"ان الدّین عند اللّہ الاسلام ومااختلف الّذین اوتوا الکتاب الاّٰ من بعد ما جآ ء ھم العلم بغیاً بینھمو من یکفر بایٰات اللّہ فا ن اللّہ سریع الحساب" (آل عمران١٩)
''دین،اللہ کے نزدیک صرف اسلام ہے اور اھل کتاب نے علم آنے کے بعد ھی جھگڑا شروع کیا صرف آپس کی شرارتوں کی بناپر اور جو بھی آیات الھی کا انکار کرے گاتوخدابھت جلد حساب کرنے والا ہے۔''
انبیاء نے جس دین کی طرف لوگوں کودعوت دی ہے وہ خداپرستی اور اس کے احکام کے مقابلہ میں تسلیم ھونا ہے۔ادیان کے علماء،باوجود اس کے کہ حق کی راہ کو باطل سے تشخیص دیتے تھے ،تعصب ودشمنی کی وجہ سے حق سے منحرف ھوکرھر ایک نے ایک الگ راستہ اختیار کیا ،اور نتیجہ کے طور پر دنیا میں مختلف ادیان وجود میں آگئے ۔حقیقت میں لوگوں کے اس گروہ نے آیات الھی کی نسبت کفر اختیار کیا ھے اور خدائے متعال ان کے اعمال کی جلد ھی سزا دے گا:
"ومن یبتغ غیر الاسلام دیناً فلن یقبل منہ وہو فی الاخرة من الخٰاسرین"(آل عمران ٨٥)
''اور جو اسلام کے علاوہ کوئی بھی دین تلاش کرے گا تو وہ دین اس سے قبول نہ کیا جائے گا اور وہ قیامت کے دن خسارہ والوں میں ہوگا۔''
"یا ایّہا الذین ء آمنوا ادخلوا فی السّلم کافّةً ولا تتّبعوا خطوات الشیطان انہ لکم عدوّمّبین" (بقرہ٢٠٨)
''ایمان والو !تم سب مکمل طریقہ سے اسلام میں داخل ھو جاو اور شیطانی اقدامات کا اتباع نہ کرو وہ تمھاراکھلا ھوا دشمن ہے۔''
"واوفوا بعھد اللّہ اذاعٰاھد تّم ولا تنقضوا الایمٰان بعدتوکیدہٰا وقد جعلتم اللّہ علیکم کفیلا ان اللّہ یعلم ماتفعلون"(نحل ٩١)
'' اور جب کوئی عھد کرو تو اللہ کے عھد کو پورا کرو اور اپنی قسموں کوان کے استحکام کے بعد ھر گز مت توڑو جب کہ تم اللہ کو کفیل اور نگران بنا چکے ہو کہ یقینا اللہ تمھارے افعال کو خوب جانتا ہے۔''
اس آیة شریفہ کا مقصد یہ ہے کہ، مسلمان جو بھی عھد و پیمان خدا یا بندوں سے کریں ،انھیں اس پر عمل کرنا چاہئے اور اسے نہ توڑیں ۔
"ادع الی سبیل ربّک بالحکمةوالموعظة الحسنة وجٰادلھم بالّتی ھی احسن ان ربّک ھو اعلم بمن ضلّ عن سبیلہ وھو اعلم بالمھتدین" (نحل ١٢٥)
''آپ اپنے رب کے راستہ کی طرف حکمت اور اچھی نصیحت کے ذریعہ دعوت دیں اور ان سے اس طریقہ سے بحث کریں جو بھتر ین طریقہ ھے کہ آپ کا پروردگار بھتر جانتا ہے کہ کون اس کے راستہ سے بھک گیا ہے اور کون لوگ ھدایت پانے والے ہیں ۔''
مقصد یہ ہے کہ،دین کی ترقی کیلئے مسلمان کوھر ایک کے ساتھ اس کی عقل وفھم کے مطابق اس کے لئے مفید ھو ،اور اگردلیل و برھان اور نصیحت سے کسی کی راہنمائی نہ کر سکا ،تو جد ل (جو کہ مطلب کو ثابت کر نے کا ایک طریقہ ہے )کے ذریعہ اس کو حق کی طرف دعوت دے۔
"واذا قری القرآن فاستمعوا لہ وانصتوا لعلّکم ترحمون"(اعراف٢٠٤)
''اور جب قرآن کی تلا وت کی جائے تو خاموش ہو کر غور سے سنو شاید تم پررحمت نازل ہوجائے ۔''
"یا ایّھا الّذینء امنوا اطیعوا اللّہ و اطیعوا الرّسول و اولی الامرمنکم فان تنٰازعتم فی شئٍ فرُدّوہ الی اللّہ و الرّسول ان کنتم تومنون باللّہ و الیوم الاٰخر ذلک خیر واحسن تاویلا"(نساء٥٩)
''ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور رسول اور صاحبان امر کی اطاعت کرو جو تمھیںمیں سے ھیں ،پھر اگر آپس میں کسی بات میں اختلاف ھوجائے تو اسے خدا اور رسول کی طرف پلٹا دو اگرتم اللہ اورروزآخرت پر ایمان رکھنے والے ھو ،یھی تمھارے حق میں خیر اورانجام کے اعتبار سے بھترین بات ہے۔''
مقصد یہ ہے کہ اسلامی معاشروں میں،اختلاف دور کرنے کا وسیلہ ،قرآن مجید اور پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارشادات کے علاوہ کوئی اور چیز نھیں ھے،اور ان دودلیلوں کے ذریعہ ھر اختلاف کو حل کرنا چاہئے اوراگر کسی مسلمان نے عقل سے اختلاف دور کیا،تووہ بھی اس لئے ھے کہ قرآن مجید نے عقل کے حکم کو قبول کیا ہے ۔
"فبما رحمةٍ من اللّہ لنت لھم ولو کنت فظّاً غلیظ القلب لانفضّوا من حولک فاعف عنھم واستغفر لھم و شاورھم فی الامر فاذا عزمت فتوکل علی اللّہ ان اللّہ یحبّ المتوکّلین"(آل عمران ١٥٩)
''پیغمبر!یہ اللہ کی مھر بانی ھے کہ تم ان لوگوں کے لئے نرم ھو ورنہ اگر تم بد مزاج اور سخت دل ھوتے تو یہ تمھارے پاس سے بھاگ کھڑے ھوتے ،لھذاتم انھیں معاف کردو ۔ان کے لئے استغفار کرو اور ان سے جنگ کے امورمیں مشورہ کرو اور جب ارادہ کرو تو اللہ پر بھروسہ کرو کہ وہ بھروسہ کرنے والوں کو دوست رکھتاھے''
کیونکہ نیک برتاو ،خیر خواھی اور امور میں مشورہ کرنا ،انس ومحبت کا وسیلہ ھے اورمعاشرہ کے افراد کو اپنے سر پرست سے محبت کرنی چاھیئے تاکہ وہ ان کے دلوں میں نفوذ کرسکے۔ خدائے متعال مسلمانوں کے سر پرست کو خوش اخلاقی اور مشورہ کا حکم دیتا ہے،اوریہ حکم اس لئے ھے کہ ممکن ھے لوگ اپنی سوچ میں غلطی کریں لھذا حکم دیتا ھے کہ مشورت کے بعد اپنے فیصلہ میں آزاد ھو اور اس لئے کہ خدا کے ارادہ سے کوئی مخالفت نھیں کر سکتا ھے ،اپنے امور میں خداپر توکل کر کے اپنے کام اسی کے سپرد کرے ۔