www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

547537
کچھ لوگوں میں ایک منحوس عادت یہ ھوتی ھے کہ وہ ھمیشہ دوسروں کی لغزشوں اور بھیدوں کی تلاش میں رھا کرتے ھیں تاکہ ان لوگوں پر نقد و تبصرہ کریں ان کا مذاق اڑائیں ان کی سر زنش کریں ، حالانکہ خود ان لوگوں کے اندر اتنے عیوب ھوتے ھیں اور اتنی کمیاں ھوتی ھیں جو کم و کیف کے اعتبار سے ان کے فضائل پر غالب ھوتی ھے لیکن اس کے باوجود یہ لوگ اپنے عیوب سے غافل ھو کر دوسروں کے عیوب تلاش کرتے رھتے ھیں ۔ یاد رکھئے ! لوگوں کے عیوب کی تلاش ایسی منحوس صفت ھے جو انسان کی زندگی کو آلودہ کر دیتی ھے اور اس کی اخلاقی شخصیت کو گرا دیتی ھے ۔
جو چیز انسان کو دوسروں کی عیب جوئی پر ابھارتی ھے وہ احساس کمتری و پست فطرتی ھے اور غرور و تکبر ، خود پسندی سے اس صفت کو تقویت ملتی ھے۔ اسی کی ھی وجہ سے انسان اپنی زندگی میں بڑی اور زیادہ غلطیوں کا مرتکب ھوتا ھے ۔ اس عیب جوئی کی وجہ سے انسان کے اخلاق اور اس کی روحانیت میںجو تغیرات پیدا ھوتے ھیں وہ انسان کو بڑے غلط اور نامعقول قسم کی غلطیوں پر جری بنا دیتے ھیں ۔
عیب جو حضرات اپنے افکار کو ایسی چیزوں میں صرف کرتے ھیں جو کسی بھی طرح عقل و خرد کے نزدیک اور شرع کی نظر میں بھی پسندیدہ نھیں ھیں، کیونکہ یہ لوگ اپنے جانے پھچانے دوستوں کے اعمال کے تجسس میں لگے رھتے ھیں کہ دوسروں کی کوئی بھی کمزوری ان کے ھاتہ لگ جائے تو اسی کو لے اڑیں اور دوستوں پر نقد وتبصرہ کے ساتھ ان کو بد نام کرتے پھریں اور جس قدر بھی ممکن ھو دوستوں کو لوگوں کی نظروں میں ذلیل و رسوا کریں ۔ اور چونکہ یہ لوگ دوسروں کی عیب جوئی میں لگے رھتے ھیں لھذا ان کو اتنی فرصت بھی نھیں ملتی کہ اپنے عیوب کو تلاش کرسکیں اور اسی لئے اس قسم کے لوگ زندگی کی ھدایت و اصلاح کی دوڑ میں پیچھے رہ جاتے ھیں ۔ اصولا اس قسم کے لوگ بز دل ھوتے ھیں ۔ شجاع نھیں ھوتے ۔ لھذا یہ کسی قید و بند کو بھی قبول نھیں کرتے اور نہ دوسروں کی عزت و حرمت کا احترام ان کی نظروں میں ھوتا ھے ۔ یہ لوگ اپنے سے قریب ترین شخصوں کے ساتھ بھی خلوص نھیں برت سکتے ۔ اسی لئے جھاں یہ لوگ دور کے لوگوں کے عیوب بیان کرتے ھیں وھاں موقع ملنے پر قریب ترین دوستوں کی بھی برائی بیان کرنے لگتے ھیں اور یھی وجہ ھے کہ ایسے لوگوں کو ایسے سچے دوست نھیں مل پاتے جو واقعی دوست ھوں اور اس کی محبت کے زیر سایہ وہ اپنے جذبات کو سکون عطا کر سکیں ۔
انسان کی شرافت و بزرگی خود اس کے ھاتہ میں ھے جو شخص دوسروں کی شخصیت کو مجروح کرے گا اس کی شخصیت بھی قھری طور سے مجروح ھو جائے گی ۔
