قرآن مجید صریحی طور سے جھوٹ بولنے والے کو دین سے خارج سمجھتا ھے چنانچہ ارشاد ھے : ” انما یفتری الکذب الذین لا یومنون باٰ یاٰت اللہ “(۱) جھوٹ وبھتان تو بس وھی لوگ باندھا کرتے ھیں جو خدا کی آیتوں پر ایمان نھیں رکھتے۔
آیت کا مفھوم یہ ھوا کہ ایمان والے جھوٹ نھیں بولتے ۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ارشاد ھے : تم پرسچ بولنا واجب ھے ۔ اس لئے کہ سچ اعمال خیر کی طرف لے جاتا ھے ،اوراعمال خیرجنت میں لے جاتے ھیں جو شخص سچ بولتا ھے اور اس کی کوشش کرتا ھے وہ خدا کے پاس صدیق لکھا جاتا ھے ۔ خبردار جھوٹ نہ بولنا کیونکہ جھوٹ فسق ( و فجور ) کی طرف دعوت دیتا ھے اور فسق ( و فجور ) انسان کو جھنم میں ڈھکیل دیتے ھیں ۔ جو انسان برابر جھوٹ بولتا ھے وہ خدا کے یھاں ( کذاب ) لکھا جاتا ھے ۔( ۲﴾
جھوٹوں کی ایک خصوصیت یہ بھی ھے کہ ان کو کسی بات پر بڑی مشکل سے یقین آتا ھے اور بڑی مشکل سے دوسروں کی بات پر یقین کرتے ھیں ۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ارشاد ھے : جو لوگ سب سے زیادہ لوگوں کی باتوں پر یقین کرتے ھیں یہ وھی لوگ ھیں جو سب سے زیادہ سچ بولتے ھیں ۔ اور جو لوگ ھر شخص کی بات کو جھٹلا دیتے ھیں ۔ یہ وھی اشخاص ھیں جو سب سے زیادہ جھوٹ بولتے ھیں ۔ ( ۳﴾
ساموئیل اسمایلز کھتا ھے : بعض لوگ اپنی پست طبیعتی کو دوسروں کے لئے معیار قرار دیتے ھیں لیکن یہ بات جان لینی چاھئے کہ در حقیقت دوسرے لوگ ھمارے خیالات کے آئینہ ھیں اور ھم جو اچھائی یا برائی ان کے اندر دیکھتے ھیں وہ ھماری اچھائی یا برائی کا عکس ھے ۔
شجاع و بھادر آدمی کبھی جھوٹ نھیں بولتا ۔ جھوٹے کے باطن میں ایسی روحی کمزوری ھے جو اس کو صراط مستقیم سے ھٹا دیتی ھے ۔ جو لوگ اپنے اندر برائی اور کمزوری کا احساس کرتے ھیں وھی جھوٹ بولا کرتے ھیں ۔ ڈرپوک بزدل ، کمزور کی پناہ جھوٹ ھے ۔
حضرت علی علیہ السلام ارشاد فرماتے ھیں : اگر چیزوں میں چھٹائی کی جائے تو سچائی بھادری کے ساتھ ھو گی اور جھوٹ بزدلی کے ساتھ ھو گا ۔ (۴﴾
ریمانڈ پیچ کھتا ھے : ناتوان کمزور افراد کا دفاعی حربہ جھوٹ ھے اور خطرے کوٹالنے کے لئے سب سے سریع تر ذریعہ جھوٹ ھے اسی لئے آپ دیکھیں گے کہ رنگین نژاد لوگوں میں جھوٹ بھت رائج ھے ۔ کیونکہ یہ لوگ سفید فام لوگوں کے جوتے کے نیچے رھتے ھیں اور یہ محسوس کرتے رھے ھیں کہ سفید فام لوگ ھم پر نفوذ و سیطرہ رکھتے ھیں اور ھم کو اپنی مرضی کے خلاف استعمال کر سکتے ھیں ! بھت سے اوقات میں جھوٹ صرف عاجزی و ناتوانی کا رد عمل ھوتا ھے یھی وجہ ھے کہ اگر آپ کسی بچہ سے پوچھیں کہ یہ مٹھائی تم نے کھائی ھے ؟ یا یہ گلدان تم نے توڑا ھے ؟ تو اگر بچہ جانتا ھے کہ ”ھاں“ کھہ دینے میں میری اچھی خاصی گوشمالی ھو گی تو اس کی غریزہ ٴ دفاع ( دفاعی فطرت ) فوراً اس کو نھیں ! کھنے پر آمادہ کر دے گی ۔ (۵)
