www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

حضرت ابوالفضل العباس بن امیرالمومنین علی ابن ابی طالب (ع) ۴ شعبان سن ۲۶ ھجری کو عثمان بن عفان کے دور خلافت میں مدینہ منورہ میں 

پیدا ھوے (۱) ۔آپ کی کنیت " ابوالفضل" ہے. آپ کی والدہ مکرمہ حضرت فاطمہ بنت حزام جو کہ " ام البنین " کے نام سے مشھور ہے ۔اس نامدار خاتون سے امام علی بن ابیطالب (ع) کے ۴ فرزند عباس، جعفر، عثمان ، اور عبداللہ تھے اور چاروں بھائی اپنے امام حضرت امام حسین (ع) کی یاری کرتے کرتے یزید بن معاویہ کے سپاھیوں کے ھاتھوں دس محرم کو کربلا میں شھید ھوے ۔ (۲)
روایت میں آیا ہے کہ ایک دن امیر المومنین (ع) نے اپنے بھائی عقیل بن ابیطالب (ع) سے فرمایا: تم عرب نسل کے عالم ھو ، میرے لۓ ایسی خاتون کو انتخاب کرو جس سے دلیر ، طاقتور اور جنگجو فرزند پیدا ھوں ۔
عقیل نے انساب عرب اور عرب کی شایستہ اور لایق عورتوں کے بارے میں غور و فکر کرنے کے بعد اپنے بھائی امیر المومنین (ع) کو مشورہ دیا کہ حزام کلبی کی بیٹی فاطمہ ام البنین کے ساتھ شادی کرے، کیونکہ ان کے باپ دادا عربوں میں نھایت شجاع اور دلیر ہیں ۔
امیر المومنین (ع) نے بھی بھائی عقیل کے مشورہ پر ام البنین کے ساتھ شادی کی اور اس سے چار فرزند شجاع اور دلیرپیدا ھوے ۔ (۳)
حضرت عباس (ع) امیر المومنین علی (ع) اور اپنی فھیم والدہ کے آغوش میں پرورش پائی اور امام حسن (ع) اور امام حسین (ع) جیسے بھائیوں کے ساتھ زندگی کے ھر نشیب و فراز میں ساتھ رھے ۔ جب امیر المومنین علی (ع) کی خلافت کا آغازھوا حضرت عباس (ع) دس سال کے تھے اور اسی سن میں جنگ میں شرکت کرکے فعال کردار ادا کیا۔ ایک ماھر جنگجو کے مانند جنگ کیا ـ
امیر المومنین علی (ع) کی شھادت کے بعد کسی لمحہ بھی اپنے بھائیوں کی ھمراہی اور یاری کرنے سے غافل نہ رھے اور انکے حفاظت کار تھے ۔ حضرت عباس (ع) کی وفاداری اور فداکاری عاشور کے دن اپنے اوج کو پھنچی ـ
کربلا میں حضرت عباس (ع) نے ایک نرالی تاریخ رقم کی ، امام حسین (ع) کے فوج کے قابلترین اور ماھرترین سپہ سالار اور علمدار تھےاور آنحضرت کو بھی آپ سے نھایت محبت تھی اور آپ کے مشورے پر عمل کرتے تھے ـ
عاشورا کے عصر کو جب شمر بن ذی الجوشن ، نے حضرت عباس(ع) اور ان کے بھائیوں جعفر ، عثمان ، اور عبداللہ ، کے لۓ امان نامہ بھیج کر چاھا کہ امام حسین (ع) کو جھوڑ کر عمر بن سعد کے ساتھ مل جاۓ یا دونوں کو چھوڑ کر وطن واپس چلے جائیں ـ حضرت عباس(ع) اور انکے بھائیوں نے شمر کے اس دعوت کو ٹھکرایا اور حضرت عباس(ع) نے کھا :تیرے ھاتھ ٹوٹیں اور تیرے امان نامے پر لعنت ھو ـ اے خدا کے دشمن کیا تم ھمیں حکم کرتے ھو کہ امام حسین (ع) کی مدد نہ کریں اور اسکے بدلے ملعون اور اسکے اولادوں کی اطاعت کریں ؟ کیا ھمیں امان ہےاور پیغمبر (ص) کے فرزند کیلۓ امان نھیں ـ (۴)
