ستائیس رجب سنہ چالیس عام الفیل کو پیغمبراکرم(ص)غار حرامیں اپنے رب سے دعاومناجات میں مشغول تھے کہ یکایک فرشتۂ وحی حضرت جبریل نازل ھوئے
اور اپنے ھمراہ مژدۂ رسالت لاۓ اورسورۂ علق کی آیات کی تلاوت کی۔
اس خداکا نام لیکر پڑھو جس نے پیداکیاہے،اس نے انسان کو جمے ھوۓ خون سے پیداکیاہے،پڑھو اور تمھارا پروردگار بھت کریم ہے،جس نے قلم کے ذریعے تعلیم دی ہے اورانسان کو وہ سب بتادیاہے جو اسے نھیں معلوم تھا۔
اس طرح خداکے نام اور توحید کے ساتھ تعلیم سے وحی و بعثت کا آغاز ھوا۔ یھاں ھم عید مبعث کے بارے بانی انقلاب اسلامی حضرت امام خمینی (رہ) کے نظریات پیش کررھےہیں۔
بعثت کھتے ہیں قیامت اور ھنگامہ کو، یا کسی کام کے لۓ اٹھایا جانا۔ یوم مبعث وہ دن ہے جس دن خداکی طرف سے پیغمبر اسلام(ص)مبعوث بہ رسالت ھوۓ۔ بعثت پیغمبر(ص)انسان کے لۓ شرک، بے انصافی، نسلی امتیاز اور جھل و فساد سے نجات پانے کی راہ کا آغاز ہے تاکہ انسان توحید، معنویت، اور عدالت وکرامت کی سمت قدم بڑھاۓ۔
بعثت نبوی(ص) معنوی تحریک سے شروع ھوئی ۔اور عالم انسانیت میں ایک انقلاب برپاکردیا۔ یہ روحانی تحول مادہ پرست انسانوں کے لۓ مبدۂ خلقت کی سمت ھدایت کا باعث بنا۔ برائی سے روکا اور نیکیوں کی ترغیب دلائی۔ بعثت، رسالت نبوی(ص)، تاریکیوں سے انسان کے نکلنے اور روشنی کی جانب حرکت کے آغاز سے شروع ھوئی۔
حضرت امام خمینی (رہ) نے اپنے جدّ بزرگوار حضرت رسول اکرم(ص) کی بعثت کے دن کو سارے عالم کا افضل اور اشرف ترین دن قرار دیا۔آپ کی نظر میں رسول ختمی مرتبت(ص)کی بعثت کےروزسے کسی بھی دن حتی بعثت انبیاۓ الوالعزم کے یوم بعثت کا بھی موازنہ نھیں کیا جاسکتا۔
آپ فرماتے ہیں کہ یوم مبعث ایسا عظیم دن ہے کہ ازل سے ابد تک جس کی مثال نھیں ملتی۔اور نہ ملے گی۔ ایسے پیغمبرکا یوم مبعث، کہ جس نے تمام نفسانی اور ملکوتی مقامات کو درک کیاہے۔اور تمام ظاھری اور باطنی شریعتوں کا عالم ہے۔اور اس کے بعد کسی دوسرے نبی ورسول کی ضرورت ھی نھیں ہے۔بعثت، شائستہ انسانوں کے برائیوں سے پاک ھونے کا مژدہ ہے۔
حضرت امام خمینی(رہ) بعثت کے موضوع پر، تزکیہ کو پھلی نظرمیں اس الھی اقدام کے ایک رکن کی حیثیت سے پیش کرتےہیں۔ تزکیہ، یعنی نیک صفات کا حامل ھونا، غلط رفتار کی اصلاح کرنا اور بری صفتوں کو دور کرنا۔ در حقیقت تزکیہ، انسان کے باطن کی تطھیر سے شروع ھوتاہے اور باطنی تطھیر کے بعد فرد کی ھستی اور شخصیت کے تکامل کا باعث بنتا ہے۔
حضرت امام خمینی(رہ) تزکیہ کے مسئلے پر روشنی ڈالتے ھوۓ انسانی معاشرے کے تمام افراد کے لۓ اخلاقی صفات کی اھمیت کو ایک عظیم ھدف بتاتے ہیں۔ آپ کے خیال میں تزکیہ، بعثت کے بنیادی مقصد کے اعتبارسے معاشرے کے کسی خاص طبقہ سے مختص اور کسی جغرافیائی علاقےمیں محدود نھیں ھو سکتاہے۔
