www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

 

۱۔علامت ولادتِ صحیح

رسول اکرم(ص) لوگو ! اپنی اولاد کا امتحان محبت علی (ع) کے ذریعہ لو کہ علی (ع) کسی گمراھی کی دعوت نھیں دے سکتے ہیں اور کسی ھدایت سے دور نھیں کرسکتے ہیں

 جو اولاد ان سے محبت کرے وہ تمھاری ہے ورنہ پھر تمھاری نہیں ہے۔( تاریخ دمشق حالات امام علی (ع) 2 ص225 / 730)۔

 امام علی (ع) ! رسول اکرم(ص) نے ابوذر سے فرمایا کہ جو ھم اھلبیت (ع) سے محبت رکھتاہے اسے شکر خدا کرنا چاھیئے کہ اس نے پہلی ھی نعمت عنایت فرمادی ہے ابوذر نے عرض کی حضور یہ پہلی نعمت کیا ہے ؟فرمایا حلال زادہ ھونا کہ ھماری محبت حلال زادہ کے علاوہ کسی کے دل میں نھیں ھوسکتی ہے۔( امالی طوسی (رہ) ص 455 / 1918 روایت حسین بن زید و عبداللہ بن ابراہیم الجعفری عن الصادق (ع))۔

 رسول اکرم(ص) ! یا علی (ع) ! جو مجھ سے تم سے اورتمھاری اولاد کے ائمہ سے محبت کرے اسے حلال زادہ ھونے پر شکر خدا کرنا چاہیئے کہ ھمارا دوست صرف حلال زادہ ھی ھوسکتاہے اور ھمارا دشمن صرف حرام زادہ ھی ھوسکتاہے۔ ( امالی صدوق ص 384 / 14 ، معانی الاخبار 161 / 3 ، بشارہ المصطفیٰ ص 150 روایت زید بن علی (ع) )۔

 رسول اکرم (ص)! یا علی (ع) ! عرب میں تمھارا کوئی دشمن ناتحقیق کے علاوہ نھیں ھوسکتاہے ۔( مناقب خوارزمی 323 / 330 ، روایت ابن عباس، فرائد السمطین 1 ص 135 / 97 ، خصال 577 /1 ، علل الشرائع 143 / 7 ، مناقب ابن شہر آشوب 2 ص 267۔

امام علی (ع)! کوئی کافر یا حرامزادہ مجھ سے محبت نہیں کرسکتاہے۔( شرح نہج البلاغہ 4 ص 110 ، روایت ابن مریم انصاری ،شرح الاخبار 1 ص 152 / 92 ، مناقب ابن شہر آشوب 3 ص 208۔

 امام باقر (ع)! جو شخص اپنے دل میں ہماری محبت کی خنکی کا احساس کرے اسے ابتدائی نعمت پر شکر خدا کرنا چاہیئے کسی نے سوال کیا کہ یہ ابتدائی نعمت کیا ہے؟ فرمایا حلال زادہ ہونا ۔( امالی صدوق (ر) 384 / 13 ، علل الشرائع 141 / 2 ، معانی الاخبار 161 / 2 روایت ابومحمد الانصاری)۔

 امام صادق (ع) ! جو شخص اپنے دل میں ہماری محبت کی خنکی کا احساس کرے اسے اپنی ماں کو دعائیں دینا چاہئیں کہ اس نے باپ کے ساتھ خیانت نہیں کی ہے۔( معانی الاخبار 161 / 4 ، بشارة المصطفیٰ ص 9 روایت مفضل بن عمر)۔

 ابن بکیر ! امام صادق (ع) نے فرمایا کہ جو شخص ہم سے محبت کرے اور محل عیب میں نہ ہو اس پر اللہ خصوصیت کے ساتھ مہربان ہے میں نے عرض کی کہ محل عیب سے مراد کیا ہے؟ فرمایا ۔ حرام زادہ ہونا ۔( معانی الاخبار 166 /1)۔

 امام صادق (ع) ! خدا کی قسم عرب و عجم میں ہم سے محبت کرنے والے وہی لوگ ہیں جو اہل شرف اور اصیل گھر والے ہیں اور ہم سے دشمنی کرنے والے وہی لوگ ہیں جن کے نسب میں نجاست، گندگی اور غلط نسبت پائی جاتی ہے۔( کافی 8 ص 316 / 497)۔

