دعا کی حقیقت، اس کی روح اور اس کے تربیتی اور نفسیاتی اثر سے بے خبر لوگ دعا پر طرح طرح کے اعتراضات کرتے ہیں۔
کبھی کھتے ہیں: یہ اعصاب کو کمزور اور بے حس کردیتی ہے کیونکہ ان کی نظر میں دعا لوگوں کو فعالیت، کوشش، ترقی اور کامیابی کے وسائل کے بجائے اسی راستہ پر لگا دیتی ہے، اور انھیں سعی و کوشش کے بدلے اسی پر اکتفا کرنے کا سبق دیتی ہے ۔
کبھی کھتے ہیں: دعا اصولی طور پر خدا کے معاملات میں بے جا دخل اندازی کا نام ہے، خدا جیسی مصلحت دیکھے گا اسے انجام دے گا، وہ ھم سے محبت کرتا ہے اور ھمارے مصالح و منافع کو بھتر جانتا ہے، پھر کیوں ھر وقت ھم اپنی مرضی اور پسند کے مطابق اس سے سوال کرتے رھیں؟!
کبھی کھتے ہیں: ان تمام چیزوں کے علاوہ دعا؛ارادہٴ الٰھی پر راضی رھنے اور اس کے سامنے سرِ تسلیم خم کرنے کے منافی ہے!
جو لوگ اس طرح کے اعتراضات کرتے ہیں وہ دعا اور تضرع و زاری کے نفسیاتی، اجتماعی، تربیتی اور معنوی و روحانی آثار سے غافل ہیں، انسان ؛ ارادہ کی تقویت اور دکھ درد کے دور ھونے کے لئے کسی سھارے کا محتاج ہے، اور دعا انسان کے دل میں امید کی کرن چمکا دیتی ہے، جو لوگ دعا کو فراموش کئے ھوئے ہیں وہ نفسیاتی اور اجتماعی طور پر ناپسندیدہ عکس العمل سے دوچار ہھوتے ہیں۔
ایک مشھور ماھر نفسیات کا کھنا ہے: "کسی قوم میں دعا و تضرع کا فقدان اس ملت کی تباھی کے برابر ہے، جس قوم نے دعا کی ضرورت کے احساس کا گلا گھونٹ دیا ہے وہ عموماً فساد اور زوال سے محفوظ نھیں رہ سکتی"۔
البتہ اس بات کو نھیں بھولنا چاھئے کہ صبح کے وقت دعا اور عبادت کرنا اور باقی تمام دن ایک وحشی جانور کی طرح گزارنا، بیھودہ اور فضول ہے، دعا کو مسلسل جاری رھنا چاھئے، کیونکہ کھیں ایسا نہ ھو کہ انسان اس کے عمیق اثر سے ھاتھ دھو بیٹھے۔(۱)
جو لوگ دعا کو کاھلی اور سستی کا سبب سمجھتے ہیں وہ دعا کے معنی ھی نھیں سمجھے، کیونکہ دعا کا یہ مطلب نھیں کہ مادی وسائل و اسباب سے ھاتھ روک لیا جائے اور صرف دستِ دعا بلند کیا جائے، بلکہ مقصد یہ ہے کہ تمام موجودہ وسائل کے ذریعہ اپنی پوری کوشش بروئے کار لائی جائے اور جب معاملہ انسان کے بس میں نہ رھے اور وہ مقصد تک نہ پھنچ پائے تو دعا کا سھارا لے، توجہ کے ساتھ خدا پر بھروسہ کرے اپنے اندر امید کی کرن پیدا کرے اور اس مبداٴ عظیم کی بے پناہ نصرتوں کے ذریعہ مدد حاصل کرے۔
لھذا دعا مقصد تک نہ پھونچنے کی صورت میں ہے نہ کہ یہ فطری اسباب کے مقابلہ میں کوئی سبب ہے۔
مذکورہ ماھر نفسیات لکھتا ہے:
