نبوت کے فوائد اوراثرات
انبیاء کی تاریخی حیثیت واھمیت اور کردار، ان کے مثبت اثرات اور تعمیری اقدامات جو وہ کرگئے ھیں یا تھذیب وتمدن کے لئے ان کے خدمات کسی سے پوشیدہ نھیں ھیں۔ انبیاء تاریخ بشریت کے بزرگ ترین مصلح اوردل سوز ودردمند ترین رھبر رھے ھیں کہ جنھوں نے بشر کو اس کے کمال و سعادت اور نجات کی آخری منزلوں تک پھونچانے میں کوئی کسر نھیں چھوڑی ھے۔ انبیاء نے ھزارھا مسائل و مشکلات کا سامنا کیا، مصائب وآلام کو برداشت کیا نیز اپنی اپنی امتوں کی اذیتوں و آزار رسانیوں کو خندہ پیشانی سے قبول کیا اوراس طرح تاریخ و معاشروں میں عظیم ترین تبدّل و تغیّر لانے میںکامیاب ھوئے۔ اس سلسلے میں تاریخ کا مطالعہ اور پیغمبر اسلام کے زمانے کے عرب معاشرے نیز اس وقت کی دنیا کے حالات وکیفیات پرسرسری نگاہ ڈالنا ھی کافی ھے۔ جاھل ووحشی عرب اقوام اوراسلامی تھذیب وتمد ن کا اجمالی تقابل ھی محققین اور دانشمندوں کی آنکھیں کھولنے کی کافی ھے۔ یھاں اس زمانے کی تاریخ پر مفصل تحقیق وتبصرہ ممکن نھیںھے لھٰذا ان مباحث کو تاریخ اسلام سے مربوط مباحث پر موقوف کیا جاتا ھے۔
یھاں ھمارا مطمح نظر صرف اتنا ھے کہ قرآن مجید کی آیات کے ذیل میں مبلغان دین یعنی انبیاء اور نبوت کے ذریعہ حاصل ھونے والے فوائد و اثرات کوبیان کردیا جائے۔
(۱) تعلیم
انبیاء کی پھلی اور اھم ذمہ داری اپنی امت کیلئے تعلیم کی فراھمی ھے یعنی ان کو ان حقائق سے آشنا کرائیں جن کو وہ نھیںجانتے یا نھیں جان سکتے۔ اس بات کا تفصیل سے ذکر ھو چکا ھے کہ بعثت انبیاء اور بشر کے درمیان ان کی موجودگی کو جو چیز ضروری اور لازم قرار دیتی ھے وہ بشر کی اپنی راہ نجات و کمال سے متعلق جھالت اور لاعلمی ھے۔ انبیاء اس لئے آئے تھے کہ اس جھالت کو علم میں تبدیل کریںاور اس مجھول کو معلوم میں تبدیل کریں۔
"ربنا وابعث فیھم رسولاً منھم یتلوا علیھم آیاتک ویعلمھم الکتاب والحکمة ویزکیھم انک انت العزیز الحکیم"
پروردگارا ! ان کے درمیان ایک رسول کو مبعوث فرماجو ان کے سامنے تیری آیتوں کی تلاوت کرے۔ انھیں کتاب وحکمت کی تعلیم دے اور ان کے نفوس کو پاکیزہ بنائے۔ بیشک تو صاحب عزت و صاحب حکمت ھے۔ (۲)
"کما ارسلنا فیکم رسولاً منکم یتلوا علیکم آیاتنا ویزکیکم ویعلمکم الکتاب والحکمة ویعلمکم مالم تکونوا تعلمون"
جس طرح ھم نے تمھارے درمیان میں سے ایک رسول بھیجا ھے جو تم پر ھماری آیات کی تلاوت کرتا ھے تمھیں پاک و پاکیزہ بناتا ھے اور تمھیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ھے اور وہ سب کچھ بتاتا ھے جو تم نھیں جانتے ۔ (۳)
