حضرت ابوطالب علیہ السلام کو چونکہ اپنے بھتیجے کے اوصاف حمیدہ کا علم تھا اور اس امر سے بھی واقف تھے کہ آپ کو رسالت تفویض کی گئی ہے اس لئے وہ نہایت خاموشی سے آپ پر ایمان لے آئے تھے، وہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیالیس سال سے زیادہ عرصہ تک حفاظت و نگرانی کرتے رہے یعنی اس وقت سے جبکہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سن مبارک آٹہ سال تھا، اور اس وقت تک جب آپ پچاس سال کے ہوگئے تھے، اور چونکہ حفاظت و حمایت کو اپنی ذمہ داری سمجھتے تھے لھٰذا آپ کے پروانہ وار والہ و شیفتہ تھے، اور یھی وجہ تھی کہ انھوں نے رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آسمانی آئین کی ترویج کی خاطر کبھی جان و مال سے دریغ نہیں کیا یہاں تک کہ اسی سال کی عمر میں اس وقت انتقال کیا جبکہ آپ کا قلب خدا اور رسول پر ایمان سے منور تھا۔
جیسے ہی حضرت ابوطالب علیہ السلام نے رحلت فرمائی دشمنوں کے آستینوں کے پوشیدہ ہاتھ بھی باہر نکل آئے اور وہ اس بات کو ثابت کرنے کی کوشش کرنے لگے کہ صدر اسلام کے اس مرد مجاہد و سخت کوش انسان کی موت بحالت کفر واقع ہوئی ہے تاکہ لوگوں کو یہ باور کرائیں کہ رسول کی حفاظت و حمایت ان کا قومی جذبہ تھا، جس نے انھیں اس ایثار و قربانی پر مجبور کیا تھا۔
حضرت ابوطالب علیہ السلام کے ایمان لانے پر شک وشبہ پیدا کرنے میں جو محرک کار فرما تھا اس کی مذہبی عقیدے سے زیادہ سیاسی اہمیت تھی بنی امیہ کی سیاسی حکمت عملی کی اساس چونکہ خاندان رسالت کے ساتھ دشمنی و کینہ توزی پر قائم تھی اس لئے انھوں نے بعض جعلی روایات پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے منسوب کرکے حضرت ابوطالب علیہ السلام کو کافر مشہور کرنے میں کوئی دقیقہ فرو گذاشت نہ کیا ابو طالب کو کافر ثابت کرنے کا مقصد یہ تھا کہ ان کے فرزند عزیز حضرت علی علیہ السلام کو عظمت و فضیلت کے اعتبار سے دوسروں پر فوقیت و برتری حاصل نہیں ہے اگر حضرت ابو طالب حضرت علی علیہ السلام کے والد بزرگوار نہ ہوتے تو وہ ہرگز اس بات کا اتنا زیادہ چرچا نہ کرتے اور نہ ہی اس قدر نمایاں طور پر جوش و خروش دکھاتے۔
کوئی بھی ایسا انصاف پسند شخص جسے تاریخ اسلام کے بارے میں معمولی سی بھی واقفیت ہوگی اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس عظیم حامی اور مددگار کی جد و جہد سے لبریز زندگی کے بارے میں علم رکھتا ہوگا وہ اپنے دل میں حضرت ابو طالب کے بارے میں ذرا بھی شک و شبہ گوارا نہ کرے گا، اس کی دو وجہ ہیں:
اول: اگر کوئی شخص قومی تعصب کی بناپر کسی دوسرے شخص یا قبیلہ کی حمایت و پشتیبانی کرے تو یہ ممکن ہے کہ اسے ذراسی دیر میں موت کے گھاٹ اتار دیا جائے لیکن یہ اس امر کا باعث نہیں ہوسکتا کہ وہ شخص چالیس سال تک نہ صرف حمایت و پشت پناہی کرے بلکہ اس شخص کا پروانہ وار شیفتہ بھی ہو۔
