادے کے ذریعے خلق کیا"۔ [صحیفہ سجادیہ، دعا 1]۔

"تو ہی خدا ہے اور تیرے سوا کوئی خدا نہیں، ہر چیز سے پہلے تو آغاز اور ابتدا ہے اور ہر چیز کے بعد تو انتہا ہے"۔ [صحیفہ سجادیہ، دعا 47]۔

امام زین العابدین علیہ السلام کی نظر میں خدا ہر چیز کا آغاز اور انجام ہے اور ہر چیز سے پہلے اور اسکے بعد موجود ہے، انسان سمیت خدا کے علاوہ تمام موجودات ممکن الوجود ہیں جو مخصوص آغاز اور انجام کی حامل ہیں۔

 

2.انسان کی اخلاقی صلاحیت:

امام سجاد علیہ السلام کی نظر میں انسان کی ہدایت، گمراہی اور اسکا شکور یا کفور ہونے کا منشاء اسکے وجود کی نوعیت ہے۔ جیسا کہ قرآن مجید میں بھی ذکر ہوا ہے، انسان میں روحانی ترقی کرنے اور الہی ہونے کی صلاحیت بھی موجود ہے اور حیوانات کے برابر یا ان سے بھی زیادہ پست ہونے کی توانائی بھی۔ امام زین العابدین علیہ السلام فرماتے ہیں:

"[خدا نے مخلوقات کو خلق کیا اور] انہیں اپنی محبت کے راستے میں متحرک کر دیا"۔ [صحیفہ سجادیہ، دعا 1]۔

لہذا خدا اور پاکیزگی کی جانب کشش انسان کے وجود میں شامل ہے اور یہ انسان ہے جو اپنی عقل اور ارادے کی ذریعے اس فطری کشش پر لبیک کہتا ہے یا اپنے حیوانی پہلو کو ترجیح دیتے ہوئے وہ راستہ اختیار کرتا ہے جسکے شر سے امام سجاد علیہ السلام خدا کی پناہ مانگتے ہوئے ںظر آتے ہیں۔

"اپنے نفس کے شر سے خدا کی پناہ مانگتا ہوں، بلاشک میرا نفس ہمیشہ برائی کی جانب امر کرتا ہے مگر یہ کہ خدا مجھ پر رحم فرمائے"۔

 

3. خدا خواھی :

اگر انسان اپنے اردگرد کے ماحول سے متاثر نہ ہو تو اس میں پیدائشی طور پر خداوند عالم کی جانب جھکاو پایا جاتا ہے۔ امام زین العابدین علیہ السلام نے کئی مواقع پر دعاوں کے ذریعے انسان کے اندر موجود اس خداشناسی اور توحید پرستی کی جانب اشارہ فرمایا ہے۔ کبھی خداوند عالم کی حمد و ثنا کی شکل میں اپنے خالق کی نسبت انسان کی محبت اور تڑپ کو بیان فرمایا ہے تو کسی جگہ خدا سے استدعا اور درخواست کے روپ میں اس حقیقت کو انتہائی خوبصورت الفاظ میں بیان کیا ہے۔

مثال کے طور پر امام سجاد علیہ السلام صحیفہ سجادیہ کی پہلی دعا میں خداوند عالم کی حمد و ثنا کے بعد فرماتے ہیں کہ خدا اول و آخر ہے، وہ ایسا معبود ہے جس نے اپنی قدرت اور اپنے ارادے کے ذریعے تمام مخلوقات کو خلق کیا، پھر ان سب کو اپنے ارادے اور اپنی مرضی کی سمت میں رواں دواں کر دیا اور انکے دلوں میں اپنی محبت ڈال دی۔ دوسرے الفاظ میں یوں کہا جا سکتا ہے کہ خداوند عالم نے انسان کو فطرتا خدا جو اور خدا سے محبت کرنے والا پیدا کیا ہے۔

 

4.انسان ماروائے مادہ ہے :

