توحید افعالی
فلاسفہ اور متکلمین کے نزدیک توحید کی چوتھی اصطلاح ''توحید ِافعالی'' ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ خدا اپنے امور کو انجام دینے میں نہ تو کسی شی کا محتاج ہے اور نہ ھی کسی بھی موجود میں اتنی استطاعت ہے کہ وہ اس کے امور میں اس کی مدد کر سکے۔
یہ مطلب علت وجود آفرین کی خصوصیات یعنی ذات الٰھی کا تمام مخلوقات کے مقابلہ میں قیومیت سے متصف ھونے کی طرف توجہ کے ذریعہ سمجھ میں آجاتا ہے اس لئے کہ ایسی علت کا معلول اپنے تمام وجود کے ساتھ علت کے سھارے قائم ھوتا ہے اور بذات خود کسی بھی قسم کے استقلال سے عاری نھیں ہے۔
ایک دوسری تعبیر کے مطابق جس کے پاس جو کچھ بھی ہے وہ خدا کا عطا کردہ ہے اور اسی کے دائرہ قدرت میں ھونے کے ساتھ اسی کی مالکیت حقیقی اورتکوینی کے زیر سایہ ہے، اور نیز خدا کی قدرت و مالکیت، قدرت الٰھی کا ایک جز بلکہ اس کے طول میں سے ہے نہ یہ کہ اس کی قدرت خداکی قدرت کے مدمقابل کسی مزاحمت کا باعث ہے ، جیسے کہ ایک غلام کی مالکیت مولیٰ کی اعتباری مالکیت کے زیر سایہ ھوتی ہے ''العبد و ماف یدہ لمولاہ'' لھذاکیسے ممکن ہے کہ خدا ان مخلوقات محتاج و ضرورت مند ھو جو خود اسی کے ذات سے وابستہ اور اسی کے ذریعہ قائم ہیں؟!
تاثیر استقلالی
توحید کی پانچویں اصطلاح اثر انداری میں استقلال ہے(عرفاء ''توحیدِ افعالی کو اس معنی میں استعمال کرتے ہیں.) یعنی مخلوقات اپنے امور میں ذات الٰھی سے بے نیاز نھیں ہیں، اور جو اثرات بھی ایک دوسرے پر ڈالتے ہیں وہ خدا کی دی ھوئی طاقت اور اس کی اجازت سے ہے در حقیقت جو ذات ھر شی سے بے نیاز ھو کر اپنے امور انجام د یتی ہے وہ ذات اقدس الٰھی ہے، دوسروں کی تاثیر اور فاعلیت، اسی کی تاثیر اور فاعلیت کے زیرِ سایہ ہے۔
اسی وجہ سے قرآن کریم ،طبیعی اور غیر طبیعی فاعلوں (جیسے جن و انس اور ملک ) کی نسبت خدا کی طرف دیتا ہے اورفرماتا ہے کہ بارش کا برسنا، سبزہ کا اگنا اور درختوں کا پھل دینا یہ سب اسی کی طرف سے ہے اور اس بات کی تاکید کرتا ہے تا کہ لوگ اس بات کو درک کریں اور برابر خد ا کی طرف متوجہ رھیں،کہ امور کی نسبت خدا کی جانب تمام عوامل کی بہ نسبت قریب ہے تقریب ذھن کے لئے یہ مثال کافی ہے کہ اگر کسی محکمہ کا رئیس اپنے زیر دست خدمت گذاروں کو کسی امر کے انجام دینے کا فرمان صادر کرے جبکہ امور کا انجام دینا انھیں کاری گروں پر موقوف ہے لیکن کاری گروں کے ذریعہ انجام دیئے گئے امور کی نسبت محکمہ کے رئیس کی طرف دی جاتی ہے بلکہ عقلا فرمان صادر کرنے والے کی طرف نسبت دینے کو قوی اور بھتر جانتے ہیں۔
فاعل تکوینی کے بھی مراتب ہیں اور چونکہ کسی بھی فاعل کا وجود ارادۂ الٰھی کے ذریعہ قائم ہے، بالکل اسی طرح کہ جیسے صورت ذھنیہ کا وجود، تصور کرنے والے کے ذریعہ قائم ہے ''وللہ المثل الاعلی'' لھذا اگر کسی فاعل سے کوئی اثرات ظاھر ھوتے ہیں تو وہ خدا کے اذن اور ا س کے ارادہ تکویتی کے سبب سے ہیں "ولا حول ولا قوّة الا باللّہ العل العظیم"
دو مھم نتیجے
توحید ِافعالی کا نتیجہ یہ ہے کہ انسان خدا کے علاوہ کسی بھی موجود کو لائق عبادت نہ سمجھے، اس لئے کہ صرف انسان کا خالق اور اس کا رب لائق پرستش ہے اور بس، یا ایک دوسری تعبیر کے مطابق الوہیت ،خالقیت اور ربوبیت کا لازمہ ہے۔
اس کے علاوہ انسان کا تمام اعتماد خدا پر ھونا چاھیے اور اپنے تمام امور میں اسی پر توکل کر نا چاھیے ،اور صرف اسی سے مدد مانگنا چاھیے اور اس کے علاوہ کسی دوسرے کا خوف دل میں نھیں آنا چاھیے نہ کھائے یھاں تک کہ جب اس کی احتیاجات کو پورا کرنے والے اسباب کا وجود نہ ھو تو تب بھی نا امید نہ ھو اس لئے کہ خدا غیر عادی راھوں سے اس کی احتیاجات کو پورا کرنے کی قدرت رکھتا ہے۔
ایسا انسان ولایت خاصہ کے سایہ میں ھوتا ہے اور بے نظیر روحی اطمینان سے برخوردار ھوتا ہے "َلََا اِنَّ اَولِیَاء اللّہِ لَا خَوف عَلَیھم وَلَا ھم یَحزَنُونَ".
آگاہ ھوجاؤ اس میں شک نھیں، کہ دوستان خد ا ( قیامت میں ) نہ کوئی خوف ھوگا اور نہ وہ آزردہ خاطر ھوں گے۔
"اِیَّاکَ نَعبُدُ وَ اِیَّاکَ نَستَعِینُ"
اس آیہ شریفہ میں یہ دو نتیجے موجود ہیں، جسے ھر مسلمان روزانہ کم از کم دس مرتبہ تلاوت کرتا ہے۔