دورِ جاھلیت کے عرب عورتوں کی قدر و منزلت کے ذرہ برابر بھی قائل نہ تھے، وہ ھر قسم کے انفرادی و اجتماعی حقوق سے محروم تھیں۔
اس عھدِ جاھلیت کے نظام میں عورت صرف ورثے ھی سے محروم نھیں رکھی جاتی تھی، بلکہ اس کا شمار اپنے باپ، شوھر یا بیٹے کی جائیداد میں ھوتا تھا۔ چنانچہ مال و جائیداد کی طرح اسے بھی ورثے اور ترکے میں تقسیم کر دیا جاتا تھا۔
عرب قحط سالی کے خوف یا اس خیال سے کہ لڑکیوں کا وجود ان کی ذات کے لیے باعث ننگ و عار تھا انھیں پیدا ھوتے ھی زمین میں گاڑ دیتے تھے۔
اپنی معصوم لڑکیوں سے انھوں نےجو ناشائستہ و ناروا سلوک اختیار کر رکھا تھا اس کی مذمت کرتے ھوئے قرآن مجید فرماتا ھے:
"واذا بشر احدھم بالانثنی ظل وجھہ مسودا وھو کظیم یتواری من القوم من سوء مابشر بہ ایمسکہ علی ھون ام یدسہ فی التراب"
(جب ان میں سے کسی کو بیٹی کے پیدا ھونے کی خوشخبری دی جاتی ہے تو اس کا چھرہ سیاہ پڑ جاتا ہے اور وہ بس خون کا سا گھونٹ پی کر رہ جاتا ہے۔ لوگوں سے منہ چھپاتا پھرتا ہے کہ بری خبر کے بعد کیا کسی کو منہ دکھائے۔ سوچتا ہے کہ ذلت کے ساتھ بیٹی کو لیے رھے یا مٹی میں دبا دے۔)
دوسری آیت میں بھی کلام اللہ انھیں اس ناشائستہ فعل اور انسانیت سوز حرکت کے بدلے خداوند تعالیٰ کی بارگاہ میں جواب دہ قرار دیتا، چنانچہ ارشاد ہے:
"واذا الموٴدة سئلت بای ذنب قتلت"
(اور جب زندہ گاڑی ھوئی لڑکی سے پوچھا جائے گا کہ وہ کس قصور میں ماری گئی۔)
سب سے زیادہ افسوسناک بات یہ تھی کہ ان کے درمیان شادی بیاہ کی ایسی رسومات رائج تھیں کہ جن کی کوئی محکم اصل و بنیاد نہ تھی۔ وہ اپنی زوجہ کے لیے کسی معین حد کے قائل نہ تھے۔ مھر کی رقم ادا کرنے کی ذمہ داری سے سبکدوش ھونے کے لیے وہ انھیں آزاد کر دیتے۔ کبھی وہ اپنی زوجہ پر بے عصمت ھونے کا الزام لگاتے تاکہ یہ بھانہ بنا کر مھر کی رقم ادا کرنے سے بچ جائیں۔ ان کا باپ اگر کسی بیوی کو طلاق دے دیتا، یا خود مر جاتا تو اس کی بیویوں سے شادی کرلینا ان کے لیے عار نہ تھا۔