اسلام سچائی کو فضیلت کا ملاک قرار دیتا ھے امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ھیں : لوگوں کی کثرت نماز اور کثرت روزہ سے دھوکہ نہ کھاؤ کیونکہ ھو سکتا ھے کسی کی یہ عادت ھی ھو گئی ھو اور اس کو اپنی عادت چھوڑنی دشوار ھو بلکہ لوگوں کو سچائی اور امانت کے ساتھ پرکھو اور ان دونوں باتوں سے ان کی آزمائش کرو ۔ (۶﴾
حضرت علی علیہ السلام سچائی کے فوائد و ثمرات بیان کرتے ھوئے فرماتے ھیں : سچ بولنے والا تین باتوں کو حاصل کر لیتا ھے ۔۱۔ لوگ اس پر بھروسہ کرتے ھیں ۔ ۲۔ اس سے محبت کرتے ھیں ۔ ۳۔ اس کی ھیبت چھا جاتی ھے ۔ (۷) حضرت علی علیہ السلام فرماتے ھیں : آدمی کی بد ترین صفت جھوٹ بولنا ھے ۔ (۸﴾
ساموئیل امایلز کھتا ھے : تمام اخلاقی برائیوں اور ذلیل ترین صفات میں سب سے مذموم اور بری صفت جھوٹ ھے ۔ انسان کو چاھئے کہ اپنے تمام مراحل زندگی میں صرف سچائی کو اصلی ھدف قرار دے ۔ کسی بھی مقصد کے حصول کے لئے سچائی سے دست بردار نھیں ھونا چاھئے ۔( اخلاق﴾
اسلام نے اپنے تمام اخلاقی و اصلاحی پروگراموں کو ایمان کی بنیاد پر استوار کیا ھے اور اسی کو سعادت بشری کی بنیاد شمار کیا ھے۔ ڈیکارٹ کھتا ھے : ایمان کے بغیر اخلاق اس قصر کے مانند ھے جو برف پر بنایا گیا ھو ۔ ایک دوسرا دانشمند کھتا ھے : دین کے بغیر اخلاق کی مثال اس دانہ کی ھے جس کو پتھر یا خارستان میں بویاگیا ھو جو خشک ھو کر ختم ھو جاتا ھے ۔ بھترین اخلاق بھی اگر زیر سایہ دین و ایمان نہ ھو تو اس کی مثال اس خاموش مردے کی ھے جو ایک زندہ اور کاھل انسان کے برابر پڑا ھو ۔
دین قلب و عقل دونوں پر حکومت کرتا ھے ۔ اگر کسی کے پاس دینی جذبات ھیں تو وہ مادی احساسات کے غلبہ کو کم کر دیتے ھیں ، دین ھی انسان اور اس کی کثافتوں و نجاستوں کے درمیان سد سکندر بن جاتا ھے ۔ جو شخص ایمان پر تکیہ کر تا ھے وہ ھمیشہ با ھدف اور مطمئن ھوتا ھے ۔ اسلام نے انسان کی شخصیت کو اسکے ایمان اور صفات اعلیٰ و ملکات فاضلہ کا مقیاس ( پیمانہ ) و محو ر قرار دیا ھے اور ان دونوں (ایمان و ملکات فاضلہ )جنبوں کی ترقی کے لئے کوشاں رھتا ھے ۔ اسی ایمان کی بدولت مسلمان کی بات میں اسلام نے وزن پیدا کر دیا ھے اور یھی وجہ ھے کہ دین کے قانون قضائی ( عدلیہ ) میں قسم کھانے کو ۔ بشرطیکہ وہ قسم تمام شرائط کی جامع ھو ۔ دلیل کا قائم مقام قرار دیا ھے ۔ اسی طرح مرد مسلمان کی گواھی معاشرے کے حقوق کے اثبات کی دلیل قرار دی گئی ھے ۔
