پانچویں صدی ھجری سے نویں صدی ھجری تک شیعوں کی تعداد میں مسلسل خاطر خواہ اضافہ ھوتارھا جیسا کہ چوتھی صدی ھجری کے دوران بھی ان کی افزائش جاری رھی اس دوران بعض ایسے بادشاھوں نے بھی حکومت کی جو شیعہ تھے اور مذھب شیعہ کو رواج دیتے تھے ۔
پانچویں صدی ھجری کے آخر میں اسماعیلیہ کی تحریک او ردعوت نے ”الموت “ کے علاقوں میں اپنی حکومت کو مضبوط کرلیا تھا اور اس طرح اسماعیلی فرقہ کے بادشاہ تقریبا ً ڈیڑھ صدی تک ایران کے بالکل درمیانی حصے میں مکمل آزادی کے ساتھ اپنی مذھبی رسومات کے مطابق زندگی گزارتے رھے (۱) ۔مرعشی سادات نے بھی کئی سالوں تک مازندران کے علاقوں پرحکومت کی تھی ۔(۲)
مغلوں کے ایک بادشاہ خدابندہ لونے مذھب شیعہ اختیار کرلیا تھا اور اس کی اولاد میں سے بھی بھت سے بادشاھوں نے ایران میں حکومت کی تھی اور چونکہ یہ سب لوگ شیعہ تھے اسلئے وہ سب مذھب شیعہ کی ترویج اورترقی کے لئے کوشاں رھے تھے ۔ اسی طرح آق قو یونلو اور قرہ قویونلو خاندان کے سلاطین جو تبریز میں حکومت کیا کرتے تھے (۳)اور ان کی حکمرانی اور بادشاھت کی وسعت فارس (شیراز ) اور کرمان تک پھنچ چکی تھی ، مذھب شیعہ کے پیرو تھے ۔ مصر میں بھی سالھا سال تک فاطمیوں کی حکومت قائم رھی تھی۔
البتہ مذھبی طاقت مختلف بادشاھوں کے زمانے میں مختلف رھی ھے جیسا کہ فاطمی حکومت کے خاتمے اورسلاطین آل ایوب کے اقتدار سنبھالنے سے حالات بالکل پھرگئے تھے ۔ مصر اور شام کے شیعوں کی آزادی چھن گئی تھی اور بھت سے شیعہ افرادکو قتل کردیا گیاتھا ۔(۴)
انھی شھید ھونے والوں میں سے شھید اول محمد بن محمدمکی بھی تھے جو شیعہ فقہ کے ذھین ترین افراد میں سے تھے اور ۷۸۶ھ میں دمشق میں مذھب شیعہ رکھنے کے جرم میں شھید کردئے گئے تھے (۵) اور اسی طرح شیخ اشراق شھاب الدین سھروردی کو حلب میںفلسفہ کے جرم میں شھید کردیاگیا تھا ۔ (۶)
مجموعی اور کلی طور پر ان پانچ صدیوں میں شیعہ آبادی کے لحاظ سے مسلسل بڑھتے رھے اور طاقت اور آزادی کے لحاظ سے اپنے وقت کے بادشاھوں کی مرضی یا مخالفت کے ماتحت رھے ۔ اس تمام مدت اور عرصے میں اسلامی ممالک میں سے ایک ملک میں بھی مذھب شیعہ کو سرکاری اور ملکی مذھب ھونے کا موقع نہ ملا اورنہ ھی کسی نے اس کااعلان کیا یا اسے سرکاری مذھب کے طور پر تسلیم کیا۔
حوالہ:
۱۔ تاریخ کامل ، تاریخ روضة الصفا اور تاریخ حبیب السیر کی طرف رجوع کریں۔
۲۔ تاریخ کامل اور تاریخ ابی الفداء ج / ۳۔
۳۔ تاریخ حبیب السیر۔
۴۔ تاریخ حبیب السیر اور تاریخ ابی الفداء وغیرہ۔
۵۔ روضات الجنات اور ریاض العلماء ( نقل از ریحانة الادب ج/ ۲ ص / ۳۶۵۔
۶۔ روضات الجنات ، کتاب المجالس اور وفیات الاعیان۔