عقل انسانی اگرچہ اس کو خلاقیت کی قوت دی گئی ھے لیکن پھر بھی بعد والی مصلحتوں کا ادراک کرنے سے قاصر ھے، اور انسان اپنے اوپر آنے والی مشکلات کو دور نھیں کرسکتا
اگرچہ کچھ مشکلات کو تجربات کی بناء پر حل کرسکتا ھے اور بعض میں غلطی اور خطا کا بھی امکان ھے، اور بعض مشکلات تو ایسی هوتی ھیں کہ انسانی عقل کی رسائی ان تک نھیں اور منزل مقصود تک نھیں پهونچا جاسکتا:
"وَمَا اٴَنْزَلْنَا عَلَیْکَ الْکِتَابَ اِلّٰا لِتُبَیِّنَ لَھمْ الَّذِیْ اخْتَلَفُوْا ِفیْہِ"(۱)
(اور ھم نے تم پر کتاب (قرآن) تو اسی وجہ سے نازل کی تاکہ جن باتوں میں یہ لوگ باھم جھگڑا کئے ہیں ان کو صاف صاف بیان کردو)
اس نظام بشریت سے پھلے بھی خاص نظریات کی حکومت تھی اور بعض امتیازات کو فوقیت دی جاتی تھی، نظام کے بنانے والے چاھے جس قبیلہ سے هوں یا کسی رنگ کے هوں،ان میں ذات پات کا انعکاس پایا جاتا تھا۔
اسی لئے ضروری تھا کہ نوع انسانی ان تمام جھل ونادانی اور غلط تجربوں سے چھٹکارا پانے کے لئے ایک ایسا عام نظام بنائیں جو انسان کی ضرورتوں کو جانتا هو، اور ان کی روز مرہ کی مشکلات کو درک کرنے کی صلاحیت رکھتا هو، اور اس کے نفع ونقصان کی چیزوں کو بیان کرتا هو، اور نوع انسانی کے تمام افراد کے ساتھ مساوات کے قائل هو ، اور یہ نہ دیکھے کہ یہ کس گروہ سے تعلق رکھتاھے کس طبقہ سے مرتبط ھے، اور کس شھر کا رھنے والا ھے۔
اس کائنات میں ان صفات کا حامل خداوندعالم کے علاوہ کوئی نھیں ھے۔ اور یہ نظام اورقوانین خدا کی طرف سے بھیجے گئے انبیاء (ع) کی رسالت کے علاوہ کچھ نھیں ھے، خدا نے اپنے انبیاء کو روئے زمین پر بھیجا تاکہ انسانیت کو کامیاب وکامران بنائیں اور اس کو اندھیروں سے نکال کر نور کی طرف ھدایت کریں۔
اور"لطف" کے یھی معنی علماء علم کلام کی بھی مراد ھیں، لہٰذا اسی (لطف) کی طرف مستند کرتے ھیں کہ قاعدہ لطف کی بنا پر خداوندعالم کے لئے ضروری ھے کہ تاقیام قیامت نبوت کاانتظام کرے تاکہ نبوت کے ذریعہ نوع انسانی ہدایت یافتہ هوکر اپنے نفع ونقصان کی باتوں کا پتہ لگاسکے اور ان پر عمل پیرا هوکر سعادت اخروی حاصل کرلے۔
براھمہ کا نظریہ یہ ھے کہ انسان کو انبیاء ومرسلین کی کوئی ضرورت نھیں ان کی دلیل اور گمان یہ ھے کہ چونکہ انبیاء (ع) وھی سب کچھ بیان کرتے ھیں جس بات کاعقل حکم کرتی ھے تو جب ھمارے پاس عقل ھے تو پھر انبیاء ومرسلین کی کیا ضرورت ھے؟! اور اگر انبیاء وہ چیزیں بیان کریں جو عقل کے مخالف هوں تو ان کو فرض کے خلاف سمجھ کر چھوڑدیا جاتا ھے اوران پر عمل نھیں کیا جاتا۔