عبادة بن الصامت ! ہم اپنی اولاد کا امتحان محبت علی (ع) کے ذریعہ کیا کرتے تھے کہ جب کسی کو دیکھ لیتے تھے کہ وہ علی (ع) سے محبت نہیں کرتاہے تو سمجھ لیتے تھے کہ یہ ہمارا نہیں ہے اور صحیح نکاح کا نتیجہ نہیں ہے۔( تاریخ دمشق حالات امام علی (ع) ص 224 / 727 ، نہایة 1 ص 161 ، لسان العرب 4 ص 87)۔ تاج العروس 6 ص 118 ، مجمع البیان 9 ص 160 ، شرح الاخبار 1 ص 446 / 124 ، رجال کشی 1 ص 241 ، مناقب ابن شہر آشوب 3ص 207۔

محبوب بن ابی الزناد ! انصار کا کہنا تھا کہ ہم لوگوں کے حرامزادہ ہونے کو بغض علی (ع) کے ذریعہ پہچان لیا کرتے تھے۔

مولف ! عیسی بن ابی دلف کا بیان ہے کہ ان کا بھائی ولف جس کے نام سے ان کے والد کو ابودلف کہا جاتا تھا، حضرت علی (ع) اور ان کے شیعوں کی برابر برائی کیا کرتا تھا اور انھیں جاہل قرار دیا کرتا تھا، ایک دن اس نے اپنے والد کی بزم میں ان کی عدم موجودگی میں یہ کہنا شروع کردیا کہ لوگوں کا خیال ہے کہ علی (ع) کی تنقیص کرنے والا حرامزادہ ہوتاہے حالانکہ تم لوگ جانتے ہو کہ میرا باپ کس قدر غیرت دار ہے اور وہ گوارا نہیں کرسکتا کہ اس کی زوجہ کے بارے میں کوئی شخص زبان کھول سکے اور میں برابر علی (ع) سے عداوت کا اعلان کررہاہوں جو اس بات کی علامت ہے کہ یہ بات بے بنیاد ہے۔

اتفاق امر کہ اچانک ابودلف گھر سے نکل آئے، لوگوں نے ان کا احترام کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے دلف کا بیان تو سن لیا، اب بتائیے کیا حدیث معروف غلط ہے جبکہ اس کے بارے میں کوئی اختلاف نہیں ہے، تو ابودلف نے کہا کہ یہ ولد الزنا بھی ہے اور ولد الحیض بھی ہے اور اس کا واقعہ یہ ہے کہ میں بیمار تھا، میری بہن نے اپنی کنیز کو عیادت کے لیے بھیجا، مجھے وہ پسندتھی ، میں نے اپنے نفس کو بے قابو دیکھ کر اس سے تعلقات قائم کرلئے جبکہ وہ ایام حیض میں تھی اور اس طرح وہ حاملہ بھی ہوگئی اور بعد میں اس نے بچہ کو میرے حوالہ کردیا۔ جس کے بعد دلف اپنے باپ کا بھی دشمن ہوگیا کہ اس کا رجحان تشیع اور محبت علی (ع) کی طرف تھا اور باب کے مرنے کے بعد مسلسل اسے بُرا بھلا کہنے لگا۔( مروج الذہب 4 ص 62 ، کشف الیقین 276 / 573)۔

۲۔ شرط توحید

جابر بن عبداللہ انصاری ! ایک اعرابی رسول اکرم(ص) کی خدمت میں حاضر ہوکر کہنے لگا کہ حضور کیا جنت کی کوئی قیمت ہے؟ فرمایا، بیشک اس نے کہا وہ کیا ہے ؟ فرمایا لا الہ الا اللہ جسے بندہ مومن خلوص دل کے ساتھ زبان پر جاری کرے۔

اس نے کہا کہ خلوص دل کا مطلب کیا ہے؟ فرمایا میرے احکام پر عمل اور میرے اہلبیت (ع) کی محبت ۔

