ضرورت دین
سب سے پھلے ھمیں یہ دیکھنا چاھئے کہ کون سا عامل یا عوامل ادیان کے صحیح ھونے کے بارے میں تحقیق و جستجو کو ضروری قرار دیتے ھیں اور کیوں دین حق کو پھچاننا اور اس پر عمل پیرا ھونا چاھئے۔
ایک آزاد فکر و نظر کے حامل شخص کی عقل اس سلسلے میں تحقیق و جستجو کو لازم اور ضروری شمار کرتی ھے اور اس کی مخالفت کو کسی بھی صورت میں قبول نھیںکرتی۔
ایک انسان کے لئے ضروری ھے کہ وہ عقلی حکم کی بنا پر تحقیق کرے کہ نبوت اور رسالت کا دعویٰ کرنے والے واقعی خدا کے بھیجے ھوئے پیغمبر تھے یا نھیں اور اس تحقیق و جستجو کے سفر میں وھاں تک بڑھتا چلا جائے کہ اس کو اطمینان حاصل ھو جائے کہ وہ سب کے سب غلط اور جھوٹے تھے یا پھر اگر برحق تھے تو ان کی تعلیمات کو سمجھے اوران پر عمل پیرا ھوجائے کیونکہ:
(۱) انسان ذاتاً اپنی سعادت اور کمال کا طالب ھے اور یہ طلب کمال و سعادت اس کی حبّ ذات سے سرچشمہ حاصل کرتی ھے۔ یھی حب ذات انسانی کا رگزاریوں اور فعالیتوں کی اصلی محرک ھوتی ھے۔
(۲) پیغمبری کا دعویٰ کرنے والا یھی وعویٰ کرتا ھے: ”اگرکوئی میری تعلیمات کو قبول کرلے اور ان پر عمل پیرا ھوجائے تو ابدی سعادت حاصل کرلے گا اوراگر قبول نہ کرے تو ھمیشہ کے لئے عذاب و سزا کا حقدار ھو جائے گا۔“
(۳) اس دعوے کی صحت کا احتمال ھے کیونکہ انسان نبوت کے مدعی کے دعوے کے باطل ھونے کا یقین نھیں رکھتا۔
(۴) کیونکہ مُحتَمَل ( انسان کی ابدی سعادت و شقاوت )ایک قوی عامل ھے اور کوئی بھی مسئلہ اس قدر اھم نھیں ھوسکتا ، ھر چند کسی کی نظرمیںاس دعوے کی صحت کا احتمال کم ھو لیکن عقل یھی کھتی ھے کہ اس دعوے کے صحیح یا غیر صحیح ھونے کے بارے میں تحقیق و جستجو کی جائے بالخصوص اس وقت جب یہ احتمال بھت زیادھ قوی اور مستحکم ھو۔
مثال کے طور پر اگر کوئی نابینا شخص کھیں جاتے ھوئے کسی ایسے شخص سے ملاقات کرے جو اس سے یہ کھے کہ اگر تم دس قدم بھی آگے بڑھے تو ایسے کنویں میںجا گرو گے کہ پھر کبھی اس سے باھر نہ نکل سکوگے اور اگر داھنے طرف دس قدم آگے بڑھے تو ایسے باغ میںداخل ھو جاو گے کہ ھمیشہ اس باغ میں موجود نعمتوں سے لطف اندوز ھوتے رھو گے۔ نابینا شخص اگر دوسرے شخص کے قول کے صحیح ھونے کا احتمال دے تو اس کی عقل اس سے کھے گی کہ اس دوسرے شخص کے قول کے بارے میں تحقیق و جستجو کرے یا کم از کم احتیاطاً اپنا راستہ موڑدے۔
لھٰذا ، اگر انساان کو علم ھو جائے کہ گذشتہ طویل تاریخ میں ایسے والا صفات افراد آئے ھیں جنھوں نے یہ دعوا کیا ھے کہ وہ خداوند عالم کی طرف سے اس لئے بھیجے گئے ھیں تاکہ انسانوں کو ابدی سعادت سے ھمکنار کرسکیں اور دوسری طرف اس بات کا بھی مشاھدہ کرے کہ ان عظیم افراد نے اپنے پیغام کو پھونچانے میں کوئی کوتاھی نھیں برتی ھے نیز ھدایت انسان میں کوئی بھی دقیقہ فرو گذاشت نہیں کیا ہے ساتھ ہی ساتھ مختلف النوع مشکلات و مسائل کا سامنا کیا ھے حتی اپنی جان تک دے دی ھے تو عقل کا تقاضا یھی ھے کہ ان عظیم افراد کے دعوے کے صحیح یا غیر صحیح ھونے کے بارے میں تحقیق و جستجو کی جائے۔
دوسرے الفاظ میں یوں بھی کہا جاسکتا ھے کہ دفع ضرر یا نقصان ، عقل کے مسلم احکامات میں سے ھے اور یہ حکم، احتمال اور محتمل کے شدید یا ضعیف ھونے کی بنا پر، شدید یا ضعیف ھوجاتا ھے جتنا انسان کے لئے اس نقصان کے پھونچنے کا احتمال زیادہ ھوگا اور جتنا محتمل شدید ھوگا اتنا ھی اس نقصان اور ضرر سے متعلق عقل کاحکم بھی شدید اور سخت ھوجائے گا۔
دین سے متعلق و ہ محتمل ضرر کہ جودین کے قبول نہ کئے جانے کی صورت میں انسان کی طرف پلٹ جاتا ھے ، ابدی شقاوت اور بدبختی کاباعث بنتاھے اور کیونکہ یہ نقصان ( محتمل) بھت عظیم اور خطرناک ھے، ھر چند دین کے برحق ھونے کا احتمال جتنا بھی کم ھو، لھذا احتمالی ضررکے دفع کرنے سے متعلق عقل کا حکم اپنی جگہ پر مسلم اور باقی ھے۔
حب ذات کے علاوہ ایک دوسرا سبب بھی موجود ھے جوانسان کو ھمیشہ اس بات کے لئے اکساتا رھتا ھے کہ وہ دین سے متعلق تحقیق و جستجو کرے اور وہ حقائق سے متعلق شناخت حاصل کرے ۔ انسان فطرتاً حقیقت جو ھے اور جستجو گری کی حس ھمیشہ اس کی جان سے چمٹی رھتی ھے۔ یھی وہ حس ھے جو آدمی کو اس بات پر اکساتی رھتی ھے کہ وہ مسائل دینی کے صحیح یا غیر صحیح ھونے کے بارے میں تحقیق و جستجو کرے۔
کیا اس کائنات کا کوئی خالق ھے؟اگر ھے تو وہ خالق کون ھے؟ اس کے صفات کیا ھیں؟ خدا سے انسان کا رابطہ کس طرح کا ھے؟ کیا انسان مادی بدن کے علاوہ غیر مادی روح بھی رکھتا ھے؟ کیا اس دنیوی زندگی کے علاوہ بھی دوسری کوئی زندگی ھے اور اس زندگی سے اس زندگی کا کیا رابطہ ھے؟
یہ سوالات اور اس طرح کے سینکڑوں سوالات ایک حقیقت جو، انسان کا دامن کبھی نھیں چھوڑتے اور اس وقت تک چمٹے رھتے ھیں جب تک اسے ایسے جوابات نہ مل جائیں جو اس کو مطمئن کرسکیں۔
ھر دین کا عقائد پر مبنی حصہ درحقیقت اس طرح کے سوالوں سے متعلق اس دین کے جوابات ھی ھیں۔