لیکن ان کی یہ دلیل اور گمان بالکل واضح البطلان ھے کیونکہ دلیل و برھان ان کے نظریہ کے برخلاف ھے، کیونکہ جو شخص بھی آسمانی ادیان سے واقف ھے اس کو یہ بات اچھی طرح معلوم ھے کہ ھمیشہ شریعت ایسی چیزوں پر مشتمل هوتی ھے جن میں سے کچھ چیزیں عقل پر واضح هوتی ھیں جبکہ کچھ چیزیں واضح نھیں هوتیں اور جو چیزیں عقل پر واضح هوتی ھیں ان پر شریعت زور دیتی ھے اور ان پر عمل کرنے کاحکم دیتی ھے اور اس میں عقل کی اھمیت واضح ھے۔
لیکن وہ چیزیں جو عقل پر واضح اور معلوم نھیں هوتیں (جبکہ ان کی تعداد بھی بھت زیادہ ھے) تو ان چیزوں میں مقصد یہ هوتا ھے کہ لوگوں کو ان بھترین کاموں کی طرف ھدایت کرے جن میں انسان اپنی زندگی کے مشکل ، مجهول اور جدید مسائل میں سرگرداں رھتا ھے۔
یہ وہ چیزیں ھیں جن کو عقل نھیں پھچانتی اور جن کو براھمہ نے "مخالف عقل"سے تعبیر کیا ھے جبکہ ان کی یہ تعبیر بعید از عقل ھے، کیونکہ رسالت ونبوت جو کچھ بھی بیان کرتی ھیں وہ کبھی بھی عقل کے مخالف نھیں هوا کرتی،لیکن چونکہ انھوں نے ھراس چیز کو مخالف عقل قرار دیدیا جو عقل پرواضح نہ هو، اور یھیں سے رسالت ونبوت مجهول چیزوں سے پردہ برداری کرتی ھیں، اور عقل کو متوجہ کرتی ھے۔
ارشاد رب العز ت ھے:
"لَقَدْ مَنَّ اللّٰہَ عَلَی الْمُوٴمِنِیْنَ اِذْ بَعَثَ فِیْہھمْ رَسُولاً مِنْ اٴَنْفُسِھِمْ یَتْلُوْا عَلَیْھمْ آیَاتِہِ وَیُزَکِّیْھمْ وَیُعَلِّمُھُمُ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَةَ"(۲)(خدا نے توایمانداروں پر بڑا احسان کیا کہ ان کے واسطے انھیں کی قوم سے ایک رسول بھیجا جو انھیں خدا کی آیتیں پڑھ پڑھ کر سناتا ھے اور ان کی طبیعت کو پاکیزہ کرتا ھے اور انھیں کتاب (خدا) اور عقل کی باتیں سکھاتا ھے)۔
نیز ارشاد هوتا ھے:
"تِبْیَاناً لِکُلِّ شَیٍٴ وَہُدیً وَرَحْمَةً"(۳)
(سر تا پا) ھدایت اور رحمت اورخوشخبری ھے۔
کیونکہ خداوندعالم نے ان عظیم سُفراء (انبیاء (ع)) کو امام کی صفت سے متصف کیا ھے:
"قَالَ إِنِّی جَاعِلُکَ لِلنَّاسِ إِمَاما"(۴)
(ھم تم کو لوگوں کا امام بنانے والے ھیں)
اسی طرح انبیاء (ع) کو خلافت کے نام سے نوازا:
"یَادَاوُدُ إِنَّا جَعَلْنَاکَ خَلِیفَةً فِی الْاٴَرْض"(۵)
(اے داوود ھم نے تم کو زمین پر (اپنا) نائب قرار دیا)
اور کبھی ان حضرات کو رسالت کے لقب سے سرفراز کیا:
"وَسَلاٰمٌ عَلَی الْمُرْسَلِیْنَ"(۶)
(اور پیغمبروں پر (درود) وسلام هو)
"اَلَّذِیْنَ یُبَلِّغُوْنَ رِسَالٰاتِ اللّٰہِ"(۷)
(وہ لوگ جو خدا کے پیغاموں کو (لوگوں تک جوں کا توں) پھنچاتے ھیں)
اور کبھی ان کو نبوت کا نام دیا:
"فَبَعَثَ اللّٰہُ النَّبِیِّیْنَ مُبَشِّرِیْنَ وَمُنْذِرِیْنَ"(۸)
(تب خدا نے (نجات سے) خوشخبری دینے والے اور (عذاب سے) ڈرانے والے پیغمبروں کو بھیجا)۔
