قرآن مجید نے بد گمانی کو بھت بڑا شمار کیا ھے اور مسلمانوں کو اس بات سے روکا ھے کہ ایک دوسرے کے بارے میں بدگمانی کریں ۔ چنانچہ ارشاد ھے : ” یاا یّھا الذین اٰمنوا اجتنبوا کثیرا من الظن ان بعض الظن اثم “ اے ایماندار و! بھت سے گمان (بد ) سے بچے رھو کیونکہ بعض بد گمانی گناہ ھے (۱(
دین اسلام نے لوگوں کو بغیر کسی قطعی دلیل کے بد گمانی کرنے سے روکا ھے ۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ارشاد ھے : مسلمانوں کی تین چیزیں تم پر حرام ھیں ۱۔خون ۲۔ مال ۳۔ بد گمانی۔(۲) جس طرح کسی مدرک و دلیل کے بغیر کسی کے مال کو دوسرے کی طرف منتقل کرنا غیر شرعی ھے اسی طرح لوگوں کے بارے میں بد گمانی کرنا بھی حرام اور غیر شرعی فعل ھے اور اصل قضیہ کے ثابت ھونے سے پھلے کسی کو متھم کرنا جائز نھیں ھے ۔ حضرت علی علیہ السلام کا ارشاد ھے :
صرف بد گمانی کی بنا پر کسی کے خلاف حکم لگا دینا نا انصافی ھے ( ۳) حضرت علی علیہ السلام نے بد گمانی کے نقصانات ، نفسیاتی بیماریاں روحانی مفاسد کو بھت جامع و بدیع انداز میں بیان فرمایا ھے :
خبر دار کسی سے بد گمانی نہ کرو کیونکہ بد گمانی عبادت کو فاسد اور گناہ کے بوجہ کو زیادہ کرتی ھے ( ۴)نیک لوگوں سے بد گمانی ان کے حق میں ظلم و بے انصافی ھے چنانچہ ارشاد مولائے کائنات ھے :
نیک شخص کے بارے میں بد گمانی بد ترین گناہ اور قبیح ترین ظلم ھے ( ۵) دوستوں سے بد گمانی قطع روابط اور دوستی و الفت کے ختم ھونے کا سبب ھے چنانچہ ارشاد ھے : جس کے دل پر بد گمانی کا غلبہ ھو جاتا ھے اس کے اور اس کے دوستوں کے درمیان صفائی کی گنجائش باقی نھیں رھتی ۔( ۶(
بد گمانی جس طرح انسان کے اخلاق و زندگی کو بر باد کرتی ھے اسی طرح دوسروں کے اخلاقیات و روح کو خراب کر دیتی ھے ۔ اور یہ بھی ممکن ھے کہ جن لوگوں کے بارے میں بد گمانی کی جائے ان کے اخلاقیات صراط مستقیم سے منحرف ھو جائیں اور وہ لوگ فساد و رذائل میں مبتلا ھو جائیں جیسا کہ حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا : بد گمانی بھت سے امور کو فاسد کر دیتی ھے اور برائیوں پر آمادہ کرتی ھے ۔(۷(
ڈاکٹر ماردن کھتا ھے : بھت سے ایسے نوکر ھیں جن کے مالک ان سے ھمیشہ بد گمان رھتے ھیں اور خیال کرتے ھیں کہ یہ ملازمین چور ھیں ایسے نوکر آخر کار چوری کرنے لگتے ھیں اور اس قسم کی بد گمانی کا چاھے ھاتہ و زبان سے اظھار بھی نہ کیا جائے پھر بھی وہ اپنی بری تاثیر چھوڑتی ھیں اور اس کی روح مسموم ھو جاتی ھے اور اس کو چوری پر ورغلانے لگتی ھے ۔ (۸(
حضرت علی علیہ السلام اسی سلسلہ میں فرماتے ھیں : کھیں تم ( اپنی بیوی سے بد گمانی کی بنا پر ) اپنی غیرت کا اظھار نہ کر بیٹھو کیونکہ یہ بات صحیح آدمی کو برائی پر اور بے گناہ کو گناہ پر آمادہ کرتی ھے ۔ ( ۹(