"دعا انسان میں اطمینان پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ انسان کی فکر میں ایک طرح کی شگفتگی پیدا کرتی ہے ، باطنی انبساط کا باعث بنتی ہے اور بعض اوقات یہ انسان کے لئے بھادری اور دلاوری کی روح کو ابھارتی ہے، دعا کے ذریعہ انسان پر بھت سی علامات ظاھر ھوتی ہیں ، جن میں سے بعض تو صرف دعا سے مخصوص ہیں، جیسے نگاہ کی پاکیزگی، کردار میں سنجیدگی، باطنی انبساط و مسرت، مطمئن چھرہ، استعداد ھدایت اور حوادث کا استقبال کرنے کا حوصلہ ، یہ سب دعا کے اثرات ہیں، دعا کی قدرت سے پسماندہ اور کم استعداد لوگ بھی اپنی عقلی اور اخلاقی قوت کو بھتر طریقہ سے کار آمد بنالیتے ہیں اور اس سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھاتے ہیں ، لیکن افسوس کی بات ہے کہ ھماری دنیا میں دعا کے حقیقی رخ کو پھچاننے والے لوگ بھت کم ہیں" ۔(۲)
ھمارے مذکورہ بیان سے اس اعتراض کا جواب واضح ھوجاتا ہے کہ دعا تسلیم و رضا کے منافی نھیں ہے، کیونکہ جیسا کہ ھم پھلے بیان کرچکے ہیں دعا؛ پروردگار کے بے انتھا فیض سے زیادہ سے زیادہ کسبِ کمال کا نام ہے۔
دوسرے الفاظ میں یوں کھا جائے کہ انسان دعا کے ذریعہ پروردگار کی زیادہ سے زیادہ توجہ اور فیض کے حصول کی اھلیت اور استعداد حاصل کرلیتا ہے، اور یہ بات واضح ہے کہ تکامل کی کوشش اور زیادہ سے زیادہ کسب کمال کی سعی قوانین آفرینش کے سامنے تسلیم و رضا ہے ، اس کے منافی نہیں ہے۔
ان سب کے علاوہ دعا ایک طرح کی عبادت، خضوع اور بندگی کا نام ہے، انسان دعا کے ذریعہ ذات الٰھی کے ساتھ ایک نئی وابستگی پیدا کرتا ہے، اور جیسے تمام عبادات ؛ تربیتی تاثیر رکھتی ہیں اسی طرح دعا میں بھی یھی تاثیر پائی جاتی ہے۔
جو لوگ یہ کھتے ہیں کہ دعا امور الٰھی میں مداخلت ہے اور جو کچھ مصلحت کے مطابق ھو خدا عطا کردیتا ہے، چنانچہ وہ لوگ اس طرف متوجہ نھیں ہیں کہ عطیات خداوندی استعداد اور لیاقت کے لحاظ سے تقسیم ھوتے ہیں، جتنی استعداد اور لیاقت زیادہ ھوگی انسان کو عطیات بھی اس لحاظ سے نصیب ھوں گے۔
اسی وجہ سے ھم دیکھتے ہیں کہ حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: "إنَّ عِنْدَ الله عَزَّ وَ جَلَّ مَنْزِلَةٌ لَاتَنَالُ إلاَّ بِمَساٴلةٍ"(۳)خداوندعالم کے یھاں ایسے مقامات اور منازل ہیں جو بغیر مانگے نھیں ملتے۔
ایک دانشور کا کھا ہے: جس وقت ھم دعا کرتے ہیں تو اپنے آپ کو ایک ایسی لامتناھی قوت سے متصل کرلیتے ہیں جس نے ساری کائنات کی اشیا کو ایک دوسرے سے پیوستہ کر رکھا ہے“۔(۴)
نیز موصوف کا کھنا ہے: "آج کا جدید ترین علم یعنی علم نفسیات بھی یھی تعلیم دیتا ہے جو انبیاء کی تعلیم تھی، کیونکہ نفسیاتی ڈاکٹراس نتیجہ پر پھنچے ہیں کہ دعا، نماز اور دین پر مستحکم ایمان؛ اضطراب، تشویش، ھیجان اور خوف کو دور کردیتا ہے جو ھمارے دکھ درد کا آدھے سے زیادہ حصہ ہے"۔(۵) (۶)
حوالہ:
۱۔ نیایش، تالیف :طبیب و روانشناس مشھور "الکسیس کارل"۔
۲۔ نیایش الکسیس کارل۔
۳۔اصول کافی ، جلد دوم، صفحہ ۳۳۸ ، بابُ فَضْل الدُّعَا ء والحِثُّ عَلَیہ ، حدیث۳۔
۴۔آئین زندگی ، صفحہ۱۵۶
(5) آئین زندگی ، صفحہ ۱۵۲۔
۶۔ تفسیر نمونہ ، جلد اول ، صفحہ ۶۳۹۔
منبع: ۱۱۰ سوال اور جواب ؛ مؤلّف : آٰیۃ اللہ مکارم شیرزای ۔