علم حاصل کرنا دین اسلام کے فرائض میں سے ھے ۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فرماتے ھیں :” علم حاصل کرنا ھر مسلمان پر فرض ھے اور قطعی شواھد سے تصدیق شدہ احادیث کے مطابق اس علم کا مطلب اسلام کے تین اصولوں ( توحید ، نبوت ، معاد یعنی روز قیامت ) کو جاننا ھے .
اور ایسے ھی ان کے قریبی علوم کو سمجھنا ھے ، پھر اسلامی احکام اور قوانین کی تفصیلات کو سمجھنا ھے ،یعنی ان تمام علوم کو حاصل کرنا فرض ھے ، جس قدر بھی ھر انسان کرسکتا ھو اور زندگی میں اسے ضرورت ھوتی ھو ۔
البتہ واضح ھے کہ اصول دین کے ساتھ علم حاصل کرنا ، خواہ و ہ اجمالی لحاظ سے ھی کیوں نہ ھو ، ھر شخص کے لئے میسر ھے اور ھر انسان کی طاقت میں بھی ھے لیکن دینی قوانین اور احکام کے تفصیلی معنی کے لحاظ سے کتاب و سنت ( فقہ استدلالی ) کے بارے میں ٹیکنیکل اور مستند علم حاصل کرنا ھر شخص کے بس کی بات نھیں ھے اور صرف بعض لوگ ھی اسے حاصل کر سکتے ھیں اور اسلام میں طاقت فرسا ( حرجی ) حکم نھیں آیا ھے ( یعنی کوئی ایسا حکم نھیں دیا گیا جس کی وجہ سے انسان کو دکہ اور تکلیف ھو )
لھذا دلیل و برھان کے ذریعے دینی قوانین و احکام کے بارے میں علم حاصل کرنا ” واجب کفایہ “ ھے اور صرف بعض افراد سے متعلق ھے جو اس کی صلاحیت اور طاقت رکھتے ھیں اور باقی تمام افراد کا فرض یہ ھے ( جیسا کہ عام دستور اور قانون کے مطابق یعنی جاھل شخص ایک عالم اور فاضل شخص کی طرف رجوع کرے ، عالم کی طرف رجوع کرنے کا طریقہ کھ) مذکورہ اشخاص کی طرف رجوع کریں ( جن کو مجتھد اور فقیہ یا عالم کھا جاتا ھے ) اور اس رجوع کو تقلید کھا جاتا ھے ، البتہ یہ رجوع اور تقلید اس رجوع اور تقلید کے علاوہ ھے جو اصول معارف میں موجود ھے اور قرآن مجید کی نص صریحہ ” و لا تقف ما لیس لک بہ علم “ کے مطابق ممنوع ھے ۔
یہ جاننا چاھئے کہ شیعہ ابتدائی تقلید میں مردہ مجتھد کو جائز نھیں جانتے یعنی جو شخص مسئلے کو اجتھاد کے ذریعے نھیں جانتا اور دینی فرض کے مطابق اسے ایک مجھتد کی تقلید کرنی چاھئے ، پس وہ مجتھد جو زندہ نھیں ھے اس کے نظرئیے کی تقلید نھیں کر سکتا ۔ البتہ اگر اس مجتھد کی زندگی میں اس کی تقلید کرتا رھا ھو ، اس کی وفات کے بعد بھی وہ اس کا مرجع تقلید باقی رھے گا ( یعنی مجتھد کی وفات کے بعد بھی اس کی تقلید کو جاری رکہ سکے گا ) اور یہ مسئلہ شیعوں کی اسلامی فقہ کو زندہ اور تازہ رکھنے کے عناصر و عوامل میں سے ھے تاکہ کچھ لوگ ھمیشہ اجتھاد تک پھونچنے کی کوشش اور جدو و جھد کرتے رھیں اور اس طرح فقھی مسائل میں اپنی تحقیق جاری رکہ سکیں ، لیکن اھلسنت پانچویں صدی ھجری میں اجماع امت کی وجہ سے اپنی فقہ کے چار اماموں یعنی امام ابو حنیفہ ، امام مالک ، امام شافعی اور امام احمد حنبل میںسے کسی اور کی تقلید کو بھی جائز نھیں سمجھتے ، اور اس کے نتیجے میں ان کی فقہ اسی سطح پر باقی رہ گئی ھے جیسا کہ بارہ سو سال پھلے تھی ، لیکن اس آخری زمانے میں بعض افراد نے پرانی اجماع اور تقلید سے انکار کرتے ھوئے آزاد اجتھاد کو شروع کر دیا ھے ۔