بد گمانی کرنے والا شخص کبھی اپنے جسم و روح کی سلامتی سے بھی ھاتہ دھو بیٹھتا ھے ۔ جیسا کہ حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا : بد گمان شخص کو تندرستی و آرام نصیب نھیں ھوتا ۔ (۱۰(
ڈاکٹر مارل اس سلسلہ میں کھتا ھے : ( انسان کی ) بعض عادتیں اس کی عمر کو کم کر دیتی ھیں مثلا ھر چیز پر تنقید کی عادت ھر شئی سے بد گمانی کی عادت ! ( عمر کو کم کر دیتی ھے ) کیونکہ یہ منفی نفسیاتی عادت ،اعصاب اور داخلی غدود کو متاثر کر دیتی ھے ۔ اور اس کا نتیجہ کبھی عملی اختلال کی صورت میں اور کبھی جسمانی نقصان کی صورت میں ظاھر ھوتا ھے ۔ (۱۱(
ڈاکٹر ماردن کا کھنا ھے: بد گمانی صحت کو خراب کر دیتی ھے ۔ پیدائشی قوتوں کو کمزور کر دیتی ھے اور ایک متوازن روح کسی برائی کا کبھی انتظار نھیں کرتی ۔ مثلا ھمیشہ اس کی یھی آرزو رھتی ھے کہ نیکیوں سے روبرو رھے کیونکہ اسے معلوم ھے نیکی ایک حقیقت ابدی ھے اور بد گمانی اچھی طاقتوں کے کمزور کر دینے کے سوا کچھ بھی نھیں ھے ۔ جیسے تاریکی فی نفسہ کوئی مستقل چیز نھیں ھے بلکہ عدم نور کا نام تاریکی ھے ۔ لھذا نور کی تلاش میں دوڑ و ! نور دل سے تاریکی کو ختم کر دیتا ھے (۱۲(
بد گمان شخص لوگوں سے وحشت کرتا ھے جیسا کہ حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا : جو حسن ظن نھیں رکھتا وہ ھر ایک سے وحشت کرتا ھے ۔ (۱۳(
ڈاکٹر فارمر کھتا ھے : جس مجلس میں ھر شخص اپنی رای اور اپنے نظر یہ کو بیان کر رھا ھو اس میں اگر کوئی شخص صریحی طور سے اپنی فکر و نظر کے اظھار سے ڈرتا ھو اور جو شخص وسیع و چوڑی سڑکوں کو چھوڑ کر تنگ و تاریک گلیوں میں اس خوف سے راستہ چلتا ھو کہ کھیں چوڑی سڑکوں پر یا عمومی تفریح گاھوں میں اپنے کسی رشتہ دار سے ملاقات نہ ھو جائے ،یہ سب لوگ یا تو واھمہ کے شکار ھیں یا پھر ان کی روح پر بد گمانی مسلط ھے ۔ (۱۴(
بد گمانی کی علتوں میں سے ایک علت ماضی کی تلخ یادیں بھی ھیں جو انسان کے اندر چھپی ھوتی ھیں اور انسان کو بد گمانی پر آمادہ کرتی ھیں ۔ ایک اردو کا شاعر کھتا ھے
یادِ ماضی عذاب ھے یا رب
چھین لے مجھ سے حافظہ میرا
انھیں ماضی کی تلخ یادوں نے شاعر کو اس شعر پر آمادہ کر دیا ۔ حضرت علی علیہ السلام کا ارشاد ھے : انسان کے دل کی گھرائیوں میں ایسی تلخ یادیں اور برائیاں پوشیدہ ھیں جن سے عقل فرار کرتی ھے ۔( ۱۵(
ڈاکٹر ھیلن شاختر کھتا ھے : جن لوگوں کو اپنی ذات پر اطمینان و بھروسہ نھیں ھوتا وہ معمولی سے رنج سے متاثر ھو جاتے ھیں اور ان تکلیفوں کی یادیں ان کے دلوں میں غیر شعوری طور سے باقی رہ جاتی ھیں جو ان کے افعال و اقوال ، اعمال و افکار کو متاثر کر دیتی ھیں ۔ جس کی وجہ سے وہ لوگ سخت مزاج ، غمگین اور بد گمان ھو جاتے ھیں اور ان کو پتہ نھیں چل پاتا کہ آخر وہ ان روحانی امراض کے کیونکر شکار ھو گئے ۔ کیونکہ تلخ یادیں ھمارے تحت الشعور میں مخفی رہ جاتی ھیں اور آسانی سے ظاھر نھیں ھوتیں ۔
