www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

اسلامی تعاون تنظیم نے میانمار کی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ روھنگیائی مسلمانوں کی صورتحال کا جائزہ لینے کےلئے اسلامی ممالک کے وفد کو دورے کی اجازت دی جائے۔

 

اسلامی تعاون تنظیم نے کل اتوار کو میانمار کے مسلمانوں کے موضوع پر منعقد ھونیوالے خصوصی اجلاس کے اختتام پر میانمار کے حکام سے مطالبہ کیا کہ اسلامی ممالک کے وزارتی وفد کو میانمار کے دورے کی اجازت دی جائے ۔ اس اجلاس میں اسلامی تعاون تنظیم کے سیکریٹری جنرل اکمل الدین احسان اوغلو نے میانمار کے مسلمانوں پر جاری تشدد کو ناقابل برداشت قرار دیتے ھوئے اسے، بحران کے خاتمے کےلئے میانمار کی حکومت کی منفی کارکردگی کا نتیجہ قرار دیا۔
اس سے قبل مارچ میں بھی اکمل الدین احسان اوغلو نے میانمار کے حکام سے مطالبہ کیا تھا کہ مسلمانوں پر شدت پسند بڈھسٹوں کے حملوں کی روک تھام کرے ۔ اسلامی تعاون تنظیم گذشتہ ایک سال سے میانمار میں وفد بھیجنے کی کوشش کررھی ہے لیکن ابھی تک دورے کی اجازت نھیں دی گئی ہے۔مسلمان جھاں بھی رھتے ہیں اپنے مذھب اور کلچر کو عزیز رکھتے ہیں، جب کہ دیگر قومیں دوسری قوموں میں ضم ھوجاتی ہیں، اس لیے مسلم قوم کو حریف کی نظر سے دیکھا جاتا ہے، جب کہ مسلمانوں کا معاملہ یہ ھوتا ہے کہ وہ کسی کے مذھب سے تعارض نھیں کرتے اور نہ ھی کسی کے مذھب کو برا بھلا کھتے ہیں، کیوں کہ اسلام میں یہ بتایا گیا ہے کہ کسی کے مذھب کو برا مت کھو۔ جب کہ مسلمانوں کو آئے دن خلفشار میں مبتلا رکھنے کے لیے ان کے مذھب، ان کے پیغمبر کی شان میں گستاخی، ان کی مذھبی کتاب کی بے حرمتی، ان کے مذھبی مقامات منھدم یا نذرِ آتش کیے جاتے ہیں۔ مغرب جسے انسانی حقوق، معاشرتی رواداری اور اظھارِ رائے کی آزادی پر بھت ناز ہے، وھاں اکثرو بیشتر مسلمانوں کے ساتھ دل آزار رویہ، پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی اور نازیبا کلمات کھنے کے واقعات پیش آتے ہیں اور ان مجرموں کے خلاف کوئی کارروائی نھیں کی جاتی، اور اظھارِ رائے کی آزادی کے حق کا حوالہ دے کر لیپاپوتی کی جاتی ہے۔ جبکہ اگر کوئی مسلمان ھولوکاسٹ کے خلاف کچھ بولتا ہے تو فوراً کارروائی شروع کردی جاتی ہے اور پھر آزادی اظھار کا حق کھیں کھو جاتا ہے۔ مشرقی تیمور یا جنوبی سوڈان میں سرکشی کے خلاف کارروائی کی جاتی ہے تو مظالم اور قتل عام کھہ کر فوراً ملکوں کے دو ٹکڑے کردیئے جاتے ہیں، لیکن جب معاملہ مسلمان کا ھو، یا فلسطین یا برما میں مسلمانوں کے قتل عام کا تو تمام عالمی برادری کو سانپ سونگھ جاتا ہے اور اقوام متحدہ کا کردار صرف بیان جاری کرنے تک محدود رہ جاتا ہے۔ برما یا میانمارمیں ایک بار پھر مسلمانوں کا قتل عام کیا جارھا ہے، اور نہ صرف عالم اسلام بلکہ پورا عالم خواب خرگوش میں مبتلا ہے۔