www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

خدا شناسی کے ضمن میں ایک معمولی شبہ یہ ہے کس طرح ایک ایسے موجود پر ایمان لایا جا سکتا ہے کہ جو قابل درک نھیں ہے اور نہ ھی اسے حس کیا جاسکتا؟
یہ شبہ ھمیشہ ان لوگوں کے ذھنوں میں اٹھتا ہے کہ جو قوی فکر کے مالک نھیں ہیں، لیکن ایسے دانشور بھی ہیں کہ جنھوں نے اپنے تفکر کی بنیا د ''اصالت حس'' پر قائم کی ہے اور نا محسوس موجود سے انکار کیا ہے یا کم از کم اسے یقینی معرفت سے بعید سمجھا ہے۔

اس شبہ کا جواب یہ ہے کہ ادراکات حسی کو جسم و جسمانیات سے بدن کو مس کرنے کے ذریعہ حاصل کیا جاتا ہے اورھمارے حواس میں سے ھر حس اپنی موقعیت اور خاص شرائط کے تحت مادی موجودات کو درک کرتی ہے اور جس طرح آنکھ سے سننے یا کان سے دیکھنے کی توقع باطل ہے اسی طرح یہ انتظار بھی باطل ہے کہ ھمارے حواس تمام موجودات کو درک کرلیں گے۔
ایک تو یہ کہ مادی موجودات کے درمیان ایسی بھی چیزیں موجود ہیں جو حس کے دائرے سے باھر ہیں جس طرح کہ ھمارے حواس (ULTRA-VIOLET (اور (INFRA - RED)کے انوار اور الکٹرومنٹک وغیرہ امواج کو درک کرنے سے عاجز ہے۔
دوسرا یہ کہ ھم بھت سے حقائق کو ظاھری حواس کے علاوہ دوسری راھوں سے درک کرتے ہیں، اور ان کے وجود کا یقینی ا عتقاد حاصل کرلیتے ہیں جبکہ وہ حس کی قدرت سے باھرہیں، جیسے کہ ھم خود اپنے ڈر، ارادہ، محبت اور دوسری صفات سے آگاہ ہیں، اور ان کے وجود پر پورا ایمان بھی رکھتے ہیں، حالانکہ یہ روحی آثار خود روح کی طرح حس کے دائرے سے باھر ہیں، اس کے علاوہ خود ادراک ایک غیر عادی اور نامحسوس امر ہے۔
لھذا حواس کے ذریعہ کسی چیز کا درک نہ ھونا نہ تنھا اس کے نہ ھونے کی دلیل نھیں بن سکتا بلکہ اسے بعید بھی نھیں کھا جا سکتا۔
 

Add comment


Security code
Refresh