دوسرے الفاظ میں یہ عرض کروں کہ انسان فطرتاً اپنی تلخ یادوں سے فرارکرتا ھے ۔ اس کو قطعاً یہ بات پسند نھیں ھوتی کہ ان یادوں کو خزانہ حافظہ سے نکال کر نظروں کے سامنے رکھے لیکن یہ پوشیدہ دشمن اپنی کینہ توزی سے دست کش نھیں ھوتا ۔ ھمارے اخلاق ارواح اعمال کو اپنے حسب منشاء ابھارتا رھتا ھے چنانچہ کبھی ایسا بھی ھوتا ھے کہ اپنے سے اور دوسروں سے ایسے اعمال سر زد ھو جاتے ھیں یا ایسی گفتگوئیں سننے میں آتی ھیں جو بظاھر بے سبب اور باعث کمال تعجب ھوتی ھیں لیکن اگر ھم ان کی کھوج میں لگ جائیں تو پتہ چلے گا کہ یہ انھیں تلخ یادوں کی دین ھے جو ھمارے تحت الشعور میں پوشیدہ تھیں ۔ (۱۶(
پست فطرت لوگ اپنی ذات کو دوسروں کی طبیعتوں کا پیمانہ سمجھتے ھیں اور اپنی برائیوں کاعکس دوسروں میں دیکھتے ھیں ۔ چنانچہ حضرت علی علیہ السلام نے اس سلسلہ میں نھایت عمدہ بات فرمائی ھے۔آپ ارشاد فرماتے ھیں : بد طینت شخص کسی کے بارے میں حسن ظن نھیں رکھتاکیونکہ وہ دوسروں کا قیاس اپنی ذات پر کرتا ھے ۔ ( ۱۷(
ڈاکٹر مان اپنی کتاب ” اصول علم نفسیات “ میں کھتا ھے : اپنی ذات کے دفاع میں رد عمل کی ایک قسم یہ بھی ھے کہ ساری برائیوںاور برے خیالات کو دوسروں کے سرتھوپ دیا جائے تاکہ اپنا نفس جو قلق و اضطراب میں مبتلا ھے اس سے چھٹکارا حاصل کر لے ۔ قیاس بر نفس یہ بد ترین قسم ھے اور جب اس قسم کا دفاع اپنے آخری مرحلہ پر پھونچ جاتا ھے تو پھر وہ شخص نفسیاتی مریض ھو جاتا ھے ۔ اس قسم کا دفاع کبھی کسی جرم کا نتیجہ ھوتا ھے ۔ مثلا جب ھم کسی جرم کا ارتکاب کرتے ھیں تو ھمارے اندر یہ احساس جاگ اٹھتا ھے اور ھم اپنے نفس سے دفاع کے لئے اسی قسم کا جرم دوسروں کے لئے ثابت کرنے لگتے ھیں ۔ (۱۸(
حضور سرور کائنات صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم جب مدینہ منورہ پھونچے تو مدینہ والوں میں سے ایک شخص پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت میں مشرف ھو کر بولا: اے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم !یھاں کے لوگ بھت اچھے اور بھت نیک ھیں یہ کتنی اچھی اور مناسب بات ھے کہ سرکار یھاں قیام پذیر ھوئے ! پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس سے فرمایا : تم نے صحیح بات کھی ھے ۔
تھوڑی ھی دیر کے بعد ایک دوسرا شخص ( وہ بھی مدینہ ھی کا تھا ) آیا اور اس نے کھا : اے خدا کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم !یھاں کے لوگ بھت ھی پست و فرو مایہ ھیں ۔ بڑے افسوس کی بات ھے کہ آپ جیسی عظیم شخصیت ان لوگوں کے درمیان میں سکونت اختیار کرے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس سے بھی فرمایا : تم سچ کھتے ھو !
