www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

کیا قرآن مجید کو صحابہ کے سلیقہ کے مطابق جمع کیا گیا ھے؟ یا مکمل طور پر پیغمبر اکرم (ص) کی مرضی کے مطابق تدوین کیا گیا ھے؟ 

کیا عثمان نے ایک سیاسی اقدام سے خلافت سے متعلق آیات کو فقھی احکام کی آیات کے بیچ میں قرار نھیں دیا ھے؟ کیا قرآن مجید کو نزول کی ترتیب کے مطابق شائع کرنا بدعت ھے یا نھیں؟
اجمالی جواب : قرآن مجید کو جمع کرنے کی تاریخ کے مطابق، قرآن مجید کی آیات کی جگہ کو خود پیغمبر اکرم(ص) نے مشخص کیا ھے، انھیں صحابہ کے سلیقہ کے مطابق مشخص نھیں کیاگیا ھے، یعنی ھر نازل ھونے والی آیت کے بارے میں آنحضرت (ص) فرماتے تھے کہ اسے کھاں پر جگہ دی جائے اور جو قرآن مجید اس وقت ھمارے پاس ھے، یہ وھی قرآن مجید ھے جو عثمان کے زمانہ میں جمع کیا گیا ھے اور چونکہ قاریوں اور حافظوں کے ایک گروہ نے اس کام میں تعاون کیا ھے اور اس کے علاوہ ھمارے ائمہ اطھار(ع) نے بھی اس کی تائید کی ھے، اس لئے یہ نھیں کھا جاسکتا ھے کہ عثمان نے اپنے سلیقہ سے یہ کام کیا ھوگا اور اپنی مرضی سے آیات کو جابجا کیا ھوگا۔
تفصیلی جواب : قرآن مجید کو تین مرحلوں میں جمع کیا گیا ھے:
۱۔ آیات کو منظم کرنے اور چننے کا مرحلہ کہ سوروں کی حالت پیدا ھوجائے۔ یہ کام ، خود پیغمبر اکرم (ص) کے زمانہ میں آنحضرت (ص)کے حکم سے انجام پایا ھے اور ھر آیت کی جگہ کو خود آنحضرت (ص)نے مشخص فرمایا ھے۔
۲۔ تمام مصحفوں اور جداجدا صفحوں کو جمع کرکے انھیں ایک جلد میں لانا، یہ کام ابوبکر کے زمانہ میں انجام پایا ھے۔
۳۔ مختلف قرائتوں کے درمیان اختلاف کو دور کرنے کے لئے کاتبان وحی کے ذریعہ لکھے گئے قرآن مجید کے تمام نسخوں کو جمع کرکے ایک قرآن کی صورت میں پیش کرنا، یہ کام عثمان کے زمانہ میں انجام پایا ھے۔(۱)
وضاحت:رسول خدا (ص) کے بعد قرآن مجید کو باضابط طور پر خلیفہ اول کے حکم "اور زید بن ثابت" کی ھمت سے صورت ملی اس سے پھلے حضرت علی (ع) نے بھی ایک مصحف تدوین کیا تھا، چونکہ آپ (ع) سب کی بہ نسبت قرآن مجید سے زیادہ آشنا تھے۔ ھجرت کی دوسری اور تیسری دھائی کے دوران اسلامی فتوحات کی وسعت اور اسلام کی طرف روز افزون رجحانات کے پیش نظر لوگوں میں قرآن مجید کی کتابت کے لیے دلچسپی پیدا ھوئی، اس کی وجہ سے لکھنے پڑھنے والے افراد نے قرآن مجید کی کتابت میں کافی ھمت کا مظاھرہ کیا اور وہ ہر علاقہ کے معروف و مشھور مصحفوں سے نسخہ برداری (نقل،مقابلہ) کرتے تھے۔ تاریخ میں مسلمانوں کے درمیان قرآن مجید کی قرائت کے بارے میں اختلاف پائے جاتے تھے اور کھاگیا ھے کہ یہ اختلاف اس امر کا سبب بنے کہ بعض افراد نے ان کو دور کرنے کی چارہ جوئی کی۔(۲)