اور کبھی بھی ان حضرات کو حاکم کی صفت سے توصیف نھیں فرمایا، چاھے قانونی معنی کے لحاظ سے هو یا سیاسی لحاظ سے، کیونکہ نبی ورسول حاکم اعلی نھیں هوتے ھیں بلکہ حاکم اعلی (خدا) کے نائب هوتے ھیں۔
قرآن کریم مذکورہ صفات (جن کی طرف ابھی اشارہ کیا گیا ھے) میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمسے خطاب کے لئے فقط نبی اور رسول کھہ کر خطاب فرماتا ھے:
"یٰاٴَ یُّھا الرَّسُوْلُ بَلِّغْ مَا اٴُنْزِلَ اِلَیْکَ مِنْ رَّبِّکَ"(۹)
(اے رسول جو حکم تمھارے پروردگار کی طرف سے تم پر نازل کیا گیا ھے اس کو پہنچادو)۔
"یَا اٴَیُّھَا النَّبِیُّ حَسْبُکَ اللّٰہُ"(۱۰)
(اے رسول تم کو بس خدا کافی ھے)۔
اور یھی دوصفات قرآن مجید میں اکثر مقامات پر تکرار هوئی ھیں، اب سوال یہ پیدا هوتا ھے کہ کیا یہ ان دونوں صفات کے ایک ھی معنی ھیں یا ان صفات میں فرق ھے؟!
اس سوال کے جواب میں صرف اتنا عرض کرنا ھے کہ صاحب علم وبصیرت کے نزدیک حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بارے میں ان دونوں صفات میں کوئی فرق نھیں ھے کیونکہ آپ کی ذات گرامی میں یہ دونوں صفات جمع ھیں اور آپ کی ذات والا صفات ان دونوں الفاظ کی مصداق ھے، اور اگر ان دونوں صفات میں فرق پایا جاتا ھے تو گذشتہ انبیاء ومرسلین میں ملتا ھے کہ ان میں سے بعض رسول تھے اور باقی تمام نبی۔
اگرچہ اس سلسلہ میں بہت سی تاویلات بیان کی گئی ھیں اور ان دونوں صفات کو اس طرح بیان کیا گیا ھے:
نبی وہ هوتا ھے جو خدا کی باتوں کو بغیر واسطہ کے انسانوں تک پهونچائے چاھے وہ صاحب شریعت هو یا نہ هو، صاحب شریعت هو جیسے ھمارے نبی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمیا صاحب شریعت نہ هو جیسے حضرت یحیٰ علیہ السلام کیونکہ ان کو اس وجہ سے نبی کھا گیاکہ ”انھوں نے خدا کی طرف سے خبر دی ھے۔“ نبی بروزن فعیل بمعنی مفعل ھے۔(۱۱)
اور رسول وہ هوتا ھے جو بغیر واسطہ کے خدا کی طرف سے خبر دے اور وہ صاحب شریعت بھی هو۔ (۱۲)
یھاں سے یہ بات ظاھر هوتی ھے کہ خدا کی طرف سے خبر دینے میں نبی ورسول دونوں برابر ھیں لیکن رسول کا امتیاز یہ ھے کہ وہ صاحب شریعت بھی هوتا ھے جبکہ نبی عام هوتا ھے چاھے وہ صاحب شریعت هو یا پھلے نبی کی شریعت کی تبلیغ کرے
حوالہ جات:
۱۔سورہ نحل آیت ۶۴۔
۲۔سورہ آل عمران آیت ۱۶۴۔
۳۔سورہ نحل آیت ۸۹۔
۴۔سوره بقره آیت ۱۲۴۔
۵۔سورہ ص آیت۲۶۔
۶۔سورہ صافات آیت۱۸۱۔
۷۔سورہ احزاب آیت۳۹۔
۸۔سورہ بقرہ آیت ۲۱۳۔
۹۔سورہ مائدہ آیت ۶۷۔
۱۰۔سورہ انفال آیت ۶۴۔
۱۱۔مجمع البحرین ، علامہ طریحی جلد اول ص ۴۰۵،مطبوعہ نجف اشرف ۱۳۷۸ھ۔ ۔
۱۲۔مجمع البحرین ، علامہ طریحی جلد اول ص ۴۰۵،مطبوعہ نجف اشرف ۱۳۷۸ھ۔ ۔