بشر کی دین سے توقعات
(مذکورہ عنوان ،دین یا دینداری کے فوائد، دین کی کارگزاریاں یا انسان کو دین کی ضرورت جیسی سرخیوں کے تحت بھی بیان کیا جا سکتا ھے ۔)
گذشتہ مباحث میں ادیان کے بارے میں تحقیق و جستجو سے متعلق بحث کی گئی تھی جس میں یہ بتایا گیا تھا کہ ایک آزاد اور وشن فکرانسان عقلی حکم کے تحت دین کے بارے میں تحقیق و جستجو کے لئے کافی مقدار میں دلائل رکھتا ھے۔ اب وقت آگیا ھے کہ ھم خود اپنی ذات سے یہ سوال کریں کہ آخر انسان کو دین کی ضرورت ھی کیوں ھوتی ھے اور دین بشریت کو کون کونسے فائدے پھونچاتا ھے۔ دوسرے الفاظ میں ، ”بشر کی دین سے توقعات کیا ھیں؟
اس سوال کا اجمالی اور مختصر جواب تویھی ھے کہ 6دین سے یہ توقع اور امید رکھتا ھے کہ دین اس کو دنیا و آخرت میں ابدی کمال اور سعادت تک رھنمائی کرےگا اور یہ ایک بھت بڑی اور اھم توقع ھے کہ جس کی فقط دین ھی برآوری کرسکتا ھے اور جس کا دین کے علاوہ کوئی مترادف یامتبادل طریقھ بھی نھیں ھے۔
البتہ اس بنیادی اور وسیع ضرورت کے علاوہ دوسری توقعات اور ضرورتیں بھی موجود ھیں۔ مختصراً انسان کی دین سے وابستہ توقعات مندرجہ ذیل ھیں:
(۱) دین قابل اثبات اور استدلال ھو یعنی عقل و منطق اس کی پشت پناھی کرتی ھو۔ دوسرے الفاظ میں دین کے اصول وتعلیمات عقل کے نزدیک باطل اور غیر قابل قبول نہ ھوں۔
(۲) دین انسان کی زندگی کو معنی و مفھوم بخشنے والا ھو یعنی انسان کو ایک حیثیت عطا کرنے اور اس فکر و نظریے کو اس کے ذھن سے خارج کرنے والا کہ زندگی لا یعنی اور بیکار ھے۔
(۳) دین باھدف، شوق و عشق پیدا کرنے والاا ورانسانی ضرورتوں کو پورا کرنے والا ھو۔
(۴) انسانی اور اجتماعی اھداف کو تقدس بخشنے والی قدرت کا حامل ھو۔
(۵) ذمہ داریوں اور وظائف و تکالیف کا احساس دلانے والا ھو۔
مندرجہ بالا نکات میں سے پھلا اور دوسرانکتہ بنیادی اور اصلی ھے۔ پھلا اس لئے اھم ھے کیونکہ کسی دین کے اصول عقائد کا منطقی اور عقلی ھونا اس دین کو قابل قبول بنانے میں نھایت موثرثابت ھوتا ھے اور شک و شبھات اور سوالات و مشکلات کو برطرف کرتا ھے۔
دوسرا اس لئے اھم ھے کیونکہ ھماری دنیوی زندگی ھمیشہ رنج و الم اور مصائب و مشکلات میں بسر ھوتی ھے ان مشکلات و مسائل میں سے بعض غور و فکر اور تدبیر و ترقی علم و سائنس کی بنا پر حل ھوجاتے ھیں اور بعض اصلاً کسی بھی طرح حل ھونے کا نام نھیں لیتے۔ مثال کے طور پر:
الف: انسان حقیقت جو اور جستجو گر ھے اور اس لئے کہ کھیں وہ جاھل یا خاطی نہ رہ جائے ھمیشہ پریشان رھتا ھے۔
ب: انسان خیر کا طالب ھے اور چاھتا ھے کہ غلطیوں اور خطاؤں سے پاک و منزہ رھے۔ یہ سوچ کر کہ وہ بدکردار اور غلط کاریوںمیں گرفتار ھو گیا ھے، ھمیشہ رنجیدہ رھتا ھے۔
ج: انسان زندگی جاوید کا خواھاں ھوتا ھے اور موت اس کی زندگی کے خاتمے کے عنوان سے اس کو ھر اساں کرتی رھتی ھے۔
د: انسان لامتناھی اورلامحد ود افکار و نظریات کا حامل اور خواھاں ھوتا ھے لھٰذا محدودیت اور نقائص اس کی ذھنی پریشانیوں کا باعث بنتے ھیں۔
ہ: انسان یہ مشاھدہ کرکے کہ وہ اپنی پیدائش کے زمانے ھی سے جسمانی یا عقلی طور پر دوسرے افراد کے مقابلے میں پسماندہ ھے، ذھنی کوفت و پریشانی کا شکار رھتاھے۔
فقط دین ھی وہ ذریعہ ھے جو انسانی زندگی کو باھدف اور معنی و مفھوم عطا کرکے انسان کی پریشانیوں اور رنج و آلام کو آسان اور برداشت کے قابل بنادیتا ھے۔
اگرانسان یہ جان لے کہ اس کائنات کا خلق کرنے والا ایک حکیم اورر حمان و رحیم خالق ھے کہ جو کسی بھی بندے کے ساتھ بخل سے پیش نھیں آتاھے، سارے انسان اس کے نزدیک مساوی ھیں، اس کے نزدیک تقویٰ سے بڑھکر تقرب کا اور کوئی دوسرا اھم ذریعہ نھیں ھے نیز وہ عادل ھے اور کسی بھی مخلوق پر ذرہ برابر ظلم و ستم روا نھیں رکھتاتو اچانک ایسے انسان کے تمام مسائل و مشکلات، آسان اور رضائے خالق میں تبدیل ھوجاتے ھیں اور ایسے شخص کے تمام رنج و غم اس عاشق کے رنج و غم کی طرح شیریں اور لطف آور ھو جاتے ھیں جنھیں وہ اپنے معشوق کے وصال اور قرب کی خاطر ھنس کھیل کر برداشت کرجاتا ھے۔ یھی وہ درد و غم ھے جس کو عاشقان اور عارفان کسی بھی قیمت پر فروخت کرنے کیلئے راضی نھیں ھوتے۔