فضائل اخلاقی میں سے ایک چیز جو رمز محبوبیت ھے اور جلب محبت و دوستی کا بھترین ذریعہ ھے وہ ” تواضع و فروتنی “ ھے ، متواضع شخص اپنے اس اخلاقی فریضہ کے سبب معقول حد تک ترقی کر لیتا ھے ۔
یہ بات ضرور ذھن میں رکھئے کہ ” تواضع “ اور ” چاپلوسی “ میں زمین آسمان کا فرق ھے، انمیں سے ھر ایک کا حساب الگ ھے ۔ کیونکہ تواضع فضیلت اخلاقی کی حکایت کرتی ھے اور شرافت نفس ، عظمت ، شخصیت ، باطنی سکون کا پتہ دیتی ھے لیکن چاپلوسی پستی اخلاق اور عدم شخصیت کا پتہ دیتی ھے ۔
حکیم لقمان نے اپنے بیٹے کو سود مند نصائح کرتے ھوئے فرمایا تھا : نخوت و تکبر سے پرھیز کرنا ۔ قرآن مجید کھتا ھے :” و لا تصعر خدّک للناس و لا تمش فی الارض مرحا انّ اللہ لا یحب کل مختال فخور “ ( ۱(
اور لوگوں کے سامنے ( غرور سے ) اپنا منہ نہ پھلانا ، اور زمین پر اکڑ کر نہ چلنا کیونکہ خدا کسی اکڑ نے والے اور اترانے والے کو دوست نھیں رکھتا ۔
حضرت علی علیہ السلام فرماتے ھیں : اگر خدا کسی بندے کو تکبر کی اجازت دیتا تو ( سب سے پھلے ) اپنے مخصوص انبیاء اور اولیاء کو اجازت دیتا ۔ لیکن خدا نے اپنے انبیاء و اولیاء کےلئے بھی تکبر پسند نھیں فرمایا ، بلکہ تواضع و فروتنی کو پسند فرمایا ( اسی لئے ) انبیاء و اولیاء نے ( خدا کے سامنے ) اپنے رخساروں کو زمین پر رکہ دیا اور اپنے چھروں کو زمین پرملا اور ایمانداروں کے سامنے تواضع و فروتنی برتا ۔
تکبر کرنے والے قطع نظر اس بات کے کہ پورا معاشرہ ان کو نفرت کی نظر سے دیکھتا ھے ان کے لئے سر کار دو عالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : تکبر سے بچو کیونکہ جب کسی بندے کی عادت تکبر ھو جاتی ھے تو خدا حکم دیتا ھے : میرے اس بندے کا نام جباروں میں لکہ لو ۔(۲(
امام صادق علیہ السلام نے فرمایا : جو شخص تکبر کی بیماری میں مبتلا ھو جاتا ھے وہ اپنے باطن میں ذلت و پستی کے احساس کی وجہ سے اس میں مبتلا ھو تا ھے ۔ (۳(
امام موسیٰ کاظم علیہ السلام فرماتے ھیں : تکبر و خود پسندی کے مراتب میں : ان مراتب میں ایک مرتبہ یہ ھے کہ خود پسند افراد کی نظروں میں ان کے برے اعمال بھی اچھے معلوم ھوتے ھیں ، لھذا ان برے اعمال سے یہ لوگ محبوب رکھتے ھیں اور خیال کرتے ھیں کہ انھوں نے بڑے اچھے کام کئے ھیں ۔ (۴(
حضرت علی علیہ السلام فرماتے ھیں : خبر دار اپنے نفس سے راضی نہ ھونا ورنہ تمھارے دشمن بھت ھو جائیں گے ۔(۵(
مگ برایڈ کھتا ھے : ایک فرد یا ایک ملت کی برتری طلبی کا مطلب دوسرے اشخاص یا اقوام کو ذلیل کرنا اور پست شمار کرنا ھے ، آج کل کی نفرت، دشمنی اورکشمکش بھی زیادہ تر عقدھٴ حقارت کی پیداوار ھے اس قسم کے طرز تفکر کا مطلب در حقیقت ایک قسم کے جھوٹے احساس حقارت کا جبران ھے ۔ ورنہ کوئی بھی با شرف و پاکیزہ نھاد انسان اپنے اور دوسروں کے درمیان اور اپنے و دیگر اقوام کے درمیان کسی امتیاز و اختلاف کا تصور بھی نھیں کر سکتا !
