اسلام ایسے ظالموں اور جابروں کے تسلط سے آزادی کا نام ھےجو اپنی خود غرضی کے ما تحت انسانوں کو غلام بنانا چاھتے ھیں ۔جو لوگوں کی شرافت ، آبرو ، جان و مال سے کھیلنا چاھتے ھیں جو لوگوں کو اپنا زر خرید سمجھتے ھیں اور یہ سب اس لئے کرتے ھیں تاکہ لوگ ان کی خواھشات کے سامنے سر جھکادیں ۔
یہ ظالم ڈکٹیٹرشپ، سرمایہ داری کے ذریعے لوگوں کو غلام بنا نا چاھتے ھیں اور اپنے ظلم و جبر کے ذریعے معاشرے کو حق و عدالت کے بر خلاف قوانین کی پیروی پر مجبور کرتے ھیں ۔ اسی لئے اسلام نے تمام اقسام قدرت کو خدا میں منحصر کر کے بندوں کو سرکشوں اور ظالموں کی غلامی سے نجات بخشی ھے ، تاکہ وہ لوگ واقعی آزادی سے فائدہ مند ھو سکیں ایسی آزادی جو کسی ظالم نظام کے تحت نہ ھو ۔
اسلام چاھتا ھے کہ لوگ اپنے اندر انسانی شرف کو محسوس کر سکیں اور یہ احساس اس وقت تک پیدا نھیں ھو سکتا جب تک معاشرے کے تمام افراد صرف ایک خدا کے سامنے سر نہ جھکائیں ۔ کیونکہ اسی صورت میں یہ بات ممکن ھے کہ کوئی کسی کو اپنا غلام نھیں بنا سکتا بلکہ ھر شخص کا حاکم ایک ھی ھے ۔
اسلام تمام تر انسانی قدر و قیمت کا قائل ھے۔ اس کا اصلی مقصد انسان کے فطری حقوق کی حفاظت ھے اور شخصی و اجتماعی زندگی کے تمام گوشوں میں عدالت و برابری کی برقراری ھے ۔ اسلامی معاشرے میں قانون نے تمام لوگوں کی برابری کی ذمہ داری لی ھے اور قانون کے سامنے سب کی حیثیت ایک ھے ۔
اگر اسلام نے فوقیت ، ملیّت ، نسلی عنصر کا اعتبار کیا ھوتا تو کسی بھی قیمت پر ایسی درخشاں پیش رفت سے ھمکنار نہ ھو سکتا ۔ ترقی کا یھی راز ھے کہ جس کی بناء پر ایک صدی سے بھی کم مدت میں آدھی سے زیادہ دنیاپر اس نے حکومت قائم کر لی ۔ اور ھر جگہ نھایت گرم جوشی سے اس کا استقبال کیا گیا اور مختلف اقوام و ملل نے اسلام قبول کیا ۔
تاریخ گواہ ھے کہ ھر زمانے میں کچھ بے بنیاد قسم کے عقائد و افکار نے ملتوں کا شیرازہ بکھیر دیا ھے اور انسان کے مختلف گروھوں میں جنگ کی آگ بھڑ کا دی ھے اس قسم کی چیزوں میں سب سے زیادہ دخل نسلی برتری ، ملت پرستی ، مذھبی احساسات کے غلط استعمال کو ھے ۔
اسلام نے عوامل اختلاف کو بنیاد نہ بنا کر عوامل و حدت اور انسانی قدر و قیمت اور اشتراک ایمان کو اساس بنایا ھے ۔ مسلمان تو یھودی ، مجوسی ، نصرانی سب ھی سے کھتا ھے کہ آخر ھم آپس میں کیوں اختلاف کریں ، آؤ سب مل کر ایک خدا کی پرستش کریں ، قرآن کھتا ھے”اے پیغمبر کھدیں کہ اھل کتاب آؤ ایک منصفانہ کلمہ پر اتفاق کر لیں کہ خدا کے علاوہ کسی کی عبادت نہ کریں کسی کو اس کا شریک نہ بنائیں آپس میں ایک دوسرے کو خدا ئی کا درجہ نہ دیں اور اس کے بعد بھی یہ لوگ منہ موڑیں تو کھدیجئے کہ تم لوگ بھی گواہ رھنا کہ ھم لوگ حقیقی مسلمان اور اطاعت گذار ھیں“ ۔(۱)
آج جو قومیں وحدت ، یگانگت ، عدالت ، حریت کی متمنی ھیں ،جو استعمار کے چنگل سے اور نسلی امتیاز کی تباہ کاریوں سے نجات چاھتی ھیں وہ اپنے مقصد کو اسلامی نظام کے اندر ھی پا سکیں گی کیونکہ اسلام ھی کے زیر سایہ ملتوں کا اتحاد اورافراد انسانی کی مساوات متحقق ھو سکتی ھے ۔ اور تمام لوگ ۔ سیاہ ، سفید ، زرد ، سرخ ۔ دوش بدوش چل سکتے ھیں اور کامل آزادی سے زندگی بسر کر سکتے ھیں.