یہ ممکن ھے کہ عیب جو اپنے عمل کے نتیجہ سے بے توجہ ھو لیکن وہ بھرحال اپنے اس عمل کی وجہ سے لوگوں کی بد گوئی سے محفوظ نھیں رہ سکتا کیونکہ عیب جو اپنی اس حرکت کی وجہ سے لوگوں کے دلوں میں حسد کینہ بغض کا جو بیج بو چکا ھے اس کا بھگتان اسے بھگتناھی ھو گا ۔ اور اس کو اپنے اس فعل کے نتیجہ میں ندامت و پشیمانی کے علاوہ کچھ ھاتہ نھیں آئے گا ۔ اس لئے کہ عیب جو بقول بزرگان ، کبوتر کی طرح نھیں ھے کہ اگر آشیانہ سے اڑ جائے تب بھی دوبارہ واپسی کی امید منقطع نھیں ھوتی ۔
جو شخص لوگوں کے ساتھ زندگی بسر کرنا چاھتا ھے اس کی ذمہ داری ھے کہ اپنے فرائض پر عمل کرے یعنی ھمیشہ لوگوں کی خوبیوں پر نظر رکھے ، ان کے نیک اعمال کو اپنے ذھن میں رکھے اور ان کے اچھے اخلاق و اچھے کردار کی قدر دانی کرے ۔ جن عادتوں یا صفتوں سے دوسروں کی شخصیت مجروح ھوتی ھو اور جو باتیں اصول کی مخالف ھوں ان سے اجتناب کرے ۔ کیونکہ محبت کو دوام محبت ھی سے ملتا ھے اور بقائے احترام طرفین سے ھوا کرتا ھے ۔پس جو شخص اپنے دستوں کے عیوب پر پردہ ڈالنے کا عادی ھو گا اس کی محبت باقی رھے گی اور اس کی محبت کو دوام حاصل ھو گا ۔ لھذا اگر کسی دوست میں کوئی کمزوری دیکھو تو اس کے پیٹھ پیچھے اس کی برائی بیان کرنے کے بجائے کسی مناسب موقع پر اس کو اس بات کی طرف بھت خوش اسلوبی سے متوجہ کر دو ۔
یہ بات بھی قابل توجہ ھے کہ اگر دوست کی کسی کمی پر اس کو متوجہ کرنا ھے تو اس میں بھی بڑی مھارت کی ضرورت ھے اس کو ایسی خوش اسلوبی سے متوجہ کیجئے کہ اس کو تکلیف نہ پھونچے اس کے احساسات و جذبات کو ٹھیس نہ لگے ۔ ایک مربی اخلاق کا کھنا ھے : تمھارے لئے یہ ممکن ھے کہ اپنے مخاطب ( دوست ) کو اشارے یا کسی ، حرکت کے ذریعے اس کی غلطی پر متوجہ کردو، اس سے گفتگو کرنے کی ضرورت نھیں ھے ۔ کیونکہ اگر تم نے اپنے دوست سے یہ کھہ دیا کہ تمھارے اندر یہ کمی ھے تو کسی قیمت پر تم اس کو اپنا ھم عقیدہ نھیں بنا سکتے کیونکہ تم نے ڈائریکٹ یہ بات کھہ کر اس کی عقل و فکر پر حملہ کیا ھے اس کی خود پسندی کو مجروح کیا ھے ۔ آپ کے اس طریقھٴ کار سے وہ اپنی ضد پر اڑ جائے گا ۔ اور اپنے عمل میں کوئی تغیر نھیں کرے گا ۔ آپ چاھے افلاطون و ارسطو کی ساری منطق اس پر صرف کر دیں لیکن اس کا باطنی عیقدہ نھیں بدل پائیں گے ، کیونکہ آپ نے اس کے پندار کو زخمی کر دیا ھے ۔ گفتگو کرتے وقت کسی صورت میں اس سے اس طرح گفتگو کی ابتداء نہ کیجئے : میں آپ کی غلطی کو ثابت کردوں گا میرے پاس اس کے لئے مضبوط دلیلیں ھیں ! کیونکہ اس قسم کی گفتگو کا مفھوم یہ ھے کہ آپ اس سے زیادہ عقلمند ھیں ۔ لوگوں کے افکار کی اصلاح عام حالات میں دشوار ھوتی ھے ، چہ جائیکہ جب اس کے سامنے بند باندہ دیا جائے۔ اگر کسی نکتہ کو ثابت ھی کرنا چاھتے ھوں تو پھلی بات یہ ھے کہ اس پر کسی کو مطلع نہ کیجئے اور اتنی ھوشیاری و مھارت سے اس کام کو انجام دیجئے کہ کوئی سوچ بھی نہ سکے کہ آپ کا مقصد کیا ھے اس سلسلہ میں شاعر کی اس نصیحت پر عمل کیجئے ” لوگوںکو اس طرح تعلیم دو کہ کوئی تم کو معلم نہ سمجھے “۔

Add comment


Security code
Refresh