قوم ثمود اور اس كے پيغمبر جناب صالح علیہ السلام كى جو''وادى القرى '' ميں رہتے تھے جو''مدينہ '' اور'' شام'' كے درميان واقع ہے يہ قوم اس سرزمين ميں خوشحال زندگى بسر كررہى تھى ليكن اپنى سركشى كى بناء پرصفحہ ہستى سے يوں مٹ گئي كہ آج اس كا نام ونشان تك باقى نہيں رہا۔
قرآن اس سلسلے ميں فرماتا ہے : ''قوم ثمودنے (خدا كے )رسولوں كو جھٹلايا ''۔( سورہ شعراء، آيت 141
كيونكہ تمام انبياء كى دعوت حق ايك جيسى تھى اور اس قوم كا اپنے پيغمبر جناب صالح علیہ السلام كى تكذيب كرنا در حقيقت تمام رسولوں كى تكذيب كے مترادف تھا۔
''جبكہ ان كے ہمدرد پيغمبر صالح علیہ السلام نے ان لوگوں سے كہاآيا تقوى اختيار نہيں كرتے ہو ؟''(سورہ شعراء، آيت 142﴾
وہ جو كہ تمہارے بھائي كى طرح تمہارا ہادى اورراہبر تھا اس كى نظر ميں نہ برترى جتانا تھا اور نہ ہى مادى مفادات ، اسى لئے قرآن نے جناب صالحعليہ السلام كو '' اخوہم '' سے تعبير كيا ہے جناب صالح نے بھى دوسرے انبياء كى مانند اپنى دعوت كا آغاز تقوى اور فرض كے احساس سے كيا ۔
پھر اپنا تعارف كرواتے ہوئے فرماتے ہيں :''ميں تمہارے لئے آمين پيغمبر ہوں ''(سورہ شعراء ،آيت143﴾
ميرا ماضى ميرے اس دعوى كى بين دليل ہے ۔
'' اسى لئے تم تقوى اختيار كرو ،خداسے ڈرو اور ميرى اطاعت كرو ''(سورہ شعراء ،آيت145﴾
كيونكہ ميرے مد نظر رضائے الہي، تمہارى خيرو خوبى اور سعادت كے سوا اور كچھ نہيں ۔
بنابريں '' اس دعوت كے بدلے ميں تم سے كوئي اجرت نہيں مانگتا۔''(سورہ شعراء ،آيت145﴾
ميں تو كسى اور كے لئے كام كرتاہوں اور ميرا اجر بھى اسى كے پاس ہے '' ہاںتو ميرا اجر صرف عالمين كے پروردگار كے پاس ہے '' (سورہ شعراء ،آيت145﴾
يہ جناب صالح عليہ السلام كى داستان كا ابتدائي حصہ تھا جو دو جملوں ميں بيان كيا گيا ہے ايك دعوت كا پيش كرنا اوردوسرے رسالت كو بيان كرنا ۔
پھر دوسرے حصے ميں افراد قوم كى زندگى كے قابل تنقيد اور حساس پہلوئوں كى نشاندہى كرتے ہوئے انھيں ضمير كى عدالت كے كٹہرے ميں لاكھڑاكيا جاتا ہے ارشاد ہوتا ہے: ''آيا تم يہ سمجھتے ہو كہ ہميشہ امن وسكون اور نازونعمت كى زندگى بسركرتے رہوگے ''۔( سورہ شعراء ،آيت 145﴾
كيا تم يہ سمجھتے ہو كہ تمہارى يہ مادى اور غفلت كى زندگى ہميشہ كے لئے ہے اور موت ، انتقام اور سزا كا ہاتھ تمہارے گريبانوں تك نہيں پہنچے گا ؟
''كياتم گمان كرتے ہو كہ يہ باغات اور چشمے ميں اور يہ كھيت اور كھجور كے درخت جن كے پھل شيريں وشاداب اور پكے ہوئے ہيں ، ہميشہ ہميشہ كے لئے باقى ر ہيں گے ۔''(سورہ شعراء ،آيت471تا 148﴾
پھر ان پختہ اور خوشحال گھروں كو پيش نظر ركھتے ہوئے كہتے ہيں: ''تم پہاڑوں كو تراش كر گھر بناتے ہو اور اس ميں عياشى كرتے ہو ۔''(سورہ شعراء ،آيت471تا 148﴾
جبكہ قوم ثمودشكم كى اسيراور نازو نعمت بھرى خوشحال زندگى سے بہرہ مند تھى ۔
ماخوذ از کتاب "قصص قرآن " آیت اللہ مکارم شیرازی،