اس نے عرض کیا اہلبیت (ع) کی محبت بھی کلمہ توحید کا کوئی حق ہے؟ فرمایا یہ سب سے عظیم ترین حق ہے۔( امالی طوسی (ر) ص 583 / 1207)۔

 امام علی (ع) ! کلمہ لا الہ الا اللہ کے بہت سے شروط ہیں اور میں اور میری اولاد انھیں شروط میں سے ہیں ۔( غرر الحکم ص 3479)۔

 اسحاق بن راہویہ ! جب امام علی رضا (ع) نیشاپور پہنچے تو لوگوں نے فرمائش کی کہ حضور ہمارے درمیان سے گذر جائیں اور کوئی حدیث بیان نہ فرمائیں یہ کیونکر ممکن ہے۔؟

آپ نے محمل سے سر باہر نکالا اور فرمایا کہ مجھ سے میرے والد بزرگوار موسیٰ بن جعفر (ع) نے فرمایا کہ انھوں نے اپنے والد بزرگوار حضرت جعفر بن محمد(ع) سے اور انھوں نے اپنے والد حضرت محمد بن علی (ع) سے اور انھوں نے اپنے والد علی (ع) بن الحسین (ع) سے اور انھوں نے اپنے والد امام حسین (ع) سے اور انھوں نے اپنے والد حضرت علی (ع) بن ابی طالب (ع) سے اور انھوں نے رسول اکرم سے اور انھوں نے جبریل کی زبان سے یہ ارشاد الہی سنا ہے کہ لا الہ الا اللہ میرا قلعہ ہے اور جو میرے قلعہ میں داخل ہوجائے گا وہ میرے عذاب سے محفوظ ہوجائیگا۔

یہ کہہ کر آگے بڑھ گئے اور پھر ایک مرتبہ پکارکر فرمایا لیکن اس کی شرائط ہیں اور انھیں میں سے ایک میں بھی ہوں ۔( التوحید 25/23 ، امالی صدوق (ر) ص 195 /8 عیون اخبار الرضا (ع) 2 ص 135 / 4 ، معانی الاخبار ص 371 /1 ، ثواب الاعمال ص 21 / 1 ، بشارة المصطفیٰ ص 269 ، روضة الواعظین ص 51)

۳۔ علامت ایمان

رسول اکرم(ص) ! مجھ سے میرے پروردگار نے عہد کیا ہے کہ میرے اھلبیت (ع) کی محبت کے بغیر کسی بندہ کے ایمان کو قبول نہیں کرے گا۔ ( احقاق الحق 9 ص 454 نقل از مناقب مرتضویہ و خلاصة الاخبار)۔

 رسول اکرم(ص) ! کوئی انسان صاحب ایمان نہیں ہوسکتاہے جب تک میں اس کے نفس سے زیادہ محبوب نہ ہوں اور میرے اہل اس کے اہل سے زیادہ محبوب نہ ہوں اور میری عترت اس کی عترت سے زادہ محبوب نہ ہو اور میری ذات اس کی ذات سے زیادہ محبوب نہ ہو۔( المعجم الاوسط 6 ص 59 / 5790 ، المعجم الکبیر 7 ص 75 ، 6416 ، الفردوس 5 ص 154 ، 7769، امالی صدوق (ر) ص 274 / 9 ، علل الشرائع ص 140 / 3 ، بشارة المصطفیٰ ص 53 ، روایت عبدالرحمان بن ابی لیلیٰ روضة الواعظین ص 298)۔

 رسول اکرم(ص) ! ایمان ھم اھلبیت (ع) کی محبت کے بغیر مکمل نہیں ہوسکتاہے ( کفایة الاثر ص 110 روایت واثلہ بن الاسقع)۔