اب ذرا تصور کیجئے اگر ان دونوں جگھوں ۔ قسم و گواھی ۔ پر جھوٹ بولا جائے تو اس سے کتنا عظیم نقصان ھو گا ۔ اور یہ اتنی بڑی لغزش ھو گی جو قابل عفو و بخشش نھیں ھے ۔ پس اس سے ثابت ھو ا کہ جھوٹ کے گناہ کی شدت و کمی اس سے پیدا ھونے والے نقصانات سے وابستہ ھے مثلا جھوٹی قسم جھوٹی گواھی کا ضرر بھت زیادہ ھے اس لئے اس جھوٹ کا بھی گناہ بھت زیادہ ھے ۔
تمام برائیوں تک پھونچنے کا سب سے پھلا ذریعہ جھوٹ ھوا کرتا ھے ۔ امام حسن عسکری علیہ السلام فرماتے ھیں : تمام خبائث و برائیوں کو ایک مکان میں بند کر دیا گیا ھے اور اس کی کنجی جھوٹ کو قرار دیا گیا ھے ۔ ( ۹﴾
میں آپ کی توجہ مبذول کرانے کے لئے اس سلسلہ میں پیشوائے اسلام کا دستور ذکر کرتا ھوں : ایک شخص سرکار رسالتمآب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پاس آکر گویا ھوا : میری سعادت و نیکبختی کے لئے آپ مجھے کوئی موعظہ فرمائیں ! آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : جھوٹ چھوڑ دو اور ھمیشہ سچ بولا کرو ! وہ شخص جواب پا کر چلا گیا ۔ اس کے بعد اس نے کھا : میں بھت ھی گنھگار تھا لیکن میں ان گناھوں کے چھوڑنے پر مجبور ھو گیا ۔ کیونکہ گناہ کرنے کے بعد اگر مجھ سے پوچھا جاتا اور میں سچ بول دیتا تو سب کے سامنے رسوا ھو جاتا اور لوگوں کی نظروں سے گر جاتا ۔ اور اگر جھوٹ بولتا تو دستور رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی مخالفت کرتا ۔ اس لئے میں نے سارے گناہ چھوڑ دئے ۔
جی ھاں ! جو شخص راست گفتار ھوتا ھے اور راہ راست پر چلتا ھے وہ رنج و افسوس سے دور رھتا ھے ۔ اور اس کے ایمان کی شمع ھمشیہ فروزاں رھتی ھے وہ شخص قلق و اضطراب سے امان میں رھتا ھے ۔ اور افکار پریشاں سے بھت دور رھتا ھے ۔
پس جھوٹ کے برے انجام کو دیکھنا اور اس کے بارے میں غور و فکر کرنا اور دین و دنیا میں اس کے برے نتائج کو سوچنا ھر شرافت مند اور متفکر انسان کے لئے ایک بزرگترین درس عبرت ھے۔ حقیقت کمال کا حصول ایمان کے زیر سایہ ھی ھوا کرتا ھے اور جھاں پر کمال حقیقی نھیں ھوتا وھاں سعادت و آسائش بھی نھیں ھوتی ۔
حوالے
۱۔ سورہ نحل/ ۱۰۵
۲۔نھج الفصاحة ص/۴۱۸
۳۔نھج الفصاحة ص /۱۱۸
۴۔غرر الحکم ص/ ۶۰۵
۵۔ کتاب ” ماوفرزندان ما “
۶۔اصول کافی ص/ ۸۵
۷۔غرر الحکم ص/ ۸۷۶
۸۔ غرر الحکم ص/ ۱۷۵
۹۔جامع السعادات ج/۲ ص/ ۳۱۸