سید الشھداء حضرت امام حسین علیہ السلام، حضرت علی علیہ السلام اور رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بیٹی حضرت فاطمہ زھرا سلام اللہ علیھا کے دوسرے فرزند تھے۔ آپ کی ولادت ۴ھ میں ھوئی تھی۔
اپنے بڑے بھائی امام حسن مجتبی ٰعلیہ السلام کی شھادت کے بعد خدا کے حکم اور دوسرے امام کی وصیت کے مطابق منصب امامت پر فائز ھوئے ۔
امام حسین علیہ السلام نے دس سال امامت کی اور اس تمام عرصے میں بھت ھی سخت حالات اور سیاسی گھٹن کی حالت میں زندگی گزاری ، کیونکہ اس زمانے میں دینی اصول و قوانین کی حیثیت ختم ھو چکی تھی اور حکومتی قوانین و احکام، خدا و رسول کے احکام کے جاگزیں ھو چکے تھے۔ ادھر معاویہ اور اس کے ساتھی اھلبیت علیھم السلام اور ان کے پیروکاروں کو ختم و نابود کرنے اور اسی طرح علی علیہ السلام اور اھلبیت علیھم السلام کا نام مٹانے کے لئے ھر کوشش اور امکان سے استفادہ کیا کرتے تھے۔
امام حسین علیہ السلام مجبوراً اس تاریک دور میں زندگی گزار رھے تھے اور ھر قسم کی سختیوں، روحانی شکنجوں اور اذیتوں کو جو معاویہ اور اس کے پیروکاروں کی طرف سے آپ پر وارد ھوتی تھیں، برداشت کر رھے تھے یھاں تک کہ ۶۰ھ میں معاویہ فوت ھوگیا اور اس کا بیٹا یزید اس کی جگہ بادشاہ بن گیا۔
بیعت کرناایک عربی رسم تھی جو اھم کاموں مثلاً سلطنت اور امارات میں جاری تھی اور ما تحت یا خاص کرمشھور لوگ اپنے سلطا ن،بادشاہ یا امیرکے ھاتھ پر بیعت کیا کرتے تھے اور اس طرح اپنی وفاداری ،اطاعت اورموافقت کا اظھار کرتے تھے اورپھر بیعت کے بعد مخالفت کرنا قومی غداری اورشرمساری شمار کی جاتی تھی۔ یہ مخالفت ایک قطعی اور مضبوط معاھدے کی خلاف ورزی اور جرم کے مترادف تھی۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی سیرت میں بھی مجموعی طور پر وھی بیعت قابل قبول ھوتی تھی جو پورے اختیار کے اور کسی دباؤ کے بغیر ھو، نہ کہ دباؤ کے ذریعے۔
معاویہ نے بھی قوم کے بڑے بڑے اور مشھور لوگوں سے یزید کے لئے بیعت حاصل کرلی تھی لیکن امام حسین علیہ السلام پر کسی قسم کا بیعت کا دباؤ نھیں ڈالا گیا تھا یا ان سے بیعت کے لئے نھیں کھا گیا تھا اور نہ ھی یزید کی بیعت امام حسین(ع) کے لئے فرض کی گئی تھی۔ اس نے یزید کو خصوصاً نصیحت اور وصیت کی تھی کہ اگر حسین ابن علیعلیہ السلام تمھاری بیعت سے انکار کرے تو زیادہ اصرار نہ کرنا اور خاموشی اور چشم پوشی سے کام لینا، کیونکہ وہ اس مسئلے میں کافی تحقیق کرچکا تھا اوراس کام کے سخت نتائج کو اچھی طرح سے سمجھتا تھالیکن یزید اپنے غرور و تکبر اور دیدہ دلیری میں اپنے باپ کی نصیحت کو بھول چکا تھا اور اس نے اپنے باپ کی وفات کے فوراً بعد مدینے کے حاکم کو حکم دیا کہ امام حسین علیہ السلام سے اس کی بیعت لے ورنہ ان کا سر کاٹ کر شام بھیجا جائے۔