مختلف مصحفوں کی قرائتوں کو ایک کرنے کی تجویز " حذیفہ" نے پیش کی تھی، عثمان نے بھی اس کی ضرورت کے پیش نظر اقدام کرنے کا فیصلہ کیا، اس لئے انھوں نے صحابیوں کو دعوت دی اور انھوں نے بھی اس کام کی ضرورت کی تائید کی ۔ عثمان نے اس سلسلہ میں چار افراد پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دی، ان میں : زید بن ثابت، عبداللہ بن زبیر، سعد بن عاص اور عبدالرحمان بن حارث شامل تھے اور بعد میں اس کمیٹی کے ارکان کی تعداد بارہ تک پھنچی اور انھیں حکم دیا گیا کہ، چونکہ قرآن مجید قریش کی زبان میں نازل ھوا ھے، اس لئے اسے اسی زبان میں لکھیں۔
قرآن مجید کو ایک نسخہ میں جمع کرنے کی کمیٹی سنہ ۲۵ ھجری میں تشکیل پائی اور عثمان کے حکم سے اس کمیٹی نے جو پھلا کام انجام دیا وہ اس زمانہ کے تمام اسلامی ممالک سے قرآن مجید کے مختلف نسخوں کو جمع کرنا تھا۔ اس مرحلہ میں قرآن مجید کے دوسرے نسخے جمع کرنے کے بعد مدینہ بھیجے جاتے تھے اور خلیفہ سوم کے حکم سے انھیں نذر آتش کیا جاتا تھا، یا ابلتے پانی میں ڈالا جاتا تھا اور اسی وجہ سے عثمان کو" حراق المصاحف" بھی کھا جاتا ھے۔ آخری مرحلہ میں جمع کئے گئے قرآن کے مختلف نسخوں کو اھم علاقوں اور مراکز میں قاری کے ساتھہ بھیجا گیا، تاکہ لوگوں کے سامنے قرآن مجید کی قرائت کریں۔(۳)
ممالک اسلامی کے مختلف علاقوں میں بھیجے گئے قرآن مجید کے ان نسخوں کی تعداد کے بارے میں مورخین کے درمیان اختلاف پایا جاتا ھے۔ ابن ابی داﺆد نے ان کی تعداد چھہ جلد بتائی ھے، جو مکہ، کوفہ، بصرہ، شام، بحرین اور یمن جیسے اسلامی مراکز میں بھیجے گئے ایک نسخہ کو مدینہ میں محفوظ رکھا گیا، اس نسخہ کو "ام" یا "امام " کھتے تھے۔ یعقوبی نے اپنی تاریخ میں اس تعداد کے ساتھہ دو جلد کا اضافہ کیا ھے، ان دو جلدوں کو مصر اور الجزائر بھیجا گیا ھے۔ قرآن مجید کے مختلف نسخے جو مختلف علاقوں میں بیجھے گئے، ان کو ان علاقوں کے مراکز میں محفوظ رکھا جاتا تھا، اور ان سے مزید نسخے نقل کئے جاتے تھے، تاکہ لوگوں تک پھنچا ئے جائیں ۔(۴)
مصحف عثمان کی ترتیب وھی ترتیب ھے، جو اس وقت قرآن مجید کی صورت میں موجود ھے اور یہ نسخہ صحابیوں کے مصاحف، خاص کر مصحف" ابی بن کعب" کے مطابق تھا اور رسم الخط کے لحاظ سے اس زمانہ کے رائج خط یعنی نقطہ اور علامتوں سے خالی تھا۔(۵)