امام سجاد علیہ السلام نے مختلف دعاوں میں جو حاجات بیان فرمائی ہیں ان سے واضح طور پر ظاہر ہوتا ہے کہ انسان ماورائے مادہ مخلوق ہے اور صرف اسی صورت میں اپنے حقیقی کمال تک رسائی حاصل کر سکتا ہے کہ اسکے دونوں پہلو، جسمانی اور روحانی، کمال کے اعلی درجات تک پہنچ جائیں۔ انسان کی روحانی ضروریات جو اسکے ماورائے مادی پہلو کو ظاہر کرتی ہیں، اسکی مادی ضروریات کی نسبت کہیں زیادہ اہمیت کی حامل ہیں۔ مثال کے طور پر امام زین العابدین علیہ السلام ایک دعا میں خداوند عالم سے درخواست کرتے ہیں کہ اس پست دنیا کی محبت کو انکے دل سے نکال دے جو ان کمالات کے حصول میں رکاوٹ ہے جو خدا کے پاس ہیں اور اپنے خالق کے ساتھ رابطہ برقرار کرنے سے روکتی ہے۔ [صحیفہ سجادیہ، دعا 47]۔

ایک اور دعا میں یوں فرماتے ہیں:

"بار الہا، محمد و آل محمد پر درود بھیج اور میرے دل کو اپنی محبت اور دوستی کیلئے مختص کر دے اور اپنی یاد میں مشغول فرما دے اور اپنی جانب رغبت کی صلاحیت عطا فرما"۔ [صحیفہ سجادیہ، دعا 21]۔

 

5.انسان با اختیار اور با ارادہ ہے :

جیسا کہ قرآن مجید انسان کو اپنے اختیار اور ارادے کا ملک قرار دیتا ہے:

"ہم نے انسان کو راستہ دکھا دیا ہے، وہ چاہے شکر کرے اور چاہے کفران کرے"۔ [سورہ انسان، آیہ 3]۔

اسی طرح امام زین العابدین علیہ السلام بھی انسان کیلئے اختیار اور ارادے کے قائل ہیں اور انسان کو اپنے اعمال کا ذمہ دار قرار دیتے ہیں۔

"بار الہا، میں تیرا وہ بندہ ہوں جسے تو نے پیدا ہونے سے قبل اور پیدا ہونے کے بعد اپنی نعمتوں سے نوازا، اسکے بعد اسکی اپنے دین کی جانب رہنمائی فرمائی اور اسے توفیق دی کہ اپنا حق ادا کر سکے، اسے اپنی رسی سے باندھا اور اپنے گروہ میں قرار دیا اور اپنے دوستوں کے ساتھ دوستی اور اپنے دشمنوں کے ساتھ دشمنی کی جانب ہدایت دی، پھر اسے دستور دیا لیکن اس نے عمل نہ کیا اور اسے روکا لیکن وہ نہیں رکا، اسے اپنے نافرمانی کرنے سے منع کیا لیکن اس نے تیری نافرمانی کی اور جس کام سے اسے منع کیا اس نے وہی انجام دیا"۔ [صحیفہ سجادیہ، دعا 47]۔

مختلف دعاوں میں امام سجاد علیہ السلام کے الفاظ انسان کو اس حد تک بااختیار ظاہر کرتے ہیں کہ وہ خدا کی جانب سے امر و نہی آنے کے بعد بھی انکی نافرمانی کرنے پر قادر ہے اور گناہ کا مرتکب ہو سکتا ہے۔

امام سجاد علیہ السلام صحیفہ سجادیہ کی دعا 53 میں انسان پر گناہ کے نقصان دہ اثرات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ انسان کی سرنوشت اسکے اعمال پر مبنی ہے اور وہ خود اپنی خوشبختی یا بدبختی کا زمینہ فراہم کرتا ہے۔ ایک اور دعا میں امام زین العابدین علیہ السلام ایک شرمندہ گناہکار انسان کی زبانی یہ کہتے ہوئے نظر آتے ہیں:

"بار الہا، میں افراط اور اپنے اوپر ظلم کے باعث تیری درگاہ میں ذلیل اور خوار ہوں، میرے کردار نے مجھے ہلاک کر دیا ہے"۔ [صحیفہ سجادیہ، دعا 52]۔

Add comment


Security code
Refresh