امام علی (ع) ! کسی بندہ مومن کا دل ایمان کے ساتھ آزمایا ہوا نہیں ہے مگر یہ کہ وہ اپنے دل میں ہماری محبت کو پاکر ہمیں دوست رکھتاہے اور کسی بندہ سے خدا ناراض نہیں ہوتاہے مگر یہ کہ ہمارے بغض کو اپنے دل میں جگہ دے کر ہم سے دشمنی کرتاہے ، لہذا ہمارا دوست ہمیشہ منتظر رحمت رہتاہے اور گویا اس کے لئے رحمت کے دروازے کھلے رہتے ہیں اور ہمارا دشمن ہمیشہ جہنم کے کنارہ رہتاہے، خوش بختئ ہے اہل رحمت کے لئے اس رحمت کی بنیاد پر اور ہلاکت و بدبختئہے اہل جہنم کیلئے اس بدترین ٹھکانہ کی بنا پر( امالی طوسی (ر) 43 / 34 ، امالی مفید ص 270 / 2 ، بشارة المصطفیٰ ص 25 ، کشف الغمہ 1 ص 140 روایات حارث اعور)۔

 رسول اکرم(ص) ! جس نے علی (ع) سے بغض رکھا اس نے مجھ سے بغض رکھا اور جس نے مجھ سے بغض رکھا اس نے خدا سے بغض رکھا اور اے علی (ع) تمھارا دوست مومن کے علاوہ کوئی نہ ہوگا اور تمھارا دشمن کافر او ر منافق کے علاوہ کوئی نہ ہوگا۔( تاریخ دمشق حالات امام علی (ع) 2 ص 188 / 671 از یعلیٰ بن مرة الثقفی)۔

 امام علی (ع) ! مجھ سے رسول اکرم کا یہ عہد ہے کہ مجھ سے مومن کے علاوہ کوئی محبت نہ کرے گا اور منافق کے علاوہ کوئی دشمنی نہ کرے گا ۔( سنن نسائی 8 ص 117 ، مسند احمد بن حنبل 1 ص 204 / 731 ، فضائل الصحابہ ابن حنبل 2 ص 564 / 948 ، کنز الفوائد 2 ص 83 ، الغارات 2 ص 520 ، تاریخ بغداد 2 ص 255 / 14 ص 426 روایات زرّ بن جیش 80 ص 417 روایت علی بن ربیعہ الوالبی)۔

 ام سلمہ ! میں نے رسول اکرم کو علی (ع)سے یہ فرماتے سناہے کہ مومن تم سے دشمنی نہیں کرسکتاہے اور منافق تمھارا دوست نہیں ہوسکتاہے۔( مسند احمد بن حنبل 10 ص 176 / 26569 ، سنن ترمذی 5 ص 635 / 3717 ، البدایة والنہایة 7 ص 55 ۔3 ، تاریخ دمشق حالات امام علی (ع)2 ص 208 /99 ، محاسن 1 ص 248 / 456 ، اعلام الدین ص 278 ، عوالی اللئلالی 4 ص 85 / 95 ، احتجاج 10 ص 149 ، شرح نہج البلاغہ معتزلی 4 ص 83)۔

 ابوذر ! میں نے رسول اکرم کو حضرت علی (ع) سے فرماتے سناہے کہ اللہ نے مومنین سے تمھاری محبت کا عہد لے لیا ہے اور گویا منافقین سے تمھاری عداوت کا عہد ہوگیاہے ، اگر تم مومن کی ناک بھی کاٹ دو تو تم سے دشمنی نہیں کرے گا اور اگر منافق پر دینا رنچا در کردو تو بھی تم سے محبت نہیں کرے گا یا علی (ع) تم سے محبت نہیں کرے گا مگر مومن اور تم سے عداوت نہیں کرے گا مگر منافق ۔( تاریخ دمشق حالات امام علی (ع) 2 ص 204 / 695 ، الغارات 2 ص 520 /وایت حبة القرتی)۔

 امام علی (ع) ! اگر میں مومن کی ناک بھی تلوار سے کاٹ دوں کہ مجھ سے عداوت کرے تو نہیں کرے گا اور اگر منافق پر ساری دنیاانڈیل دوں کہ مجھ سے محبت کرلے تونہیں کرے گا اس لئے کہ یہ فیصلہ رسول اکرم کی زبان سے ہوچکاہے کہ یاعلی (ع) ! مومن تم سے دشمنی نہیں کرسکتاہے اور منافق تم سے محبت نہیں کرسکتاہے(نہج البلاغہ حکمت ص 45 ، امالی طوسی (ر) ص 206 / 353 ، روایت سوید بن غفلہ ، روضة الواعظین ص 323 ، کافی 8 ص 268 / 396)۔