دوسرے: یہ کہ حضرت ابو طالب علیہ السلام کے اقوال و اشعار، اخبار پیغمبر اور امامت ائمہ معصومین علیہم السلام اس وہم و گمان کی تردید کرتے ہیں اور اس بات پر متفق ہیں کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حمایت کا اصل محرک ان کا وہ راسخ عقیدہ اور محکم ایمان تھا جو انھیں رسول کی ذات بابرکت پر تھا۔
چنانچہ امام زین العابدین علیہ السلام کی مجلس میں حضرت ابوطالب کا ذکر آیا تو آپ (ع) نے فرمایا کہ۔۔ ۔ ۔
مجھے حیرت ہے کہ لوگوں کو حضرت ابوطالب علیہ السلام کے ایمان میں شک و تردد ہے، کیونکہ کوئی ایسی عورت جس نے دین اسلام قبول کرنے کا شرف حاصل کرلیا وہ اپنے شوہر کے عقد میں نہیں رہ سکتی ہے جبکہ حضرت فاطمہ بنت اسد ان اولین خواتین میں سے تہیں جو دین اسلام کی سعادت سے مشرف ہوئی چنانچہ جب تک حضرت ابوطالب زندہ رہے وہ ان سے جدا نہ ہوئیں۔
حضرت امام باقر علیہ السلام سے حضرت ابو طالب کے ایمان کے متعلق سوال کیا گیا تو آپ (ع) نے فرمایا ۔ ۔ ۔ ۔
اگر حضرت ابو طالب علیہ السلام کے ایمان کو ترازو کے ایک پلے میں رکھا جائے اور دوسرے پلے میں دیگر لوگوں کے ایمان کو رکھ کر تولا جائے تو یقیناً حضرت ابوطالب علیہ السلام کے ایمان کا پلہ بھاری رہے گا کیا آپ کو اس بات کا علم نہیں کہ امیر المومنین حضرت علی (ع) نے بعض لوگوں کو یہ حکم دیا تھا کہ وہ حضرت ابوطالب کی جانب سے فریضہ حج ادا کریں۔ (شرح نھج البلاغہ ابن ابی الحدید، ج۱۴، ص۶۸﴾
حضرت امام صادق (ع) نے رسول خدا کی حدیث بیان کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ حضرت ابوطالب کا ایمان اصحاب کہف کے ایمان کی طرح تھا اگرچہ وہ لوگ دل سے ایمان لائے تھے مگر زبان سے اس کا اظھار کرتے تھے ان کے اس عمل کا خداوند تعالیٰ انھیں دوگنا اجر دے گا۔
حضرت ابوطالب نے دین اسلام کی ترویج و تبلیغ کے لئے جو خدمات انجام دیں ان کے بارے میں ابن ابی الحدید لکھتا ہے کہ۔ ۔ ۔
کسی شخص نے حضرت ابوطالب کے ایمان سے متعلق کتاب لکھی اور مجھ سے کہا کہ اس کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کروں اور اس پر اپنے ہاتھ سے کچھ لکھوں۔
میں نے کچھ اشعار اس کتاب کی پشت پر لکھ دیئے جن کا مضمون یہ تھا:
لو لا ابوطالب و ابنہ مثل الذین شخصاً فقاما فذاک بمکة آوی و حامی و ھذا بیثرب جس الحماما۔ (ابن ابی الحدید ص۸۳ و ۸۴ ﴾
اگر ابوطالب اور ان کے فرزند علی (ع) نہ ہوتے تو دین اسلام ہرگز قائم نہیں ہوسکتا تھا باپ نے مکہ میں پیغمبر کی حمایت کی اور بیٹا یثرب میں موت کی حد تک آگے بڑھ گیا۔
حضرت ابوطالب علیہ السلام کی مظلومیت
- Details
- Written by admin
- Category: شخصیتیں
- Hits: 378