ایک صحابی بھی وھاں پر تشریف فرماتھے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے دو متضاد قولوں پر تصدیق کرنے سے بھت متعجب ھوئے اور ان سے رھا نہ گیا پوچہ ھی لیا : حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم آپ نے دونوں کی تصدیق کر دی حالانکہ دونوں کے قول متضاد تھے ؟
رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : ان دونوں نے اپنی اپنی ذات پر قیاس کرتے ھوئے کھا تھا ۔ جس کے اندر جو صفتیں تھیں اس نے اسی کے مطابق بات کی انھوں نے جیسا تصور کیا ویسا کھا ۔ یعنی ھر ایک کی بات اس کے اعتبار سے سچ تھی ۔
البتہ یہ بات ضرور ذھن میں رکھنی چاھئے کہ جس بد گمانی سے روکا گیا ھے وہ انحراف فکری اور برائی کی طرف میلان نفس اور اس پر اصرار ھے ۔ اور جو چیز حرام ھے وہ بد گمانی پر اثر مرتب کرنا ھے ۔ ورنہ ھزاروں خیالات جو دل میں پیدا ھوتے رھتے ھیں اور قلب سے عبور کرتے ھیںاور ان پر کوئی اثر مرتب نھیں کیا جاتا کیونکہ وہ سب غیر اختیاری ھیں اور ان کو روکنا انسان کی طاقت سے باھر کی چیز ھے لھذا اس کو مورد تکلیف نھیں قرار دیا جا سکتا یعنی ان سے ممانعت نھیں کی جا سکتی ۔
بھرحال چونکہ بد گمانی کرنے والوں کی تلخ زندگی کا سر چشمہ یھی بد گمانی ھے اس لئے اس بات کی تلاش و جستجو کرنی چاھئے کہ آخر یہ بیماری کیسے پیدا ھوتی ھے ؟ اور بیماری کی تشخیص کے بعد اس کے علاج و معالجہ کی طرف توجہ کرنی چاھئے !۔
حوالے
۱۔سورہ حجرات /۱۲
۲۔ترمذی کتاب البرّ باب ۱۸ ، ابن ماجہ کتاب الفتن باب ۲ ، صحیح مسلم کتاب البرّ باب ۳۲ ، مسند احمد ج۲ ص ۲۷۷ و ج ۳ ص ۴۹۱
۳۔نھج البلاغہ مترجم ص ۱۷۴
۴۔غرر الحکم ص ۱۵۴
۵۔غرر الحکم ص ۴۳۶
۶۔غرر الحکم ص ۶۹۸
۷۔غرر الحکم ص ۴۳۳
۸۔پیروزی فکر
۹۔غرر الحکم ص ۱۵۲
۱۰۔غر ر الحکم ص ۸۳۵
۱۱۔راہ رسم زندگی
۱۲۔پیروزی فکر
۱۳۔غرر الحکم ص ۷۱۲
۱۴۔راز خوش بختی
۱۵۔غرر الحکم ص ۲۹
۱۶۔رشد شخصیت
۱۷۔غر ر الحکم ص ۸۰
۱۸۔ اصول روانشناسی
بد گمانی سے اسلام کا مقابلہ
- Details
- Written by admin
- Category: بد گمانی
- Hits: 1183