جب مدینے کے حاکم نے یزید کی خواھش کو امام حسین علیہ السلام کے سامنے بیان کیا تو امام حسین علیہ السلام نے اس پر غور کرنے کے لئے کچھ مھلت چاھی۔ اس کے بعد راتوں رات اپنے خاندان کے ساتھ مدینہ سے مکہ چلے آئے اور حرم کعبہ اور خانہ خدا میں جو روایتی پناہ گاہ تھی، پناہ گزیں ھو گئے۔
یہ واقعہ ۶۰ھ کو ماہ رجب کے آخر یا شعبان کے شروع میں پیش آیاتھا ۔ امام حسین علیہ السلام چار مھینے تک شھر مکہ میں پناہ گزیں کے طور پر زندگی گزارتے رھے۔ ایک طرف تو وہ لوگ جو معاویہ کے زمانہ خلافت میں اس کے ظلم و ستم کی وجہ سے ناراض تھے اور پھر یزید کی خلافت نے ان کی ناراضگی میں اور بھی اضافہ کردیا تھا، امام حسین علیہ السلام سے ھمدردی کا اظھار کرتے تھے اور دوسری طرف عراق خصوصاً شھر کوفہ سے یکے بعد دیگے خطوط آرھے تھے جن میں امام حسین علیہ السلام کو عراق آنے اور ان لوگوں کی قیادت سنبھالنے کی دعوت دی گئی تھی، تاکہ ظلم و ستم کو ختم کرنے کے لئے انقلاب برپا کریں۔لیکن یہ واقعات یزید اور اس کی حکومت کے لئے سخت خطرہ تھے۔
مکہ معظمہ میں امام حسین علیہ السلام کا قیام جاری تھا،یھاں تک کہ حج کا زمانہ آگیا اور دنیا کے مسلمان گروہ در گروہ اور جوق در جوق مکہ میں آنا شروع ھوگئے اور حج کرنے کے لئے تیار ھوگئے۔ اس وقت حضرت امام حسین علیہ السلام کو اطلاع ملی کہ یزیدی لوگوں کی ایک جماعت حاجیوں کی شکل میں مکہ میں داخل ھوگئی ھے جن کو مامور کیا گیا تھا کہ اپنے احرام کے نیچے ھتھیار کے ذریعے فریضہ حج کے دوران امام حسین(ع) کو شھید کردے۔
امام حسین علیہ السلام نے فریضہ حج کو مختصر طور پر ادا کرتے ھوئے وھاں سے نکل جانے کا فیصلہ کیا۔ آپ نے لوگوں کی ایک جماعت کے سامنے مختصر سی تقریر کرتے ھوئے عراق کی جانب جانے کی اطلاع دی۔ آپ نے اپنی شھادت کی خبر بھی دی اور اس کے ساتھ ھی مسلمانوں سے مدد کی درخواست بھی کی کہ اس اھم کام میں ان کی مدد کریں اور خدا کی راہ میں اپنا خون بھادیں۔ اس سے اگلے دن آپ اپنے خاندان اور چند ساتھیوں کے ساتھ عراق کی طرف چل پڑے۔
امام حسین علیہ السلام نے پختہ ارادہ کر لیا تھا کہ ھرگز یزید کی بیعت نھیں کریں گے اور یہ بھی اچھی طرح جانتے تھے کہ بیعت سے انکار کرنے کے بعد قتل ھوجائیں گے۔ بنی امیہ کی دھشتناک جنگی فوج جو عمومی بد عنوانیوں اور فکری تنزل میں رچی بسی ھوئی ھے حتماً آپ کو شھید کردے گی کیونکہ اس کے پاس کوئی اختیار نھیں ھے بلکہ وہ ھر یزیدی حکم کی ماننے والی ھے اور پھر اھل عراق بھی اس کے حامی اور مددگار ھیں۔