حیرانی کی بات ہے کہ پوری دنیا میں جمھوریت کی علَم بردار ھونے کا ڈھول پیٹنے والی نوبل امن انعام یافتہ رھنما آنگ سان سوچی نے اس قتل عام کی کبھی بھی مذمت نھیں کی اور نہ ھی بدھسٹوں سے اسے روکنے کی اپیل کی۔ کسی دوسری قوم کے ساتھ اس طرح کی درندگی کا مظاھرہ کیا گیا ھوتا تو حمایت کے جرم میں نوبل انعام چھین لیا جاتا۔ برمی مسلمانوں کو صرف قتلِ عام ھی کا سامنا نھیں ہے بلکہ انھیں سماجی مقاطعہ کا بھی سامنا کرنا پڑرھا ہے جس کی وجہ سے ان کے لیے بازاروں سے اشیاء خریدنا ناممکن ھوگیا ہے۔ ایک لاکھ دس ھزار کے قریب افراد ان فسادات کی وجہ سے بے گھر ھوکر امدادی کیمپوں میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں جن میں بنیادی سھولیات کا فقدان ہے۔
بدھ مت کے دھشت گرد برمی فوج کے ساتھ مل کر مسلمانوں کا قتل عام جاری رکھے ھوئے ہیں۔ ھزاروں مسلمانوں کو بڈھسٹ اور بودھ بھکشوئوں نے مل کر قتل کیا اور لاکھوں کو ملک بدر ھونے پر مجبور کردیاجو لوگ گھربار نھیں چھوڑتے انھیں قتل اور عورتوں کی آبروریزی جیسی وحشت ناپاک وارداتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بچوں اور ضعیفوں کو بھی نھیں بخشا جاتا۔ برما میں گزشتہ سال جون کے مھینے میں بیس ھزار سے زائد مسلمانوں کو قتل کیا گیا۔ دس ھزار افراد لاپتا تھے۔ پانچ ھزار مسلم خواتین کے ساتھ جنسی تشدد کیا گیا تھا۔ مسلمانوں کے سیکڑوں دیھات تاخت و تاراج کردیئے گئے، درجنوں مساجد شھید کی جاچکی ہیں میانمار میں گزشتہ کئی برسوں سے مسلمانوں کے ساتھ نہ صرف امتیازی سلوک روا رکھا جارھا ہے بلکہ وھاں بے دریغ مسلمانوں کا قتل عام کیا جارھا ہے۔ ابھی حالیہ دنوں میں مسلمانوں کے کئی علاقوں میں مساجد اور مکانات کو بدھسٹ راھبوں نے پولیس اور فوج کی سرپرستی میں جلایا ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ پوری دنیا اس واقعہ پر خاموش تماشائی بنی ھوئی ہے۔ میانمار میں بدھسٹوں نے مسلمانوں کے ساتھ جو وحشیانہ سلوک کیا ہے اس کی انسان تو کیا کسی جانور سے بھی توقع نھیں کی جاسکتی۔مسلمانوں کی امداد کے لیے او آئی سی کا ایک دفتر کھولنے کا ارادہ ظاھر کیا جس کی اجازت برمی حکومت نے نھیں دی۔ برما کے صدر تھین سین نے اسلامی ممالک کی تنظیم او آئی سی کو روھنگیا مسلمانوں کی مدد کے لیے اپنے ملک میں دفتر کھولنے کی اجازت دینے سے انکار کردیا۔ برمی حکومت نہ صرف عالم اسلام کی اپیل کو ردی کی ٹوکری میں پھینک رھی ہے بلکہ عالمی برادری کی کسی بھی درخواست کو خاطر میں نھیں لا رھی۔ایسی صورت حال میں اسلامی ممالک کے وزارتی وفد کو میانمار کے دورے کی اجازت ملنا ایک ناممکن امر نظر آرھا ہے البتہ یھاں پر یہ بات بھی خصوصی طورپر قابل ذکر ہے کہ وہ طاقتیں جو بشار اسد کی حکومت کو گرانے اور بذعم خویش شامی عوام کی نجات کے لئے شام میں سرگرم عمل ہیں کیا انھیں میانمار کے مسلمانوں کی حالت زار نظر نھیں آتی؟!
 

Add comment


Security code
Refresh