سیاسی حالت
عھد جاھلیت میں سیاسی اعتبار سے کسی خاص طاقت کے مطیع اور فرمانبردار نہ تھے وہ صرف اپنے ھی قبیلے کی طاقت کے بارے میں سوچتے تھے
دوسروں کے ساتھ ان کا وھی سلوک تھا جو شدت پسند وطن دوست اور نسل پرست روا رکھتے ھیں۔
جغرافیائی اور سیاسی اعتبار سے جزیرہ نما عرب ایسی جگہ واقع ھے کہ جنوبی منطقہ کے علاوہ اس کا باقی حصہ اس قابل نہ تھاکہ ایرانی یا رومی جیسے فاتحین اس کی جانب رخ کرتے چنانچہ اس زمانے میں ان فاتحین نے اس کی طرف کم ھی توجہ دی کیونکہ اس کے خشک و بے آب اور تپتے ریگستان ان کے لئے قطعی بے مصرف تھے اس کے علاوہ عھد جاھلیت کے عربوں کو قابو میں لانا اور ان کی زندگی کو کسی نظام کے تحت منظم کرنا انتھائی سخت اور دشوار کام تھا۔
قبیلہ
عرب انفرادی اور طبیعی طور پر استبداد پسند اور خود خواہ تھے چنانچہ انھوں نے جب بیابانوں میں زندگی کی مشکلات کا مقابلہ کیا تو ان کی سمجہ میں یہ بات آئی کہ وہ تنھا رہ کر زندگی بسر نھیں کرسکتے اس بنا پر انھوں نے فیصلہ کیا کہ جن افراد کے ساتھ ان کا خونی رشتہ ھے یا حسب و نسب میں ان کے شریک ھیں ان سے اپنے گروہ کی تشکیل کریں جس کا نام انھوں نے ”قبیلہ“ رکھا قبیلہ ایسا مستقل و متحد دستہ تھا جس کے ذریعے عھد جاھلیت میں عرب قومیت کی اساس و بنیاد شکل پذیر ھوتی تھی چنانچہ ھر اعتبار سے وہ خود کفیل تھے۔
دور جاھلیت میں عربوں کے اقدار کا معیار قبائلی اقدار پر منحصر تھا ھر فرد کی قدر و منزلت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاتا تھا کہ قبیلے میں اس کی کیا حیثیت ھے اور اھل قبیلہ میں اس کا کس حد تک اثر و رسوخ ھے یھی وجہ تھی کہ قدر ومنزلت کے اعتبار سے قبائل کو بالاترین مقام و مرتبہ حاصل تھا اس کے مقابل کنیزوں اور غلاموں کو قبائل کے ادنیٰ ترین و انتھائی پست ترین افراد میں شمار کیا جاتا تھا۔
دیگر قبائل کے مقابل جس قبیلے کے افراد کی تعداد جتنی زیادہ ھوتی وہ قبیلہ اتنا ھی زیادہ فخر محسوس کرتا اور خود کو قابل قدر و منزلت سمجھتا اپنے قبیلے کی قدر و منزلت کو بلند کرنے اور قبائل کے افراد کی تعداد کو زیادہ دکھانے کی غرض سے وہ اپنے قبیلے کے مردوں کی قبروں کو شامل کرنے سے دریغ نہ کرتے چنانچہ قرآن نے اس امر کی جانب اشارہ کرتے ھوئے بیان کیا ھے۔
اجتماعی حالات
جزیرہ نما عرب کے اکثر لوگ اپنے مشاغل اور اقتصادی تقاضوں کے باعث صحرا نشینی کی زندگی اختیار کئے ھوئے تھے کل آبادی کا چھٹا حصہ ایسا تھا جو شھروں میں آباد تھا شھروں میں جمع ھونے کی وجہ یا تو ان کا تقدس تھا یا ان میں تجارت ھوتی تھی چنانچہ مکہ کو دونوں ھی اعتبار سے اھمیت حاصل تھی اس کے علاوہ شھروں میں آباد ھونے کی وجہ یہ بھی تھی کہ وھاں کی زمینیں سرسبز و شاداب تھیں اور ضرورت پوری کرنے کے لئے پانی نیز عمدہ چراگاھیں بھی موجود تھیں یثرب، طائف، یمن، حیرۂ حضرموت اور عسان کا شمار ایسے ھی شھروں میں ھوتا تھا۔
عرب اپنے لب و لھجہ اور قومی عادت و خصلت کے اعتبار سے شھر نشین عربوں کی بہ نسبت اچھے سمجھے جاتے تھے اسی لئے عرب کے اھل شھر اپنے بچوں کو صحراوٴں میں بھیجتے جھاں وہ کئی سال تک رھتے تاکہ ان کی پرورش اسی ماحول اور اسی تھذیب و تمدن کے گھوارے میں ھوسکے۔
جو لوگ شھروں میں آباد تھے ان کی سطح فکر زیادہ وسیع و بلند تھی اور ایسے مسائل کے بارے میں ان کی واقفیت بھی زیادہ تھی جن کا قبیلے کے مسائل سے کوئی تعلق نہ تھا۔
صحرا نشین لوگوں کو شھری لوگوں کی بہ نسبت زیادہ آزادی حاصل تھی اپنے قبیلے کے مفادات کی حدود میں رہ کر ھر شخص کو یہ حق حاصل تھا کہ عملی طور پر وہ جو چاھے کرے اس معاملے میں اھل قبیلہ بھی اس کی مدد کرتے تھے اسی لئے ان کے درمیان باھمی جنگ و جدال اور مال و دولت کی غارتگری ایک معمولی چیز بن گئی تھی چنانچہ عربوں میں جنھوں نے شجاعت و بھادری کے کارنامے انجام دیئے ھیں ان میں اکثر صحرا نشین تھے۔