امریکہ کے شھر بوسٹن میں ھونے والے دھماکے کو ایک ھفتہ ھونے کو ہے اور اس میں مبینہ طور پر ملوث شخص کو گرفتار ھوئے چند دن ھی گزرے ہیں
امریکی حکام نے اعلان کیا ہے کہ دھماکہ کے مجرم جوھر سارنایف نے مذھبی جذبات کے تحت یہ دھماکہ کیا ہے امریکی حکام کا کھنا ہے کہ جوھر نے اپنے بھائی تیمور لنگ جو مارا گیا ہے کے ذریعے یہ کاروائی انجام دی ہے اور ان کا کسی اسلامی دھشت گرد گروپ سے کوئی تعلق نھیں ہے ۔
اس طرح کے اعلانات کے بعد امریکہ اور یورپ میں اسلام و فوبیا اور اسلام دشمنی میں مزید اضافہ ھونے کا امکان ہے ۔ گزشتہ چند سالوں میں یورپی اور امریکی میڈیا نے ایسا ماحول بنایا ہےکہ کھیں بھی کوئی دھشت گردانہ کاروائی انجام پائی تو اس میں مسلمانوں کا نام لیا جاتا ہے حالانکہ دنیا کے مختلف حصّوں میں مختلف مذاھب اور اقوام کے لوگ بستے ہیں اور وہ اس طرح کی کاروائیوں میں ملوث ھوتے ہیں لیکن کوئی ان کو دھشت گرد نھیں کھتا مثال کے طور پر انڈریاس بریک برویک کو کسی نے نہ تو دھشت گرد کھا اور نہ اسکے مذھب عیسائیت کے بارے میں کسی نے اشارہ کیا حالانکہ اس نے بوسٹن سے زیادہ افراد کو موت کے گھاٹ اتارا تھا وھاں پر کسی نے یہ بات نھیں کھی تھی کہ اس نے مذھبی جذبات سے متاثر ھوکر یہ کاروائی انجام دی ۔ اس طرح کے فرد کو زيادہ زيادہ فاشسٹ ، قوم پرست یا غیرملکی باشندوں سے نفرت کرنے والا کھا گیا۔
یورپ میں اسلام دشمنی کی تحریک ایک باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت کی جارھی ہے اوراس طرح کے واقعات کو اسلام اور اسلامی تعلیمات کو بدنام کرنے کے لئے استعمال کیا جارھا ہے اسلام کی بنیادی تعلیمات جھاد یا ظالم کے خلاف قیام کو غلط تشریحات کے ساتھ عوام کے سامنے پیش کیا جاتا ہے اور ان احکامات کو باقاعدہ دھشت گردی کے زمرے میں شمار کیاجاتا ہے ۔ حالانکہ دنیا کے کسی بھی کونے میں ھونے والے دھشت گردی کے واقعے کے کسی مسلمان عالم دین نے کبھی حمایت نھیں کی ہے ۔اس میں شک نھیں کہ خدا کے راستے میں جھاد وہ بھی خاص اصول و ضوابط کے تحت واجب ہے لیکن وہ میدان جنگ میں ہے نہ کہ گلیوں اور شھری آبادیوں میں عام شھریوں کے خلاف ہے ۔البتہ اسلام کے نام پر بعض جاھل لوگ اگر اس طرح کی کارروائیاں انجام دیں تو اسے اسلام سے ھرگز منسوب نھیں کیا جا سکتا۔
دوسری طرف اگر ایک شخص جو مسلمان گھرانے میں پیدا ھوتا ہے لیکن اردگرد کے معاشرے اور سیاست سے متاثر ھوکر کسی عام شھری کو نشانہ بناتا ہے تو اسے حقیقی مسلمان نھیں کھا جا سکتا ۔ اسکی مثال ایسی ہے کہ جیسے بوسٹن کے دھماکوں میں ملوث افراد چونکہ امریکی ہیں لھذا یہ کھہ دیا جائے کہ چونکہ یہ امریکی قوم سے تعلق رکھتا ہے لھذا اس نے اپنی قوم سے متاثر ھوکر یہ کاروائی انجام دی ہے ۔
بھرحال جو بات اھمیت کی حامل ہے وہ یہ ہے کہ اس طرح کے دھماکہ اسلام مخالف عناصر کے ھاتھوں میں ایک بھانہ بن جاتے ہیں جس سے وہ اسلام کے خلاف اپنی دلی نفرت کا اظھار کرتے ہیں اور اس طرح دنیا بھر میں موجود ڈیڑھ ارب مسلمانوں کی دل آزاری کا باعث بنتے ہیں ۔ اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ گزشتہ عرصے میں مسلمانوں کو سب سے زیادہ بلاواسطہ یا بالواسطہ دھشت گردی کا نشانہ بنایا گيا اگر گیارہ ستمبر کے واقعہ میں دوھزار عیسائی اور چند یھودی ھلاک ھوئے ہیں تو گیارہ ستمبر کے بھانے جن دو مسلمان ملکوں عراق اور افغانستان کو جارحیت کا نشانہ بنایا گیا وھاں دس لاکھ سے زيادہ مسلمان جاں بحق ھوئے ہیں افغانستان اور پاکستان کے عوام تو ابھی تک امریکی حملوں اور ڈرون طیاروں کا شکار ھورھے ہیں ۔ لیکن مسلمانوں نے کبھی عیسائیت کو اس ظلم کا ذمہ دار نھیں ٹھہرایا مسلمان تو حتی اسرائیلیوں کے مظالم کو بھی یھودیت کے کھاتے میں نھیں ڈالتے یھی وجہ ہے کہ کسی بھی مسلمان ملک میں یھودیت کے خلاف باقاعدہ دشمنی کی صورتحال نھیں ہے ۔