قرآن مجيد ميں حضرت آدم عليہ السلام كے بيٹوں كا نام نھيں ليا گيا ہے ،نہ اس جگہ اور نہ كسى اور مقام پر ،ليكن اسلامى روايات كے مطابق ايك كا نام ھابيل ہے اور دوسرے كا قابيل تھا،
موجودہ توريت كے سفر تكوين كے چوتھے باب ميں ايك كانام ''قائن'' اور دوسرے كا نام '' ھابيل''تھا جيسا كہ مفسر معروف ''ابولفتوح رازي'' كہتے ہيں كہ ان دونوں ناموں كى مختلف لغت ہيں پہلے كا نام ''ھابيل ''يا''ھابن''تھا۔ دوسرے كا نام ''قابيل ''يا ''قابين'' يا ''قابل'' يا''قابن''يا ''قبن'' تھا۔
بھرحال اسلامى روايات كے متن اور توريت ميں قابيل كے نام كے بارے ميں اختلاف لغت كى طرف بازگشت ہے اور يہ كوئي اھم بات نھيں ہے ۔(۱)
يھاں پرحضرت آدم عليہ السلام كے بيٹوں كا ذكر ہے ان ميں سے ايك كے ھاتھوں دوسرے كے قتل كے بارے ميں داستان بيان كى گئي ہے پھلے فرمايا: ''اے پيغمبر :انھيں آدم كے دوبيٹوں كا حقيقى قصہ سنا ديجئے''۔(۲)
اس كے بعد واقعہ بيان كرتے ھوئے فرمايا گيا ہے :''جب ھر ايك نے تقرب پروردگار كے لئے ايك كام انجام ديا تو ايك كا عمل توقبول كرليا ليكن دوسرے كا قبول نہ ھوا ''۔(۳)
مگرجو كام ان دونوںبھائيوں نے انجام ديا اس تذكرہ كا قرآن ميں وجود نھيں ہے بعض اسلامى روايات اور توريت كے سفر تكوين باب چھارم ميں جو كچھ مذكورہے اس سے ظاھر ھوتا ہے كہ ھابيل كے پاس چونكہ پالتو جانور تھے اس نے ان ميں سے ايك بھترين پلاھوا مينڈھامنتخب كيا، قابيل كسان تھا اس نے گندم كا گھٹيا حصہ ياگھٹياآٹا اس كے لئے منتخب كيا۔
سوال يہ پيدا ھ كا عمل ردّكرديا گيا ہے قرآن ميں اسكى بھى وضاحت نھيں ہے البتہ بعض اسلامى روايات سے پتہ چلتاہے كہ وہ دونوں اپنى مھيا شدہ چيزيں پھاڑ كى چوٹى پر لے گئے قبوليت كے اظھار كے طور پر بجلى نے ھابيل كى قربانى كھاليا اور اسے جلا ديا ليكن دوسرى اپنى جگہ پر باقى رھى اور يہ نشانى پہلے سے رائج تھى۔
بعض مفسرين كا خيال ہے كہ ايك عمل كى قبوليت اوردوسرے كى ردّ حضرت آدم عليہ السلام كو وحى كے ذريعے بتايا گيا اور اس كى وجہ سوائے اس كے كچھ نہ تھى كہ ھابيل ايك باصفا ،باكرداراور راہ خدا ميں سب كچھ كرگذرنے والاشخص تھا جبكہ قابيل تا ريك دل ،حاسد اور ھٹ دھرم تھا، قرآن نے دونوںبھائيوں كى جوگفتگو بيان كى ہے اس سے ان كى روحانى كيفت اچھى طرح سے واضح ھوجاتى ہے اسى وجہ سے جس كا عمل قبول نہ ھوا تھا ''اس نے دوسرے بھائي كو قتل كى دھمكى دى اور قسم كھا كر كہا كہ ميں تجھے قتل كردوں گا ۔(۴)
ليكن دوسرے بھائي نے اسے نصيحت كى اور كہا كہ اگر يہ واقعہ پيش آيا ہے تو اس ميں ميراكوئي گناہ نہيں ہے، بلكہ اعتراض توتجھ پرھونا چاھئيے كيونكہ تيرے عمل ميں تقوىٰ شامل نھيں تھا اور خدا تو صرف پرھيزگاروں كا عمل قبول كرتا ہے''۔(۵)
مزيد كھا كہ'' حتى اگر تم اپنى دھمكى كو عملى جامہ پھناؤاور ميرے قتل كے لئے ھاتھ بڑھا ؤ تو ميں ھرگز ايسا نھيں كروں گا اور تمھارے قتل كے لئے ھاتھ نھيں بڑھاؤں گا،كيونكہ ميں توخدا سے ڈرتا ھوں اور ايسے گناہ سے ھرگزاپنے ھاتھ آلودہ نھيںكروں گا۔''
قر ان ميں حضرت آدم كے بٹيوں كا واقعہ ،ايك بھائي كا دوسرے كے ہاتھوں قتل اور قتل كے بعد كے حالات بيان كيے گئے ہيں ،پہلے فرمايا : ''سركش نفس نے بھائي كے قتل كے لئے اسے پختہ كرديا اور اس نے اسے قتل كرديا''۔
اس جملے سے معلومھ ہے كہ ھابيل كا عمل قبول ھوجانے كے بعد قابيل كے دل ميں ايك طوفان پيدا ھوگيا ايك طرف دل ميں ھر وقت حسد كى آگ بھڑكتى رھتى اوراسے انتقام پر ابھارتى اور دوسرى طرف بھائي كا رشتہ، انسانى جذبہ گناہ ،ظلم ،بے انصافى اور قتل نفس سے ذاتى تنفراسے اس جرم سے بازركھنے كى كوشش كرتا ،ليكن آخركار سركش نفس آھستہ آھستہ روكنے والے عوامل پر غالب آگيا اور اس نے اس كے بيداروجدان كو مطمئن كرديا اور اسے جكڑديا اور بھائي كو قتل كرنے پر آمادہ كرديا ''۔
حوالہ:
۱۔ تعجب كى بات ہے كہ ايك عيسائي عالم نے اس لفظ كو قرآن پراعترض كى بنيادبناليا ہے كہ قرآن نے''قائن ''كو ''قابيل ''كيوں كھا ہے حا لانكہ اول تويہ اختلاف لغت ہے اور لغت ميں ناموں كے بارے ميں بھت زيادہ اختلاف ہے مثلا توريت ''ابراھيم ''كو ''ابراھام ''لكھتى ہے قرآن اسے ''ابراھيم ''لكھا ہے ثانياً بنيادى طور پر ''ھابيل ''كے نام قرآن ميں مذكور ھى نھيں يہ اسماء تو اسلامى روايات ميں آئے ہيں۔
۲۔ سورہ مائدہ ايت ۲۷۔
۳۔ سورہ مائدہ ايت ۲۷۔
۴۔ سورہ مائدہ ايت۲۷۔
۵۔ سورہ مائدہ ايت ۲۷۔