متکبر و خود خواہ لوگ اپنے تمام اعمال و کردار کو اچھا سمجھتے ھیں اور اپنے نواقص کو فضائل شمار کرتے ھیں جیسا کہ چند سطروں پھلے امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کا قول نقل کیا گیا ۔
ایک ماھر نفسیات کھتا ھے : متکبر اپنے نقائص کو فضائل اور اپنے عیوب کو محاسن سمجھتا ھے اگر اس کو اپنے ما تحتوں پر جلدی غصہ آجائے تو اس کو اپنی شخصیت کے قوی ھونے کی دلیل سمجھتا ھے ۔ متکبر اپنی لاغری و ضعف کو اپنی روح کی بلندی خیال کرتا ھے اور دوسروں کے موٹا پے کو مضحکہ خیز سمجھتا ھے اور اپنے موٹا پے کو صحت مندی، سلامتی عقل اور سلامتی جسم خیال کرتا ھے اور کمزوروں کو احمق سمجھتا ھے اوران کو اعتماد و بھروسہ کے قابل نھیں سمجھتا وغیرہ وغیرہ ۔ آج کل کے دانشمند تکبر کو ایک قسم کی بے عقلی اور دیوانگی خیال کرتے ھیں ۔ لیجئے حضرت علی علیہ السلام کے اقوال سنیئے :
۱۔ غرور و خود پسندی عقل و خرد کو بر باد کرنے والی ھے ۔(۶(
۲۔ جس کی قوت فکر ضعیف ھوتی ھے اس کا غرور زیادہ ھوتا ھے ۔(۷(
۳۔ تواضع و فروتنی عقلمندی کی اساس ھے اور تکبر و خود پسندی بے عقلی کی بنیاد ھے ۔(۸(
۴۔ خود پسندی و تکبر ایک اندرونی بیماری ھے ۔(۹(
متبکر و خود پسند کبھی اپنی اصلاح پر موفق نھیں ھوا کرتا ۔ اور نہ اپنی شخصیت کو بلند کر سکتا ھے ۔
۵۔ جو اپنی اچھی حالت پر ناز کرتا ھے اور اپنی رفتار کو دوسروں کی رفتار سے بلند خیال کرتا ھے وہ اپنی اصلاح سے عاجز رھتا ھے ۔ (۱۰(
ڈاکٹر ھیلن شاختر کھتا ھے : اپنی ناکامی کی حالت میں دوسروں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کا ایک ذریعہ ڈینگ مارنا اور اپنی تعریف کرنا ھے ۔ اور جن کاموں کے واقع ھونے کی امید ھو اور وہ نہ ھو سکیں اور جن توفیقات کی تمنا ھو اور وہ پوری نہ ھو سکیں ان کو واقع شدہ شمار کرنا اور اپنی طرف ان کی نسبت دینا اور جن کاموں کو انجام نہ دے سکا ھو ان کے بدلے میں انکے بارے میں بھت گفتگو کرنا اور اپنے انجام دیئے ھوئے کاموں کو بھت بڑا بنا کر پیش کرنا بھی لوگوں کی توجہ کو مبذول کر لیتا ھے ۔ اس قسم کے لوگ ایسی ڈینگیں مارکے اور ایسے ایسے جھوٹ بولنے میں اپنے کو مشغول رکہ کر اپنا وقت بر باد کر دیتے ھیں ۔
جو شخص خود پسندی کا شکار ھوتا ھے وہ اپنے نقائص کا ادراک نھیں کر پاتا اور نہ دوسروں کے خصائل و برتری کا احساس کر پاتا ھے ۔حضرت علی علیہ السلام ارشاد فرماتے ھیں : اپنے تکبر کو پسند کرنے والا ھمیشہ اپنے عیوب سے بے خبر ھوتا ھے اور اگر اس کو دوسروں کی فضیلت و برتری کا احساس ھو جاتا تو اپنے نقائص کا جبران کر لیتا ۔ (۱۱(
