www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

2020
آدم ، جنہيںزندگى كا ابھى كافى تجربہ نہ تھا ، نہ ہى وہ ابھى تك شيطان كے دھوكے، جھوٹ اور نيرنگ ميں گرفتار ہوئے تھے ،انہيں يہ يقين نہيںہوسكتا تھا كہ كوئي اتنى بڑى جھوٹى قسم بھى كھا سكتا ہے اور اس طرح كے جال، دوسرے كو گرفتار كرنے كےلئے پھيلا سكتا ہے، آخركار وہ شيطان كے فريب ميں آگئے اور آب حيات وسلطنت جاودانى حاصل كرنے كے شوق ميں مكر

ابليسى كى بوسيدہ رسى كو پكڑكے اس كے وسوسہ كے كنويں ميں اتر گئے رسى ٹوٹ گئي اور انہيں نہ صرف آب حيات ہاتھ نہ آيا بلكہ خدا كى نافرمانى كے گرداب ميں گرفتار ہوگئے ان تمام مطالب كو قرآن كريم نے اپنے ايك جملے ميں خلاصہ كرديا ہے ارشاد ہوتا ہے:''اس طرح سے شيطان نے انہيں دھوكا ديا اور اس نے اپنى رسى سے انہيں كنويں ميں اتار ديا '' ( سورہ اعراف آيت 22﴾
ادم كو چاہئے تھا كہ شيطان كے سابقہ دشمنى اور خدا كى وسيع حكمت ورحمت كے علم كى بناپر اس كے جال كو پارہ پارہ كرديتے اور اس كے كہنے ميں نہ آتے ليكن جو كچھ نہ ہونا چاہئے تھا وہ ہوگيا۔
''بس جيسے ہى آدم وحوانے اس ممنوعہ درخت سے چكھا، فوراً ہى ان كے كپڑے ان كے بدن سے نيچے گرگئے اور ان كے اندام ظاہرہوگئے''۔( سورہ اعراف آيت 22﴾
مذكورہ بالا جملے سے يہ بخوبى ظاہر ہوتا ہے كہ درخت ممنوع سے چكھنے كے ساتھ ہى فوراً اس كابرا اثر ظاہر ہوگيا اور وہ اپنے بہشتى لباس سے جوفى الحقيقت خدا كى كرامت واحترام كا لباس تھا، محروم ہو كر برہنہ ہوگئے۔
اس جملہ سے اچھى طرح ظاہر ہوتا ہے كہ آدم وحوايہ مخالفت كرنے سے پہلے برہنہ نہ تھے بلكہ كپڑے پہنے ہوئے تھے ، اگر چہ قرآن ميں ان كپڑوں كى كوئي تفصيل بيان نہيں كى گئي ليكن جو كچھ بھى تھا وہ آدم وحوا كے وقار كے مطابق اور ان كے احترام كے لئے تھا ،جو ان كى نافرانى كے باعث ان سے واپس لے ليا گيا ۔
ليكن خود ساختہ توريت ميں اس طرح سے ہے :
آدم وحوا اس موقع پربالكل برہنہ تھے ليكن اس برھنگى كى زشتى كو نہيں سمجھتے تھے، ليكن جس وقت انہوں نے اس درخت سے كھايا جو درحقيقت '' علم ودانش'' كا درخت تھا تو ان كى عقل كى آنكھيں كھل گئيں اور اب وہ اپنے كو برہنہ محسوس كرنے لگے اور اس حالت كى زشتى سے آگاہ ہوگئے۔
جس '' آدم '' كا حال اس خود ساختہ توريت ميں بيان كيا گيا ہے، وہ فى الحقيقت آدم واقعى نہ تھا بلكہ وہ تو كوئي ايسا نادان شخص تھا جو علم ودانش سے اس قدر دور تھا كہ اسے اپنے ننگا ہونے كا بھى احساس نہ تھا ليكن جس '' آدم ''كا تعارف قرآن كراتا ہے وہ نہ صرف يہ كہ اپنى حالت سے باخبر تا بلكہ اسرار آفرينش (علم اسما) سے بھى آگاہ تھا اور اس كا شمار معلم ملكوت ميں ہوتا تھا، اگر شيطان اس پر اثرانداز بھى ہوا تويہ اس كى نادانى كى وجہ سے نہ تھا، بلكہ اس نے ان كى پاكى اور صفائے نيت سے سوئے استفادہ كيا ۔
اس بات كى تائيد كلام الہى كے اس قول سے بھى ہوتى ہے:
''اے اولاد آدم : كہيں شيطان تمہيں اس طرح فريب نہ دے جس طرح تمہارے والدين (آدم وحوا) كو دھوكا دے كر بہشت سے باہر نكال ديا اور ان كا لباس ان سے جدا كرديا '' ( سورہ اعراف آيت 27﴾
اگرچہ بعض مفسرين اسلام نے يہ لكھا ہے كہ آغاز ميں حضرت آدم برہنہ تھے تو واقعاً يہ ايك واضح اشتباہ ہے جو توريت كى تحريركى وجہ سے پيدا ہوا ہے۔
بہرحال اس كے بعد قرآن كہتا ہے : '' جس وقت آدم وحوا نے يہ ديكھاتو فوراًبہشت كے درختوں كے پتوں سے اپنى شرم گاہ چھپانے لگے۔
اس موقع پر خدا كى طرف سے يہ ندا آئي:'' كيا ميں نے تم دونوں كو اس درخت سے منع نہيں كيا تھا كيا ميں نے تم سے يہ نہيں كہا تھا كہ شيطان تمہارا كھلا دشمن ہے، تم نے كس لئے ميرے حكم كو بھلاديا اور اس پست گرداب ميں گھر گئے ؟( سورہ اعراف آيت 22﴾

Add comment


Security code
Refresh