اللہ تعالیٰ اپنے کلام میں چند جگہ فرماتا ھے اور حکم دیتا ھے کہ لوگوں کو چاھئے کہ قرآن مجید میں تفکر اور غور کریں اور اس کے ساتھ ھی اس کے احکام پر عمل کریں
اور صرف معمولی اور سطحی طور پر سمجھنے پر ھی قناعت نہ کریں اور اپنی بھت زیادہ آیات میں دنیائے فطرت کا اور اس کے علاوہ جو کچھ اس میں موجود ھے کسی استثناء کے بغیر اپنی آیات اور نشانیوں کا تعارف کراتا ھے ۔
آیت یا نشانی کے معنی میں تھوڑا سا غور کرنے سے یہ بات واضح ھو جاتی ھے کہ آیت یا نشانی اس وجہ سے آیت اور نشانی ھے کہ دوسری چیز کو واضح کرے نہ کہ اپنے آپ کو مثلاً سرخ بتی جو خطرے کی علامت ھے اور ایک جگہ پر نصب کی جاتی ھے ، اس کو دیکھنے سے انسان خطرے کا احساس کرتا ھے اور خطرے کے سوا اس کے ذھن میں اور کوئی چیز نھیں آتی ، لھذا اس کو دیکھنے سے انسان صرف سرخ بتی کی طرف توجہ نھیں کرتا ( بلکہ خطرے کی طرف توجہ کرتا ھے ) اور اگر بتی کی شکل اور شیشے کی خاصیت یا رنگ کا خیال کرے تو اس کے ذھن میں بتی کی صورت یا شیشے اور رنگ کے سوا کچھ نھیں آئے گا ، نہ کہ خطرے کا تصور ۔
لھذا اگر دنیا اور دنیا کے مظاھر سب کے سب اور ھر لحاظ سے خدا وند کریم کی نشانیوں کے طور پر سمجھے جائیں تو یہ سب چیزیں الگ وجود کی مالک نھیں ھو ں گی اور جس طرح بھی ان میں غور کیا جائے خدا وند پاک کی نشانیوں اور علامتوں کے سوا اور کوئی چیز نظر نھیں آئے گی ۔ جو شخص قرآنی تعلیمات اور ھدایات کے ذریعے اس تصور سے دنیا اور اھل دنیا کی طرف توجہ کرے کہ وہ خدائے پاک کے سوا کسی اور چیز کو نھیں دیکھے گا اور اسی طرح دنیا کی خوبصورتی و رعنائی جو دوسرے لوگوں کودنیا کے نقشے پر نظر آتی ھے ، کے مقابلے میں وہ ایک لا متناھی خوبصورتی کو دیکھے گا جو اس دنیا کے تنگ دریچے سے اپنی تجلی کو ظاھر کرتی ھے اور اس وقت انسان اپنی زندگی کے خرمن کو برباد کر کے اپنے دل کو خدا کی محبت اور عشق میں محو کر دیگا ھے ۔
جیسا کہ واضح ھے ، یہ ادراک ، کانوں ، آنکھوں یا دوسرے حواس یا عقل و خیال کے ذریعے حاصل نھیں ھو سکتا ، کیونکہ ان چیزوں یا اعضاء کا کام خود بھی خدا کی نشانیوں اور علامتوں یا آیات میں ھے لھذا یہ تمام حواس اس ادراک و ھدایت کو حاصل کرنے میں عاجز اور قاصر ھیں ۔( بحار الانوار ج/ ۲ ص / ۱۸۶)
وہ سالک جو خدا کی یا د میں ما سواء اللہ کو فراموش کرنے کی کوشش نھیں کرتا ، جب سنتا ھے کہ خدا وند تبارک و تعالیٰ اپنے کلام پاک میں ایک جگہ فرماتا ھے :
” یآا یّھا الذین اٰمنوا علیکم انفسکم ، لا یضرکم من ضل اذا اھتدیتم “( سورۂ مائدہ /۱۰۵ ) ” اے لوگو! جو ایمان لائے ھو اپنے نفس کو پھچانو ، کیونکہ جب تم نے حقیقی راستے کو پھچان لیا تو دوسرے لوگ جو گمراہ ھو چکے ھیں تمھیں کوئی نقصان نھیں پھونچا سکیں گے “۔
تو اس وقت سمجھ لیتاھے کہ وہ شاھراہ جس پر چل کر حقیقی اور کامل ھدایت حاصل کی جا سکتی ھے ، صرف انسانی نفس کا ھی راستہ ھے اور انسان کے حقیقی راھنما نے جو اس کا خدا ھے ، اس انسان کو ذمہ دار اور خود مختار بنا دیا ھے تاکہ اپنے آپ کو پھچانے اور تمام دوسرے راستوں اور طریقوں کو نظر انداز کر کے صرف نفس کا طریقہ اپنائے اور اپنے نفس کے ذریعے خدا کو دیکھے اور پھچانے ، اگراس نے ایساکرلیاتووہ اپنے حقیقی اور واقعی مطلوب کو پالے گا ۔
” من عرف نفسہ فقد عرب ربہ “ ” جس شخص نے اپنے آپ کو پھچان لیا اس نے خدا کو پھچان لیا “۔
” اعفکم بنفسہ اعرفکم بربہ “ ”تم میں سے وھی شخص خدا کو بھتر طور پر پھچانتا ھے ، جو اپنے آپ کو بھتر پھچانتا ھے “۔
لیکن سیر و سلوک کا منصوبہ اور پروگرام ! اس سے متعلق قرآن کریم کی بھت زیادہ آیات موجود ھیں جو خدا کو یاد کرنے کا حکم دیتی ھیں ۔ مثلاً اللہ تعالیٰ فرماتا ھے :
” فاذکرونی اذکرکم “(سورہ ٴ بقرہ / ۱۵۲) ” مجھے یاد کرو تاکہ میں بھی تمھیں یاد کروں “ ۔
اس کے علاوہ دوسری آیات ، اعمال صالح ( نیک اعمال ) کے متعلق قرآن و سنت میں تفصیلات آئی ھیں اور آخر میںخداوندعالم فرماتا ھے : ” لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوة حسنة “ ( سورۂ احزاب / ۲۱)” تمھارے لئے سیرت رسول خدا میں اسوہ حسنہ ھے ۔
پس کیسے ممکن اور متصور ھو سکتا ھے کہ اسلام ، خدا کے راستے کو تو تشخیص دے اور پھر لوگوں کو اس راستے پر چلنے کی تاکید اور وصیت نہ کرے ؟
یا اس راستے کو دوسروں کے سامنے تو پیش کرے لیکن اس کے منصوبوں اور پروگراموں کو بیان کرنے میں غفلت یا سستی کرے ؟
حالانکہ خدا وند تعالیٰ اپنے کلام میں فرماتا ھے : ” و نزّلنا علیک الکتٰب تبیانا لکل شی ءٍ “ ( سورہ نحل / ۸۹ ) ” ھم نے قرآن کو تم پر نازل کیا ھے اور یہ کلام ھر اس چیز کے بارے میں واضح بیان کرتا ھے ، جو لوگوں کے دین و دنیا سے متعلق ھو ۔