 امام باقر (ع) ! ہماری محبت ایمان ہے اور ہماری عداوت کفر ہے۔( کافی 1 ص 188 /12 محاسن 1 ص 247 / 463 روایت محمد بن الفضل ، تفسیر فرات کوفی ص 228 / 566 زیاد بن المنذر )۔

 امام باقر (ع) ! اے ابا ابورد اور اے جابر ! تم دونوں قطعیت تک جب بھی کسی مومن کے نفس کی تفتیش کروگے تو علی (ع) بن ابی طالب (ع) کی محبت ہی پاؤگے اور اسی طرح قیامت تک اگر منافق کے نفس کی جانچ کروگے تو امیر المومنین (ع) کی دشمنی ہی پاؤگے، اس لئے کہ پروردگار نے رسول اکرم کی زبان سے یہ فیصلہ سنادیا ہے، کہ یا علی (ع) ! تم سے مومن دشمنی نہیں کرے گا اور کافر یا منافق محبت نہیں کرے گا اور ظلم کا حامل ہمیشہ خائب و خاسر ہی ہوتاہے ، دیکھو ہم سے سمجھ بوجھ کر محبت کرو تا کہ راستہ پاجاؤ اور کامیاب ہوجاؤ ہم اسلامی انداز کی محبت کرو ۔( تفسیر فرات کوفی ص 260 / 355 روایت جابر بن یزید و ابی الورد)۔

امام باقر (ع) ! جو شخص یہ چاہتاہے کہ یہ معلوم کرے کہ وہ اہل جنّت میں سے ہے اسے چاہیئے کہ ہماری محبت کو اپنے دل پر پیش کرے، اگر دل اسے قبول کرلے تو سمجھے کہ مومن ہے۔( کامل الزیارات ص 193 از ابوبکر الخصرمی)۔

 علی بن محمد بن بشر ! میں محمد بن علی (ع) کے پاس بیٹھا تھا کہ ایک سوار آیا اور اپنے ناقہ کو بٹھاکر آپ کے پاس آیا اور ایک خط دیا ، آپ نے خط پڑھنے کے بعد فرمایا کہ مہلب ہم سے کیا چاہتاہے ؟ خدا کی قسم کہ ہمارے پاس نہ کوئی دنیا ہے اور نہ سلطنت۔

اس نے کہا کہ میری جان آپ پر قربان ، اگر کوئی شخص دنیا و آخرت دونوں چاہتاہے تو وہ آپ اہلبیت(ع) ہی کے پاس ہے۔

آپ نے فرمایا کہ ماشاء اللہ ، یاد رکھو کہ جو ہم سے برائے خدا محبت کرے گا اللہ اسے اس محبت کا فائدہ دے گا اور جو کسی اور کے لئے محبت کرے گا تو خدا جو چاہتاہے فیصلہ کرسکتاہے، ہم اہلبیت (ع) کی محبت ایک ایسی شے ہے جسے پروردگار دلوں پر ثبت کردیتاہے اور جس کے دل پر خدا ثبت کردیتاہے اسے کوئی مٹا نہیں سکتاہے، کیا تم نے یہ آیت نہیں پڑھی ہے ” یہ وہ لوگ ہیں کہ جن کے دل میں خدا نے ایمان لکھ دیا اور ان کی اپنی روح سے تائید کردی ہے“ … ہم اہلبیت (ع) کی محبت ایمان کی اصل ہے۔( شواہد التنزیل 2 ص 330 / 971 ، تاویل الآیات الظاہرة ص 650۔

۴۔ قیامت کا سب سے پہلا سوال

 رسول اکرم ! قیامت کے دن سب سے پہلے ہم اہلبیت (ع) کی محبت کے بارے میں سوال کیا جائے گا ۔( عیون اخبار الرضا (ع) 2 ص 62 / 258 روایت حسن بن عبداللہ بن محمد بن العباس الرازی التمیمی)۔