بعض مشھور و معروف افراد نے خیر خواھی اور ھمدردی کے طور پر آپ کا راستہ روک لیا اور آپ کو اس سفر اور تحریک کے خطرناک نتائج سے آگاہ کیا لیکن آپ نے جواب میں فرمایا:
”میں ھرگز بیعت نھیں کروں گا اور ظالم و ستمگر حکومت کی تائید و تصدیق نھیں کروں گا۔ میں یہ بھی جانتا ھوں کہ جھاں کھیں جاؤں گا یا رھوں گا، مجھے قتل کردیں گے۔چونکہ میں مکہ معظمہ کو خیرباد کھہ رھا ھوں، اس کا مطلب یہ نھیں کہ میں ڈر یا خوف سے یھاں سے بھاگ رھاں ھوں، بلکہ میرے سامنے خانہ خدا کی حرمت کا خیال ھے تاکہ میرا خون گرنے سے اس پاک گھر کی توھین اور بے حرمتی نہ ھو۔“(ارشاد مفید)
امام حسین علیہ السلام کوفہ کے طرف چل پڑے۔ ابھی کوفہ پھنچنے میں چند دنوں کا فاصلہ تھا کہ آپ کو اطلاع ملی کہ کوفہ میں یزید کے حاکم نے آپ کے نمائندے (مسلم بن عقیل) اور ایک دوسرے مشھور آدمی (ھانی بن عروہ) کو جو آپ کا طرفدار تھا قتل کرکے ان کے پاؤں میں رسی باندہ کر شھر کے بازاروں اور گلیوں میں پھرایا ھے۔ شھر اور گرد و نواح میں پھرے بٹھا دئے ھیں اور دشمن کی ان گنت فوج آپ کے انتظار میں ھے۔ اس حالت میں شھید ھوجانے کے سوا اور کوئی چارہ یا راستہ نھیں تھا۔ اسی جگہ امام نے پختہ عزم سے فیصلہ کرلیا اور بلا شک و شبہ اپنے قتل اور شھید ھوجانے کی اطلاع بھی سب کو دیدی تھی لیکن اس کے باوجود آپ نے اپنا تاریخی سفر جاری رکھا۔
کوفہ سے تقریباً ستر کلو میٹر کے فاصلے پر ایک بیابان تھا جس کو کربلا کھتے تھے۔ یھاں حضرت امام حسین علیہ السلام اور آپ کے ساتھی یزیدی فوج کے محاصرے میں آگئے اور ان کو مجبوراً یھاں آٹھ دن تک ٹھھرنا پڑا۔ محاصرہ ھر روز تنگ ھوتا جاتا رھا تھا اور ساتھ ھی دشمن کی تعداد بھی بڑھتی جارھی تھی۔ آخر کار حضرت امام حسین(ع) اور آپ کے گنتی کے چند ساتھی یزید کی تیس ھزار فوج کے مکمل محاصرے میں آگئے۔
ان چند دنوں میں امام حسین علیہ السلام اپنے موقف پر سختی سے ڈٹے رھے اور ساتھ ھی اپنے ساتھیوں اور اصحاب کے بارے میں بھی فیصلہ کیا۔ آپ نے رات کے وقت اپنے ساتھیوں اور ھمراھیوں کو اپنے پاس بلا کر فرمایا:
”ھمارے سامنے موت اور شھادت کے سوا اور کوئی راستہ نھیں رھا۔ ان لوگوں کو میرے سوا کسی اور کے ساتھ کوئی غرض اور واسطہ نھیں ھے۔ میں تم سے اپنی بیعت واپس لیتا ھوں۔ تم میں سے جو شخص بھی چاھے رات کے اندھیرے سے فائدہ اٹھا کر اس خطر ناک بھنور سے اپنی جان بچا سکتا ھے۔“
اس کے بعد آپ کے حکم سے روشنی گل کر دی گئی جب دو بارہ روشنی کی گئی تو دیکھا گیا کہ ایک فرد بھی اپنی جگہ سے ھلا تک نھیں تھا ۔
امام نے دوسری بار ان کا امتحان لیتے ھوئے فرمایا:
”دشمن صرف میرے پیچھے لگا ھوا ھے۔ تم میں سے جو بھی چاھے، رات کی تاریکی سے فائدہ اٹھاتے ھوئے اس مھلک خطرے سے اپنی جان بچالے۔“
لیکن اس دفعہ امام کے وفادار اصحاب نے مختلف بیانات میں جواب دئے:
”ھم ھرگز حق کے اس راستے سے منہ نھیں پھیریں گے جس کے آپ امام اور رھبر ھیں۔ ھم ھرگز آپ کے دامن پاک کو نھیں چھوڑیں گے اور جب تک ھمارے بدنوں میں خون کی آخری رمق باقی ھے اور ھمارے ھاتھوں میں تلوار موجود ھے، ھم آپ کی حفاظت کریں گے۔“( مناقب ابن شھر آشوب)
دشمن کی طرف سے نویں محرم کو امام حسین علیہ السلام کو ”بیعت یا جنگ“ کا آخری انتباہ دیا گیا۔ امام حسین علیہ السلام نے عبادت کے لئے ایک رات کی مھلت مانگی اور آنے والے کل کی جنگ کے لئے تیار ھو گئے۔
دس محرم الحرام ۶۱ھ کو امام حسین علیہ السلام اپنے نھایت قلیل اصحاب کے ساتھ دشمن کے بے انتھا لشکر کے سامنے صف آرا ھوگئے اور اس طرح جنگ شروع ھو گئی۔
اس دن صبح سے لے کر شام تک جنگ جاری رھی۔ امام، تمام ھاشمی جوان اور ان کے باوفا اور جاں نثار اصحاب یکے بعد دیگرے شھید ھوگئے (شھید ھونے والوں میں امام حسن(ع) کے دو چھوٹے کمسن بچے، امام حسین(ع) کا ایک چھوٹا اور ایک شیر خوار بچہ بھی شامل تھا)۔
دشمن کی فوج نے جنگ کے بعد امام حسین علیہ السلام کے حرم کو لوٹ لیا اور خیموں کو آگ لگا دی۔ اس کے بعد شھیدوں کے سروں کو ان کے جسموں سے الگ کرکے لاشوں کوبے گور و کفن اِدھر اُدھر پھینک دیا۔ پھر اھل حرم نے جو کہ سبھی بے آسرا و بے وارث مستورات اور بچیاں تھیں، شھیدوں کے ساتھ کوفہ کی طرف کوچ کیا۔ (قیدیوں میں مرد بھت کم تھے۔ ان میں امام حسین علیہ السلام کے فرزند امام زین العابدین جو سخت بیمار تھے یعنی شیعوں کے چوتھے امام اور ان کے چار سالہ فرزند محمد بن علی (امام باقرعلیہ السلام) جو بعد میں پانچویں امام ھوئے۔ قیدیوں کے ساتھ کوفہ کی طرف لے جائے گئے۔ پھر کوفہ سے دمشق لے جا کر یزید کے دربار میں ان کو حاضر کیا گیا۔
واقعہ کربلا، حرم اھلبیت علیھم السلام کو شھر بشھر پھرانے اور امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام کی بیٹی حضرت زینب سلام اللہ علیھا اور امام زین العابدین علیہ السلام کی تقاریر نے (جو انھوں نے کوفہ اور شام میں کی تھیں، بنو امیہ کی حکومت کو ھلا کر رکہ دیا اور ذلیل و خوار کر دیا اور معاویہ کے پروپیگنڈوں کا اثر زائل کر دیا بلکہ نوبت یھاں تک پھنچی کہ یزید نے سب کے سامنے اپنے جرنیلوں اور ماموروں کے عمل سے بیزاری اور نفرت کا اظھار شروع کردیا۔ کربلا کا واقعہ ایک اھم عنصر تھا جس کے فوری اثر نے بنی امیہ کی حکومت کا خاتمہ کردیا تھا اور مذھب شیعہ کی بنیاد بھت مضبوط کر دی تھی۔ اس واقعہ کا فوری اثر یہ ھوا کہ انقلاب اورشورشیں شروع ھو گئیں اور ساتھ ھی خونریز جنگوں کا ایک طویل سلسلہ بھی شروع ھوگیا جو بارہ سال تک جاری رھا۔ جن لوگوں نے امام حسین علیہ السلام کے قتل میں شرکت کی تھی ان میں سے ایک شخص بھی انتقام سے نھیں بچ سکا۔