اسی طر ح جب عاشور کی رات امام حسین (ع) نے اپنے تمام ساتھیوں سے کھا کہ رات کے اندھیرے کا سھارا لے کے یہاں سے چلے جاو اور اپنے اپنے گھروں کو لوٹ جاو دشمن کامعاملہ صرف مجھ سے ہے اور مجھے اپنے حال پر چھوڑ دو ـ اس وقت سب سے پھلے حضرت عباس (ع) نے اپنی جانثاری اور وفاداری کا اعلان کیا۔ عرض کی اے امام ! کس لۓ آپ کو چوڑ دیں ؟ کیا آپ کے بعد زندہ رھیں ؟ خدا نہ کرے ھم آپ کو چھوڑکر دشمنوں کے مقابلے میں آپ کو اکیلا چھوڑیں ـ ھم آپ کے ساتھ رھیں گے اور اپنی آخری سانس تک آپ کی حمایت کریں گۓ ـ
حضرت عباس (ع) کے بعد امام حسین (ع) کے دوسرے سارے ساتھیوں نے اپنی وفاداری کا اعلان کیا ـ (۵)
بھر حال ، اس عظیم انسان نے دسویں محرم کو قربانی اور فداکاری کی عظیم اور بے نظیر تاریخ وقم کی اور جب تک زندہ تھے امام حسین (ع) پر کسی قسم کی آنچ نہ آنے دی اور خیمہ گاہ کی طرف دشمن ترچھی آنکھ سے بھی حضرت امام حسین (‏ع) کے خیموں کی طرف دیکھنے کی جرأت نہ کر سکا اور جب بچوں کیلۓ پانی لینے گۓ دشمن کے ھاتھوں شھید ھوۓ ۔ جب فرات سے پانی بھر کر واپس لوٹ رھے تھے دشمن نے پیچھے سے وار کرکے داھنا اور پھر بائنا بازرو قلم کیا اور چاروں طرف تیر باران کیا گیا ایک تیر آنکھ میں پیوست ھوا اور سرمبارک پر جب شدید ضرب لگا گھوڑے سے زمین پرگر گئے اور شمشیر، نیزے اور تیروں کی نوکوں نے حضرت کے بدن کو گھیر لیا ـ
اس حال میں عباس بن علی (ع) نے امام حسین (ع) کو پکارا !یا حسین (ع) مجھے پالے !
امام حسین (ع) جب اپنے بھائي کے پارہ پارہ بدن کے پاس پھنچے ، نھایت متاثر اور غمگین ھوے ان کی جدائي پر رو رھے تھے اپنے کمرپر ھاتھ رکھ کر فرمایا:" ألآن اِنْكَسَرَ ظَھري وَ قَلّت حيلَتي"؛ اب میری کمر ٹوٹ گئی اور تدبیر اتمام کو پھنچ گئی ـ (۶)
امام زین العابدین (ع) جو کہ کربلا میں حاضر تھے اور اپنے چاچا عباس (‏ع) کی بے نظیر فداکاری اور مجاھدت کو نزدیک سے دکھا تھا ، انکی فداکاری اور معنوی مقام کے بارے میں فرماتے تھے :" رَحَمَ اللہ العبّاس، فَلَقَدْ آثَر، و أبلي، و فدي اخاہ بنفسہ حتّي قطعت يداہ، فابدلہ اللہ (عزّ و جلّ) بھما جناحين يطير بھما مع الملائكہ في الجنّہ، كما جعل لجعفر بن ابي طالب(ع)، و انّ للعباس عند اللہ (تبارك و تعالي) منزلہ يغبطہ بھا جميع الشّھداء يوم القيامہ" ـ (۷)
خدا میرے چاچا عباس (ع) کو رحمت کرے کہ اپنے آپ کو اپنے بھائی پر فدا کیا یھاں تک کہ دونوں بازوں قلم ھوے اور اللہ تعالی نے ان دوھاتھوں کے بدلے دو پر دیۓ جن سے وہ جنت میں اڑتے ہیں جسطرح انکے چچا جعفر بن ابیطالب (ع) کو دو پر عنایت ھوے ہیں ۔ بار گاہ الھی میں حضرت عباس (ع) کا ایسا مقام اور ایسی فضیلت ہے کہ ھر شھید اسکی آرزو کرتا ہے ـ
حضرت عباس (ع)۳۴سال کی عمر میں شھید ھوۓ اور آپ کا ایک چھوٹا فرزند تھا جن کا نام" عبید اللہ " تھا ـ ان سے آپ کی نسل با برکت آگۓ چلی ـ (۸)
 حوالہ جات:
۱۔ مستدرك سفينه البحار (علي نمازي)، ج۵، ص ۲۱۱۔
۲۔ الارشاد (شيخ مفيد)، ص ۳۴۲؛ منتهي الآمال (شيخ عباس قمي)، ج۱، ص ۱۸۷۔
۳۔ منتهي الآمال، ج۱، ص ۱۸۷۔
۴۔ منتهي الآمال، ج۱، ص ۳۳۷۔
۵۔ الارشاد، ص ۴۴۳؛ منتهي الآمال، ج۱، ص ۳۳۷۔
۶۔ منتهي الآمال، ج۱، ص ۳۸۵۔
۷۔ امالي (شيخ صدوق)، ص ۳۷۳۔
۸۔ منتهي الآمال، ج۱، ص ۱۸۹۔
 

Add comment


Security code
Refresh