اسلام کسی بھی شخص کی برتری کا دو بنیادوں پر قائل ھے ۔ علم و عمل اور امتیاز کا دار ومدار صرف پاکیزگی ٴ روح اور فضیلت اخلاق پر ھے ۔ اسلام نے شرافت و شخصیت کی بنیاد تقویٰ پر رکھی ھے اس کے علاوہ کوئی معیار فضیلت نھیں ھے ۔ ارشاد خدا ھے : ” انسانو ں ھم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور پھر تم میں شاخیں اور قبیلے قرار دئے ھیں تاکہ آپس میں ایک دوسرے کو پھچان سکو بیشک تم میں سے خدا کے نزدیک زیادہ محترم وھی ھے جو زیادہ پرھیز گار ھے وہ اللہ ھر شے کا جاننے والا اور ھربات سے با خبر ھے “( ۲)
رسول خدا نے علی الاعلان فرما دیا : عرب کو عجم پر اورسفید کو سیاہ پر کوئی فضیلت نھیں ھے البتہ تقویٰ و روحانی فضیلت کا سبب ھے ۔
مکہ فتح کرنے کے بعد رسول خدا نے متکبر، خود پسند، زبان و نسل کو ملیہ افتخار سمجھنے والے عربوں کو مخاطب کر کے فرمایا : ” اس خدا کی تعریف ھے جس نے اسلام کے طفیل میں تمھارے جاھلیت کے آثار ،فخر ، تکبر ، نخوت کو ختم کیا ۔یاد رکھو خدا کی بارگاہ میں تمام لوگ دو ھی قسم کے ھیں ۔ ایک گروہ تو وہ ھے جو تقوائے الٰھی کی بنا ء پر بارگاہ ایزدی میں بزرگ ھے دوسرا گروہ وہ ھے جو گنھگاری کی وجہ سے اس کے سامنے سر جھکائے ھے ۔
ایک شخص نے امام رضا (ع) کی خدمت میں عرض کی ، مولا ! روئے زمین پر کوئی ایسا نھیں ھے جس کے آباء واجداد آپ کے آباء و اجداد سے بالاتر اور شریف تر ھوں ۔امام (ع) نے فرمایاکہ ان کی بزرگی تقویٰ کی وجہ سے تھی اور ان کا مقصد حیات اطاعت پروردگار تھا ۔ یہ شخص امام (ع) کی نسلی برتری ثابت کرنا چاھتا تھا۔آپ نے فورا ًاس کے غلط طرز فکر کو ٹوک کر برتری کا معیار تقویٰ کو بتایا ۔ ایک دوسرے شخص نے حضرت سے کھا! خدا کی قسم! آپ دنیا میں سب سے بھتر ھیں ۔امام (ع) نے فوراً کھا! اے شخص !قسم مت کھا اگر کوئی مجہ سے زیادہ متقی ھے اور مجہ سے زیادہ خدا کی اطاعت کرتا ھے تو وہ مجہ سے بھتر ھے ۔ خدا کی قسم! ابھی یہ آیت منسوخ نھیں ھوئی ھے ۔ ( وہ آیت یہ ھے ) تم میں سب سے زیادہ محترم وہ ھے جو سب سے زیادہ متقی ھے ۔ (۳)
وھی تقویٰ جو عین حریت ھے نہ کہ محدودیت ، کیونکہ محدودیت انسان کو موھبت اور سعادت سے محروم کر دیتی ھے لیکن تقویٰ روح کی زرہ ھے جو اس کو معنویت عطا کرتی ھے اور اس کو قید بندگی و ھوا و ھوس سے آزاد کرتی ھے اور شھوت و خشم ، حرص و طمع کی زنجیروں کو اپنے گلے سے نکال دیتی ھے ۔ اجتماعی زندگی میں بھی تقویٰ بشر کے لئے آزادی بخش ھے ۔جس کی گردن میں حسب و نسب اور مرتبے کی زنجیر پڑی ھو وہ اجتماعی لحاظ سے آزادی زندگی نھیں رکھتا ۔
حضرت علی (ع) ارشاد فرماتے ھیں:
” قیامت کے دن درستی و پاکیزگی کی کنجی اور ذخیرہ تقویٰ ھے ۔ تقویٰ غلامی کی ھر قید و بند سے آزادی ھے ۔ ھر بد بختی سے نجات و رھائی ھے ۔تقویٰ سے انسان اپنے مقصد کو حاصل کر لیتا ھے ، دشمن کے شر سے محفوظ رھتا ھے اپنی امیدوں اور آرزؤوں کو حاصل کر لیتا ھے ۔( ۴)
- Prev
- Next >>