ایک امریکی ذریعے کا کھنا ہے کہ قطر اور سعودی عرب کے بادشاھوں کے پیسے سے بھترین صیھونی کالونیاں تعمیر کی جا رھی ہیں۔
امریکی ٹی وی چینل سی این این کی رپورٹ کے مطابق ایک ایسے وقت میں کہ جب فلسطینی انتھائی برے اقتصادی حالات میں کسمپرسی کی زندگي گزار رھے ہیں اور ایک چھوٹا سا گھر ان کے لیے ایک بھت بڑا خواب ہے، امیر قطر شیخ حمد بن آل ثانی اور سعودی فرمانروا شاہ عبداللہ بن عبدالعزیز سمیت بعض عرب ممالک کے شیوخ کے پیسوں سے بھترین اور خوبصورت صیھونی کالونیاں تعمیر کی جا رھی ہیں۔ سی این این نے ایسی تصاویر نشر کی ہیں کہ جن میں امیر قطر حمد بن آل ثانی اسرائیل میں خوبصورت اور جدید ترین سھولیات سے آراستہ صیھونی کالونیوں کا افتتاح کر رھے ہیں۔ کھا جاتا ہے کہ امیر قطر نے اب تک اسرائیل کے بھت زیادہ خفیہ دورے کیے ہیں اور انھوں نے صیھونی حکام کی حمایت حاصل کرنے کے لیے بھت سے صیھونی منصوبوں کے لیے بھت زیادہ پیسہ دیا ہے۔ سعودی عرب اور قطر کے اسرائیل سے تعلقات کوئي پوشیدہ بات نھیں اس سے پھلے بھی مختلف مغربی اور علاقائي ذرائع نے ایسی رپورٹیں شائع کی ہیں جن سے بخوبی اندازہ ھوتا ہے کہ عرب ممالک میں امریکہ کے خصوصی ایجنٹ قطر اور سعودی عرب امریکہ کو خوش کرنے کےلئے اسرائيل کو زيادہ سے زيادہ مراعات دیتے رھے ہیں ۔حال ھی میں عرب میڈیا نے انکشاف کیا ہے کہ قطر کی حکومت نے قطر میں منعقد ھونے والے سنہ 2022 کے عالمی کپ کے تمام سیکوریٹی انتظامات اسرائيل کے حوالے کرنے کا اعلان کیا ہے ۔
سنہ 2022 تو ابھی دور کی بات ہے اگر خطے میں جاری موجودہ سیاسی صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو اسرائيل کی چابلوسی اور اسکے ایجنڈے کو خطے میں نافذ کرنے کے ئے سعودی عرب اور قطر میں باقاعدہ مقابلہ جاری ہے۔دونوں ملکوں کے سربراھان مملکت کے علاوہ خود ان بادشاھوں کی بیگمات بھی اسرائیل سے تعلقات استوار کرنے میں مصروف ہیں قطر کے امیر کے اھلیہ شیخہ موزہ نہ صرف دنیا میں اپنے خوبصورت اور جدید ترین لباسوں کی وجہ سے شھرت رکھتی ہیں بلکہ وہ اسرائيل کے اعلی حکام حتی خفیہ ایجنسی موساد کے ساتھ براہ راست رابطے میں رھتی ہیں۔
شیخہ موزہ نے اسرائيلی طلباء کے لئے ایک فاؤندیشن بھی قائم کی ھوئی ہے جسکی سربراھی ایک اسرائيلی ڈاکٹر حنان فلاح کے پاس ہے جسکے موساد کا ایجنٹ ھونے میں کسی کو شک و شبہ نھیں۔
امیر قطر کی اھلیہ اس فاؤنڈيشن کے ذریعے ایک مسلمان عرب ملک کے تیل کے پیسے سے ھزاروں اسرائيلی اسٹودینس کو اسکالر شپ دے رھی ہیں البتہ رائے عامہ کو دھوکہ دینے کے لئے اس فاؤنڈیشن میں ایک اسرائيلی سرمایہ دار " تدآریسون " کو بھی شامل کررکھا ہے تا کہ دنیا کو یہ دھوکہ دیا جا سکے کہ اس فاؤنڈیشن کو امداد دینے میں اسرائیلی سرمایہ دار بھی شامل ہیں ۔قطر کی شاید انھی خدمات کی وجہ سے موساد کے ایک سابق سربراہ نے واشگاف الفاظ میں کھا تھا ک قطر نے اسرائيل کی جتنی خدمت کی ہے کسی اور سے اس کا موازنہ بھی نھیں کیا جا سکتا بھرحال شام اور علاقے کے حالیہ حالات پر اگر سرسری نظر بھی دوڑائی جائے تو یہ حقیقت کھل کر سامنے آجاتی ہے کہ قطر اور اسرائیل علاقے میں اسرائيل کی جنگ لڑرھے ہیں ۔ آج شام میں دھشت گردوں کو مالی امداد اور اسلحہ کی سپلائي کے حوالے سے سعودی عرب اور قطر کا نام زبان زد خاص و عام ہے ۔ امریکہ نے سعودی عرب اور قطر کو ذمہ داری دی ہے کہ وہ اسرائيل کے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ شام کو ختم کرنے کے لئے کسی بھی اقدام سے دریغ نہ کریں ۔ آج سعودی اور قطری سرمائے کے بل بوتے پر دنیا بھر سے سلفی اور القاعدہ کے جنگجوؤں کو شام میں اکھٹا کیا گيا ہے اور اس حوالے سے نہ صرف سعودی اور قطری پیسہ پانی کی طرح بھایا جارھا ہے بلکہ سعودی عرب کے نام نھاد علماء نے بھی اپنے فتووں کی کتابیں کھول دی ہیں ۔ سعودی علماء جو بحرین اور مصر میں حکومت مخالف مظاھروں کو خلاف اسلام اور حرام سمجھتے تھے آج نہ صرف شام میں مسلمانوں کے قتل عام اور حکومت کو نیست و نابود کرنے کو جائز اور ثواب قرار دے رھے بلکہ شام میں سرگرم نام نھاد جھادیوں کی جنسی خواھشات کی تکمیل کے لئے مسلمان لڑکیوں کو شام میں بھیجنے کو بھی کارثواب قرار دے رھے ہیں کاش عرب ممالک کے سربراہ اور انکے علماء اس بات کا اندازہ کرلیں کہ اس وقت مسلمانوں کاسب سے بڑا دشمن اسرائيل ہے اور اسکی حمایت کرنے والے امریکی اور یورپی ممالک ہیں آج یہ بات روز روشن کی طرح واضخ ھوگئی ہے کہ اسرائيل نہ صرف عرب ممالک بلکہ دنیا کے دوسرے مسلمان ممالک میں بھی تفرقے اور اختلاف کی پالیسیوں پر عمل پیرا ہے ، مسلمان ممالک میں ھونے والے فرقہ وارانہ جرائم اور عالمی میڈیا پر مسلمانوں کے درمیان اختلافات پھیلانے والے مختلف چینلوں کے پیچھے صیھونی لابی ہے یہ چینل سنی کے نام پر شیعہ مسلمانوں کے خلاف زھر اگلتے ہیں اوربعض موقعوں پر شیعہ کا روپ دھار کر سنی مسلمانوں کے خلاف طعن و تشنع کرتے ہیں یھی وجہ ہے کہ امام خمینی (رح) نے بھت پھلے کھہ کھہ چکے تھے کہ جو سنی اور شیعہ کے درمیان اختلاف ڈالتا ہے وہ نہ سنی ہے نہ شیعہ آج عرب ممالک بالخصوص شام میں سنی اور شیعہ کے نام پر جو جنگ شروع کرنے کی کوشش کی جارھی ہے اس کو امام خمینی کے ارشاد کی روشنی میں دیکھنے اور پرکھنے کی ضرورت ہے۔ مسلمانوں میں بھی کچھ ایسے عناصر پاۓ جاتے ہیں جو ضعیف النفس اور مریض القلب ہیں۔ ان کی عقل کمزور ہے۔ یہ لوگ مسلمانوں کی توھین کرنے والوں کا ھاتھ تھام لیتے ہیں اور سوچتے ہیں کہ غاصب اور ظالم طاقتیں انھیں نجات اور کامیابی سے ھمکنار کر دیں گی۔
ایسے عناصر سے دوستی اور ان کی حمایت کرنا ان دشمنوں سے دوستی کرنے کے برابر ہے جنھوں نے حالیہ صدیوں میں مسلمانوں کے ساتھ دشمنی کی انتھا کردی ہے اور کسی طرح کے ظلم و ستم سے گریز نھیں کیا ہے۔
ایسے عناصر کے علاوہ کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جو سامراج کے سامنے تسلیم ھونے کی توجیھ کرتے ہیں۔ ان کا دعوی ہے کہ اب اپنوں اور غیروں کا ظلم سھا نھیں جاتا اور اگر ھم مسلمان اپنے معاشروں میں عدل و انصاف قائم نھیں کرسکتے تو ھمارے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نھیں ہے کہ ھم بیرونی طاقتوں کا قبضہ قبول کرلیں۔ ایسی طاقتیں جن کے بارے میں ھم تحفظات ضرور رکھتے ہیں تاھم یہ طاقتیں انسان دوست اور لبرل ہیں اور اس طرح سے ھم پر حکومت کرینگی کہ یہ ھمارے فائدہ میں ھی ھو گا۔
یہ نھایت سادہ لوحی ہے کیونکہ ان افراد نے سامراجی اور تسلط پسند طاقتوں کے اقدامات کو سرے سے نظر انداز کردیا ہے۔ اگر یہ لوگ دنیا کے مختلف علاقوں پر سرسری نظر دوڑائيں تو ان پر واضح ھو جاۓ گا کہ امریکہ نے جس خطہ پر بھی قدم رکھا ہے وھاں فساد پھیلایا ہے اور وھاں کے باشندوں کو ذلیل و خوار کیا ہے۔ اور یہ تاریخ میں ھر ظالم و جابر طاقت کی روش رھی ہے۔ اس روش کے تحت تسلط پسند طاقتیں قوموں کی سرزمینوں پر قبضہ جمانے کے بعد انھیں غلام بنا لیتی ہیں اور "تفرقہ ڈالو حکومت کرو "کے اصول پر پورے شدومد سے عمل پیرا ھوجاتی ہیں۔
بھر حال تاریخ اور قرآن سے ھمیں پتہ چلتا ہے کہ جن قوموں نے کفر و طاغوت کا سھارا لیا وہ ذلیل و خوار ھوئيں اور جنھوں نے خدا کی رسی کو تھاما وہ باعزت و سربلند رھیں۔