 ابوبرزہ رسول اکرم سے روایت کرتے ہیں کہ قیامت کے دن کسی بندہ کے قدم آگے نہیں بڑھیں گے جب تک چار باتوں کا سوال نہ کرلیا جائے، اپنی عمر کو کہاں صرف کیاہے، اپنے جسم کو کہاں استعمال کیاہے، اپنے مال کو کہاں خرچ کیاہے اور کہاں سے حاصل کیا ہے اور پھر ہم اہلبیت(ع) کی محبت ! ( المعجم الکبیر 11 ص 84 / 11177 ، المعجم الاوسط 9 ص 155 / 9406 ، مناقب ابن المغازلی ص 120 /157 روایات ابن عباس ، فرائد السمطین 2 ص 301 / 557 روایت داؤد بن سلیمان، امالی صدوق (ر) 42 / 9 ، خصال 253 / 125 ، روایت اسحاق بن موسیٰ عن الکاظم (ع) ، تحف العقول ص 56 ، امالی طوسی (ر) ص 593 / 1227 ، تنبیہ الخواطر 2 ص 75 روایت ابوبریدہ الاسلمی ، جامع الاخبار ص 499 / 1384 عن الرضا (ع) ، روضة الواعظین ص 546 ، شرح الاخبار 2 ص 508 / 898 روایت ابوسعید خدری )۔

 ابوہریرہ ! رسول اکرم نے فرمایاہے کہ کسی بندہ کے قدم روز قیامت آگے نہ بڑھیں گے جب تک چار باتوں کا سوال نہ کرلیا جائے ، جسم کو کہاں تھکایا ہے؟ عمر کو کہاں صرف کیا ہے ؟ مال کو کہاں سے حاصل کیا ہے اور کہاں خرچ کیا ہے ؟ اور ہم اہلبیت (ع) کی محبت ۔

کسی نے عرض کیا کہ حضور آپ حضرات کی محبت کی علامت کیا ہے؟ آپ نے علی (ع) نے کاندھے پر رکھ کر فرمایا … یہ … (المعجم الاوسط 2 ص 348 / 1291 ، مناقب خوارزمی ص 77 / 59)۔

 حنان بن سدیر ! مجھ سے میرے والد نے بیان کیا ہے کہ میں امام جعفر صادق (ع) کی خدمت میں حاضر تھا، آپ نے ایسا کھانا پیش فرمایا جو میں نے کبھی نہیں کھایا تھا اور اس کے بعد فرمایا کہ سدیر ! تم نے ہمارے کھانے کو کیسا پایا؟ میں نے عرض کی میرے ماں باپ آپ پر قربان ، ایسا کھانا تو میں نے کبھی نہیں کھایا ہے، اور نہ شائد کبھی کھاسکوں گا، اس کے بعد میری آنکھوں میں آنسو آگئے!

فرمایا سدیر ! کیوں رورہے ہو؟ میں نے عرض کی ، فرزند رسول قرآن مجید کی ایک آیت یاد آگئی!

فرمایا وہ کونسی آیت ہے؟ میں نے عرض کی کہ ” قیامت کے دن تم لوگوں سے نعمت کے بارے میں سوال کیا جائے گا “ مجھے خوف ہے کہ یہ کھانا بھی اسی نعمت میں شمار ہوجس کا حساب دینا پڑے۔

امام ہنس پڑے اور فرمایا کہ سدیر ! تم سے نہ اچھے کھانے کے بارے میں سوال ہوگا اور نہ نرم لباس کے بارے میں اور نہ پاکیزہ خوشبو کے بارے میں ۔ یہ سب تو ہمارے ہی لئے خلق کئے گئے ہیں اور ہم مالک کے لئے خلق ہوئے ہیں تا کہ اس کی اطاعت کریں۔

میں نے عرض کی تو حضور ! یہ نعمت کیا ہے ؟ فرمایا علی (ع) اور ان کی اولاد کی محبت ! جس کے بارے میں خدا روز قیامت سوال کرے گا کہ تم نے اس نعمت کا کس طرح شکریہ ادا کیا ہے اور اس کی کس قدردانی کی ہے۔( تفسیر فرات الکوفی ص 605 / 763)۔

Add comment


Security code
Refresh