اسلام جو ایک بھترین شھریت کا راہ نما اور حیات بخش معاشرہ کا داعی ھے وہ ھر قسم کے ان امتیازات کو نابود کرنا چاھتا ھے جو خلاف انصاف ھوں اور صرف تقویٰ و پاکیزگی کے امتیاز کو باقی رکھنا چاھتا ھے حضرت علی علیہ السلام کا ارشاد ھے : تونگری و مالداری سے خدا کی پناہ مانگو ۔ کیونکہ دولت و ثروت میں مست آدمی کبھی ھوش میں نھیں آتا اور نہ اعتدال کی حالت ا س میں پیدا ھوتی ھے ۔ (۱۲(
حضرت سرورکائنات (ص)کی خدمت میں ایک دن ایک مالدار شخص آگیا اس کے بعد ایک غریب و مفلس آدمی بھی شرف یاب ھوا ۔ اور آکر اس مالدار کے پاس بیٹہ گیا ۔ مالدار شخص نے فورا اپنا لباس سمیٹ لیا اور رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اس صورت حال کو ملاحظہ فرمارھے تھے آپ نے ایک مرتبہ اس مالدار شخص کو مخاطب کرتے ھوئے فرمایا :
رسول خداصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم :! کیا تم کو یہ ڈرتھا کہ اس فقیر کی فقیری کھیں تم کو نہ لگ جائے اس لئے تم نے اپنا دامن سمیٹ لیا ؟
مالدار : جی نھیں !
رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم : کیا تم کو یہ خطرہ تھا کہ کھیں تمھاری دولت و ثروت کا کچھ حصہ اس غریب کو نہ مل جائے اس لئے تم نے دامن سمیٹ لیا ؟
مالدار : نھیں سرکار یہ بات بھی نھیں ھے !
رسول خداصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم : کیا تم کو یہ خوف لاحق ھو گیا تھا کہ کھیں اس کا لباس تمھارے لباس کو آلودہ نہ کر دے اس لئے تم نے اپنے کپڑے سمیٹ لئے ؟
مالدار : نھیں حضور یہ بات بھی نھیں ھے ۔
رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پھر تم نے اپنا دامن کیوں سمیٹا ؟
مالدار : یا رسول اللہ میری مالداری نے حقائق کا ادراک کرنے اور واقع بینی کو مجھ سے سلب کر لیا ھے اور میری برائیوں اور کمیوں کو میری نظر میں مستحسن بنا دیا ھے اس لئے میں نے ایسا کیا ۔ اے خدا کے رسول میں اپنے اس نازیبا سلوک کے جرم میں اس شخص کو اپنی آدھی دولت دینے کے لئے تیار ھوں !
رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس فقیر کی طرف متوجہ ھوتے ھوئے فرمایا : کیا تم اس بخشش کو قبول کرنے پر تیار ھو ؟
مرد فقیر نے کھا : نھیں مجھے قبول نھیں ھے ۔
مالدارنے پوچھا : آخر کیوں قبول نھیں ھے ؟
مرد فقیر : مجھے ڈر ھے کہ دولت پا کر کھیں میرے اندر بھی یہ قبیح صفت نہ پیدا ھو جائے ۔
لھذا اگر متکبر خود پسند واقعی اپنی سعادت و خوش بختی کا خواھاں ھے تو اس کو اپنی اصلاح کی فکر کرنی چاھئے اور اس نفرت انگیز صفت سے اپنی شخصیت کو الگ کرنا چاھئے کیونکہ اگر اس نے اس کی سر کوبی کی کوشش نہ کی تو ھمیشہ نا کامی کا شکار رھے گا ۔
حوالہ
۱۔سورہ لقمان آیت ۱۸
۲۔نھج الفصاحة ص ۱۲
۳۔کافی ج۳ ص ۴۶۱
۴۔وسائل الشیعہ ج۱ ص ۷۴
۵۔غرر الحکم ص ۱۴۷
۶۔غرر الحکم ص ۲۶
۷۔غر ر الحکم ص۶۵۱
۸۔غر ر الحکم ص ۱۰۲
۹۔غرر الحکم ص ۴۷۸
۱۰۔ غرر الحکم ص ۶۷۸
۱۱۔ غرر الحکم ص ۹۵
۱۲۔ غرر الحکم ص ۱۳۸