شیعوں کا اس مطلب پر اجماع ھے کہ جو قرآن مجید آج ھمارے ھاتھہ میں ھے، وھی مکمل اور تمام قرآن مجید ھے اور مصحف عثمانی وھی قرآن مجید ھے جو اس وقت ھمارے ھاتھوں میں ھے اور یہ قرآن ھر قسم کی تحریف سے محفوظ ھے، اگرچہ حضرت علی(ع) کے توسط سے جمع کیاگیا قرآن سوروں کے نزول کے مطابق تھا، لیکن چونکہ اسی موجودہ قرآن مجید کی ائمہ اطھار (ع) نے تائید کی ھے، اس لئے ضرورت نھیں ھے کہ ھم اسے دوبارہ نزول کے مطابق شائع کریں، چاھے یہ بدعت بھی نہ ھو، کیونکہ بدعت کے معنی: ایک ایسی چیز کو دین میں داخل کرنا ھے جو دین میں نہ ھو، اور یہ حرام ھے، شیعوں کے اماموں نے بھی اس مطلب کی طرف اشارہ کیا ھے۔
ایک شخص نے امام صادق (ع)کی خدمت میں قرآن مجید کے ایک حرف کی عام لوگوں کی قرائت کے برعکس قرائت کی۔ امام (ع) نے اس سے فرمایا:" اس کلمہ کی دوبارہ اس طرح قرائت نہ کرنا اور جس طرح عام لوگ اس کی قرائت کرتے ھیں، تم بھی اسی طرح قرائت کرنا۔(۶)
حضرت علی (ع) نے متحدی مصحف کے بارے میں اجمالی طور پر اپنی مثبت رائے کا اظھار کیا ھے۔ ابن ابی داﺆد نے سوید بن غفلہ سے روایت نقل کی ھے کہ حضرت علی (ع) نے فرمایا:" خدا کی قسم عثمان نے مختلف مصحفوں کے بارے میں میرے ساتھہ صلاح و مشورہ کئے بغیر کوئی کام انجام نھیں دیا ھے۔(۷)
یا ایک دوسری روایت میں فرمایا ھے:" اگر مصحفوں کی ذمہ داری مجھے بھی سونپی جاتی تو، میں بھی وھی کام انجام دیتا، جو عثمان نے انجام دیا ھے ۔(۸)
نتیجہ یہ کہ: قرآن مجید کو جمع کرنے کی تاریخ کے مطابق قرآن مجید کی آیات کی جگہ کو خود پیغمبر (ص)نے مشخص کیا ھے، اصحاب کے سلیقے کے مطابق یہ کام انجام نھیں پایا ھے۔ یعنی نازل ھونے والی ھر آیت کے بارے میں خود آنحضرت (ص) فرماتے تھے کہ اسے کھاں پر جگہ دیں اور جو قرآن مجید اس وقت ھمارے ھاتھوں میں ھے، یہ وھی قرآن مجید ھے جسے عثمان کے زمانہ میں جمع کیا گیا ھے اور چونکہ اس سلسلہ میں قاریوں اور حافظوں کے ایک گروہ اور کمیٹی نے آپس میں تعاون کیا ھے، اور اس کے علاوہ ائمہ اطھار (ع)نے بھی اس کی تائید کی ھے، اس لئے نھیں کھا جاسکتا ھے کہ یہ عثمان کا اپنا سلیقہ تھا کہ وہ آیات کو جابجا کرتے۔
حوالہ جات:
۱۔ شاکرین، حمید رضا، قرآن شناسی، ص ۱۹، دفتر نشر معارف، طبع هفتم ، ۱۳۸۶. ھ ش.
۲۔ درسنامه علوم قرآني، حسين، جوان آراسته، ص ۱۹۸، انتشارات دفتر تبليغات اسلامي، قم، طبع سوم، سال ۱۳۷۸.ھ ش.
۳۔ ایضا، ص ۲۰۳.
۴۔آموزش علوم قرآن، ترجمه التمهيد في علوم القرآن، محمد هادي معرفت، مترجم ابو محمد وكيلي، ج ۱، ص ۴۲۵، انتشارات مركز طبع و نشر سازمان تبليغات اسلامي، قم، طبع اول،۱۳۷۱، ھ ش
۵۔ ایضا، ج ۱، ص ۴۳۳.
۶۔ایضا، ج ۱، ص ۴۱۶.
۷۔الاتقان في علوم القرآن، جلال الدين سيوطي، ج ۱، ص ۱۷۰، انتشارات عصريّه، طبع بيروت، سال ۱۴۰۸هـ
۸۔محمد ابن محمود معروف به ابن جزری، النشر فی القرائات العشر، ج ۱، ص ۸، انتشارات دارالكتب العلميه، طبع بيروت۔ 

Add comment


Security code
Refresh