بعض مفسرین قرآن کھتے ھیں :جملہٴ”یعلمکم ما لم تکونوا تعلمون “ سے مراد یہ ھے کہ تمھیں ان چیزوں کی تعلیم دیتے ھیں جنکو تم نھیں جانتے یا نھیں جان سکتے برخلاف جملہٴ”یعلمکم ما لم تعلمون“
تعلیمات انبیاء کے دو حصے کئے جاسکتے ھیں:
(۱) ایسے حقائق کہ جن کا علم بشر کی دسترس سے مکمل طور پر باھر ھے انسان جس قدر کوشش کرلے اپنی حس وعقل کے ذریعہ ان تک نھیں پھونچ سکتا۔
(۲) ایسے حقائق کہ عقل انسانی جن کا ادراک کرسکتی ھے لیکن ان تک دسترس کے لئے برسھا برس بلکہ صدیوں کی کوشش علمی اور تجربہٴ علمی درکار ھوتا ھے۔
انبیاء کرام ان موارد میں انسان کی مشکلات ومسائل کو آسان کرتے ھیں اور ان علوم ومعارف کو تیار شدہ ان کے حوالے کردیتے ھیں۔
(۲) تزکیہٴ نفس
انبیائے الٰھی وہ پاک و پاکیزہ اور نیک افراد گزرے ھیں جن میں تمام نیک صفات پائی جاتی تھیں نیز تمام صفات بدو قبیح سے کنارہ کش ھوتے تھے۔ انبیاء کیونکہ بذات خود عدالت، صداقت، طھارت، شجاعت، فیاضی، امانت وغیرہ جیسی صفات کا مجسم نمونہ ھوتے تھے لھٰذا اپنی امت کوبھی ان نیک صفات کی طرف دعوت دیتے تھے ساتھ ھی تمام بری صفات سے اجتناب کی طرف راغب بھی کراتے تھے یایوں کھا جائے کہ قرآن کریم کے مطابق لوگوں کے نفوس کا تزکیہ کرتے اور قلوب کو پاکیزہ بناتے تھے۔
تزکیہٴ نفوس اور تربیت بشر اس قدر اھم ھے کہ قرآن ھمیشہ تزکیہ کو تعلیم پر مقدم کرتا نظر آتاھے۔ سورہٴ بقرہ کی صرف ایک آیت ، آیت نمبر ۱۲۹،ایسی ھے جھاں تعلیم پھلے ھے اور تزکیہ بعد میں البتہ یہ آیت حضرت ابراھیم و اسماعیل کی زبانی ھے اور مقام تحقق و وقوع میں ھے یعنی مرحلہٴ عمل میں کیونکہ تعلیم تربیت پر مقدم ھوتی ھے لھٰذا آیت میں پھلے تعلیم کا ذکر کیا گیا ھے بعدمیں تزکیہ کا۔
(۳) تذکر و نصیحت
انسان فطرت الٰھی پر پیدا ھوتا ھے اور اعتقاد خدا، اس کی عبادت کی طرف راغب ھونا، اچھی اور نیک صفات وفضائل کی طرف جھکاؤ جیسے بھت سے تمایلات وصفات اس کے وجود میں ابتدا ھی سے راسخ ھوتے ھیں جو اس کو نجات وکمال کی طرف لے جا سکتے ھیں لیکن انسان ھوا و ھوس ، حب دنیا اور مادی لذتوں کی طرف رغبت نیز اپنی ذات کی طرف سے غفلت کی بنا پر اپنی اس فطرت کو غبار آلود کردیتا ھے اور ان مذکورہ تمام تمایلات وصفات کو پس پشت ڈال دیتا ھے۔ لھٰذا طول تاریخ میں انبیاء مبعوث ھوئے ھیں کہ وہ بشر کو اس کی اس فطرت کی طرف پلٹا سکیں اور اس کے ان مقدس تمایلات فطری کو بیدار کرسکیں جوسوئے ھوئے ھیں۔ اس سلسلے میں قرآن کریم نے انبیاء کرام کو ”مذّکر“یعنی یاد دلانے والا کھا ھے:
"فذکر انما انت مذکّر"
(لھٰذا) تم نصیحت کرتے رھو کہ تم صرف نصیحت کرنے والے ھو۔(۴)
"کلا انہ تذکرة"( ھاں ھاں بیشک یہ سرا سر نصیحت ھے ۔(۵)
(۴)غلامی اور قیدو بند سے آزادی
انبیائے خدا نے انسان کی مختلف نوع کی آزادی میں اھم کردار ادا کیا ھے۔ انھوں نے جھاں ایک طرف بشر کو بادشاھوں اور سلطنتوں کی شکل میں مادی قدرتوں کی قید سے آزادی دلائی وھیں دوسری طرف اس کو ھویٰ و ھوس ، شھوت پرستی، مادیت اور حب دنیا جیسی زنجیروں سے آزاد کرایا۔
"ویضع عنھم اصرھم والا غلال التی کانت علیھم"
ان کے اوپر سے بوجھ اور قید و بند کواٹھالیتا ھے۔ (۶)
حقیقت یہ ھے کہ انبیاء لوگوں کو خدا کی بندگی کی طرف دعوت دیتے تھے کیونکہ انسان جب تک خدا کا بندہ نھیں ھوجاتا، آزا د نھیں ھوسکتا۔ اگر کوئی شخص بندگی خدا کو اختیار نہ کرے تو ھمیشہ ھمیشہ کے لئے اسیر ھوا و ھوس اور صفات رزیلہ کا غلام ھوجاتا ھے کہ یہ صفات اسے ھر لمحہ ادھر سے ادھر اور ادھر سے ادھر کھینچتی رھتی ھیں اور اگر خوش قسمتی سے بندگی خدا اختیار کرلے اور بارگاہ خداوندی میں سر بسجود ھوجائے تو ھمیشہ ھمیشہ کے لئے تمام قید و بندسے آزادھو جاتا ھے۔
(۵) عدالت اجتماعی
انبیاء کے اھداف میں سے ایک اھم ھدف، معاشرے میں عدل وانصاف کی برقراری ھے۔ قرآن واضح طور پر عدالت اجتماعی بر قرار کرنے کو انبیاء کااھم ھدف او ران کی ایک بڑی ذمہ داری کے طور پر پیش کرتا ھے۔
"لقد ارسلنا رسلنا بالبینات وانزلنا معھم الکتاب والمیزان لیقوم الناس بالقسط"
بیشک ھم نے رسولوں کو واضح دلائل کے ساتھ بھیجا ھے اور ان کے ساتھ کتاب و میزان کو نازل کیا ھے تاکہ لوگ انصاف کے ساتھ قیام کریں۔(۷)
(۶) نمونہٴ عمل
آج تمام ، ماھرین نفسیات اس بات پر متفق ھیں کہ کس نمونہٴ عمل کا وجود، افراد معاشرہ کی تربیت میں ایک اھم کردار ادا کرتا ھے اور کمال و تربیت انسان کے اھم ترین اسباب وعوامل میں سے ایک ھے۔ انبیائے الٰھی کے وجود کا ایک فائدہ اور خصوصیت یہ بھی تھی کہ وہ معاشرے کے عام لوگوں کے درمیان زندگی گزارتے تھے اور لامحالہ اپنی صفات کی بنیاد پر عوام الناس کے لئے نمونہٴ عمل ھونے کا کردار نبھاتے تھے۔
"لقد کان لکم فی رسول الله اسوة حسنة لمن کان یرجوا الله والیوم الآخر وذکر الله کثیراً"
تم میں سے اس کے لئے رسول کی زندگی میں بھترین نمونہٴ عمل ھے جو الله اور آخرت سے امیدیں وابستہ کئے ھوئے ھے اور الله کو بھت زیادہ یاد کرتا ھے۔ (۸)