حضرت امام خمینی (رہ) تزکیۂ نفس کی مزید وضاحت کے لۓ سورۂ جمعہ کی دوسری آیت کی جانب اشارہ کرتےہیں جس میں خداوند کریم اپنے پیغمبر کی بعثت کا مقصد یوں بیان کرتاہے۔ وہ خدا وہ ہے جس نے امیین میں ایک رسول بھیجا جو انھیں میں سےہے۔ جو آیات الھی کی ان پر تلاوت کرتاہے۔ ان کے نفسوں کو پاکیزہ بناتاہے اور انھیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتاہے۔ اگر چہ وہ اسکے پھلے کھلی ھوئی گمراھی میں تھے۔ اس آیۂ شریفہ کے مطابق خدانے لوگوں کے درمیان سے اپنا رسول مبعوث فرمایا اور اسکو چند امور پر مامور کیا ایک کام، لوگوں پر اللہ کی عظیم کتاب قرآن کریم کی آیات کی تلاوت کرناہے۔ قرآن کریم ایک دسترخوان ہےخدا نے پیغمبر اکرم(ص)نے ذریعے انسانوں کے درمیان جسے چنوادیاہے اور ھر فرد اپنی توانائی کے مطابق اس سے استفادہ کر رھاہے۔
حضرت امام خمینی(رہ) اس بارے میں فرماتےہیں ھدف بعثت، نزول سے انتھائے زمانہ تک، لوگوں کے درمیان اس دستر خوان کو بچھائےرکھناہے۔ رسول جو قرآن کی تلاوت اور اسی کتاب نیز اسی کتاب میں موجود حکمت کی تعلیم دیتاہے۔ بنا بریں بعثت کا ھدف نزول قرآن ہے اور تلاوت قرآن کا مقصد یہ ہے کہ انسان تزکیۂ نفس پیداکرے اور نفوس ظلمات اور تاریکیوں سے نجات اور اس کتاب کی تعلیم اور حکمت درک کرنے کی صلاحیت حاصل کریں۔
حضرت امام خمینی (رہ)اس حقیقت کی مزید وضاحت یوں فرماتے ہیں۔جب تک تزکیہ نہ ھو کتاب و حکمت کی تعلیم ناممکن ہے۔جب تک انسان اپنے نھایت ھی تاریک حجاب سے نھیں نکلے گا۔خواھشات نفسانی میں گرفتار رھےگا۔خود پسندی کا شکار رھےگا۔اور اپنے نفس اور باطن میں ایجاد کردہ چیزوں میں الجھا رھےگا۔ اوراس وقت تک اس کے دل میں نور الھی جلوہ گرھونے کی صلاحیت اور توانائی پیدا نھیں ھو سکتی۔
تزکیہ، جو بعثت کے ایک اھم اھداف میں سے ہے۔ اسکے معنی ہیں ظلمت نفس سے نکلنا اور معنویب کی پاکیزہ فضامیں داخلے کے لۓ اندرونی اور نفسانی خواھشات کا مقابلہ کرنا۔حضرت امام خمینی (رہ) کے نقطۂ نظر سے لوگوں کے مابین تمام اختلافات کی جڑ، بلاشبہ وہ سر کشی ہے جو نفس انسان میں موجود ہے۔ اگر انسان اپنے مقام و منصب پر قانع نہ ھو تو یہ امر جارحیت اور اور اختلاف کا باعث بن سکتاہے اوریہ چیز ایک مزدور اور دیھاتی سے لےکر سربراھان مملکت تک میں پائی جاتی ہے چنانچہ تزکیہ اور پاکیزہ نفسی کا نہ ھونا، حکام اور سربراھان مملکت کے لۓ زیادہ خطرناک ہے۔
حضرت امام خمینی (رہ) اس مطلب کی وضاحت کرتے ھوۓ فرماتےہیں۔اگر معمولی افراد عدم تزکیہ کا شکار ھوں اور سرکشی کریں تو ان کی سرکشی بھت ھی محدود ھوگی۔ اگر ایک فرد،بازار۔ یادیھات میں سرکشی کرےتو یہ ممکن ہے کہ ایک محدود مقام اور علاقے میں فساد پھیلاۓ۔ لیکن اگر طغیان اور سرکشی کسی ایسی فرد میں پیدا ھو جائے جسے عوام نے تسلیم اور قبول کر لیاہے یعنی ایک ایسے عالم میں پیداھو گئی جس کو لوگ عالم دین کی حیثیت سے قبول کرتے ہیں۔ یا ایک بادشاہ میں جسے لوگوں نے اپنا سلطان مان لیاہے، یا ایسے سربراھوں میں پیدا ھوگئی جنھیں عوام نے تسلیم کرلیاہے، تو یہ سرکشی کبھی ایک ملک کو اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے۔ کیونکہ جس نے زمام امور اپنے ھاتھ میں لے رکھی ہے اسکا تزکیہ نھیں ھواہے۔
پھلا سورہ جو رسول خدا(ص) پر نازل ھوا اور آپ کے مبعوث بہ رسالت ہھونے کا باعث بنا، سورۂ علق تھا۔اس سورے کی ساتویں اور آٹھویں آیت میں خدا فرماتاہے:
یقینا انسان سرکشی کرتاہے، جب وہ اپنے آپ کو مستغنی اور بے نیاز سمجھنے لگتاہے۔
اسی لۓ حضرت امام خمینی (رہ) نے اپنے دوسرے مرحلے میں۔انسان کی سرکشی۔اور اس سے پیداھونے والے منفی نتائج اور خطرات کی جانب اشارہ کرتےھوۓ فرمایاہے۔تمام انسانوں کی صورت حال یہ ہے کہ ایک ذرا مستغنی بنےتو سرکشی کرنےلگتےہیں۔یعنی اگر تھوڑی سی دولت آگئی۔تو اسکے مطابق سرکشی پیداھوگئی۔ تھوڑا علم حاصل ھوگیا تو اس کے بقدر سرکشی آگئی۔مقام ومنصب ملا تواس کے معیار کے مطابق غرور اور سرکشی پیدا ھوگئی۔بعثت کامقصد۔یہ ہے کہ ھمیں ان سرکشی اور طغیان کی زنجیروں سے نجات دلاۓ۔اور ھمیں اپنے آپ کا تزکیہ کرنا چاھیے۔ طغیان کھتےہیں اپنی حد سے آگے بڑھ جانے کو۔لفظ غنی کے معنی امیر اور تونگر ہے ۔اور یہ صفت خدا کے لۓ اس معنی میں ہے کہ وہ اتنااور ایسا غنی اور تونگر ہے کہ کسی کا بھی محتاج نھیں ہے ۔وہ خود قادر مطلق ہے لیکن انسان ۔جو احتیاج اور ناتوانی کا مظھر ہے ۔اگر وہ بےنیازی اور استغناء کا احساس کرے۔تو یہ اس کے غرور اور استکبار کے سوا اور کچھ نھیں ہے۔
استغنا اور بے نیازی اور اس کے نتیجے میں انسان کی سرکشی اور غرور و تکبر کے مصادیق بے شمار ہیں۔ جو چیز سرکشی اور فسادو برائی کا باعث بنتی ہے، خداکو فراموش کرنا اور اس کی مدد ونصرت کی عدم ضرورت کا احساس پیدا ھونا ہے۔ مالی استغنا پیداھونے کا ایک اھم عامل، اقتصادی اور مالی ضرورت سے بظاھر بے نیازی ہے اور مالی استغنا سماجی زندگی میں بے شمار برائیوں کاسرچشمہ ہے۔ علمی استغنا بھی۔طغیان اور سرکشی کے دیگر مصادیق میں سے ہے۔ایسا انسان اپنےآپ کو علامہ سمجھنے لگتاہے۔اور یھی امر اس کے غرور علمی اور راہ حق سے منحرف ھونے کا باعث بنتاہے۔
علمی استغنا انسانی معاشروں میں بےشمار نقصانات کا باعث بنتاہے اور کمال وسعادت کی سمت پیشر رفت کے لۓصحیح راستے کے انتخاب میں رکاوٹ بنتاہے۔ سیاسی استغنابھی، اقتدارپسندی جاہ ومقام پرستی میں متجلی ھوتاہے۔ استعماری اصول طاقت برائے اقتدار اور غلط سیاست۔ مذھب اخلاق اور تمام انسانی قدروں کا گلا گھونٹ دیتی ہے اور یہ سبھی خداکو فراموش کرنے اور اقتدار کے وقت خداسے احساس بے نیازی کا مصداق ہیں۔
حضرت امام خمینی(رہ)بعثت کا ایک ھدف ومقصد ظلم کا خاتمہ ہے۔ آپ اس بارے میں فرماتےہیں۔بعثت رسول خدا(ص)اس لۓ ہے کہ انسانوں کو رفع ظلم کا طریقہ بتاۓ تاکہ لوگ بڑی اور استکباری طاقتوں کامقابلہ کر سکیں۔ بعثت اس لۓ ھوئی کہ لوگوں کے اخلاق کو سنوارے، اور ان کو روحانی اور جسمانی اعتبار سے ظلمتوں اور تاریکیوں سے نجات دلاۓ۔ تاریکیاں دور کرے اس کی جگہ نورلے آۓ۔ جھالت کی تاریکی دور کر کے ۔اس کی جگہ علم ودانائی کی روشنی پھیلائے اور ظلم کی تاریکی کی جگہ نور عدالت و انصاف جاگزیں کرے۔ بعثت نے ھمیں یہ سب کچھ بتایاہے۔ ھمیں بعثت نے یہ بتایا ہے کہ تمام مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں اور انھیں آپس میں متحد اختلاف و نزاع کا شکار کا نھیں ھونا چاھیے۔