جو شخص امام حسین علیہ السلام کی زندگی، یزید کی حکومت کی تاریخ اور اس زمانے کے حالات و واقعات پر غور کرے اور تاریخ کے اس حصے میں تحقیق کرے اس کے لئے کوئی شک و شبہ باقی نھیں رھے گا کہ اس وقت امام حسین علیہ السلام کے سامنے صرف ایک یھی راستہ تھا اور وہ تھا شھادت کا راستھ۔ یزید کی بیعت کرنے کا مطلب یہ تھا کہ اعلانیہ طور پر اسلام کے اصولوں کو پامال اور قربان کردیا جائے اور یہ چیز امام حسین علیہ السلام کے لئے ھرگز قابل قبول نہ تھی کیونکہ یزید نہ صرف دینِ مقدس اسلام کے قوانین اور اصولوں کا کوئی احترام نہ کرتا تھا بلکہ اسلام کے قوانین اور اصولوں کو پامال کرنے میں بھی بے باکانہ اور بڑھ چڑھ کر حصہ لیتا تھا۔
اس کے بر خلاف اس سے پھلے حکمراں اگر چہ اصولوں کی مخالفت کیا کرتے تھے مگر جو کچھ بھی کرتے دین کے پردے میں انجام دیتے تھے۔ دینی امور کو ظاھری طور پر محترم شمار کیا کرتے تھے۔
جیسا کہ بعض مفسرین نے کھا ھے کہ یہ دونوں امام (امام حسن(ع) اور امام حسین(ع)) مختلف نظریات رکھتے تھے یعنی امام حسن علیہ السلام صلح پسند تھے اور امام حسین(ع) علیہ السلام جنگ اور جھاد کو ترجیح دیتے تھے، کیونکہ ایک بھائی چالیس ھزار جنگی سپاھی رکھتے ھوئے بھی معاویہ کے ساتھ صلح کرلیتا ھے اور دوسرا بھائی صرف چالیس افراد کے ساتھ یزید کے خلاف جنگ کا اعلان کردیتا ھے، یہ بات بالکل بے جا ھے۔
ھم دیکھتے ھیں کہ یھی امام حسین علیہ السلام جو اک دن یزید کی بیعت پر آمادہ نھیں ھوئے تھے، اپنے بھائی امام حسن(ع) کی طرح دس سال تک معاویہ کی حکومت میں زندگی گزارتے رھے (کہ وہ بھی دس سال تک معاویہ کی حکومت میں زندگی گزارتے رھے تھے) اور انھوں نے ھرگز مخالفت نہ کی تھی کیونکہ اگر اس وقت امام حسن علیہ السلام اور امام حسین علیہ السلام معاویہ کے خلاف جنگ کرتے تو اس میں کوئی شک نھیں کہ شھید ھوجاتے مگر اسلام کو کوئی فائدہ نہ پھنچتا۔ اس لئے کہ معاویہ کی بظاھر حق بجانب سیاست کے مقابلے میں جو اپنے آپ کو پیغمبر اکرم کا صحابی، کاتب وحی اور خال المومنین کے طورپر تعارف کراتا تھا لیکن دوسری طرف کسی قسم کے فریب سے بھی نھیں چوکتا تھا، بالکل کوئی اثر نہ ھوتا۔
اس کے علاوہ معاویہ اپنے کارندوں کے ذریعے ان دونوں اماموں کو قتل کرواسکتا تھا اور پھر ان کی سوگواری اور تعزیت کرتے ھوئے ان کا ظاھری انتقام لینے پر بھی آمادہ ھوجاتا جیساکہ اس نے خلیفہ سوم کے ساتھ بھی یھی سلوک کیا تھا۔