یمن کی تحریک انصار اللہ کے سربراہ اور انقلاب یمن کے رہنما سید عبدالملک بدرالدین الحوثی نے اپنے ملک کے خلاف امریکی سعودی جارحیت کو چھے برس مکمل ہونے پر قوم سے خطاب کیا۔
سید عبدالملک بدرالدین الحوثی نے اپنے خطاب کے آغاز میں، عوام کا شکریہ ادا کیا اور دشمن کے جارحیت کے مقابلے میں ان کی استقامت کی قدر دانی کی۔
انصاراللہ کے سربراہ نے کہا کہ، چھے سال قبل آدھی رات کو آغاز ہونے والی جارحیت ایک جرم اور غداری تھی۔ ماضی کے سمجھوتوں کے تحت یمن اور اس کے برے ہمسائے کے درمیان حالات پرامن تھے اور یمن کی جانب سے کوئي ایسا قدم نہیں اٹھایا گیا کہ اس ملک کے خلاف جارحیت میں متحدہ عرب امارات کی مشارکت کا جواز بن سکے۔
سید عبدالملک بدرالدین الحوثی کی تقریر کے اہم نکات مندرجہ ذیل ہیں۔
اگر اعلان جنگ نہ کیا گيا ہوتا تو یہ معلوم نہیں ہوپاتا کہ ، یہ جارحیت کون انجام دے رہا ہے؟
سعودی عرب نے واشنگٹن کے حکم سے جارحیت کا ٹھیکہ لیا اور ایک اتحاد کی قیادت کا اعلان کیا لیکن بعد میں واضح ہوگيا کہ سعودی عرب محض امریکہ کا اجیر ہے۔
یمن کے خلاف جنگ میں اسرائيل اور برطانیہ بھی اپنے بڑے یعنی امریکہ کے ساتھ ہیں۔
جنگ کے آغاز سے پہلے بھی اسرائیل یمن پر حملے کے لیے اکساتا رہا ہے اور نیتن یاھو انقلاب یمن کے خلاف اکسانے والوں میں سرفہرست ہے۔
اسرائیل ، امریکہ اور برطانیہ نے جنگ کے اخراجات اور اس کے منفی اثرات سے خود کو بچانے کے لیے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کو اس جنگ کے لیے چنا ہے۔
یمن پر جارحیت کا اصل ٹھیکہ سعودی عرب کے پاس ہے اور متحدہ عرب امارات کاذیلی ٹھیکیدار ہے، باقی ممالک ان دونوں کے ٹکڑے کھانے والے ہیں۔
سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے، دشمن اور خطرات کے بارے میں امریکی اور اسرائیلی انٹیلی جینس ایجنسیوں کی رپورٹوں اور تجزیوں پر اندھا اعتماد کیا اور غلط فیصلے کر بیٹھے۔
خطے میں امریکہ کے سول ایجنٹ کا کردار نبھانے کی بچکانہ سوچ اور اونچی اڑان نے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کو اس وہم میں مبتلا کردیا کہ یمن تر نوالہ ہے اور اسے جلدی نگلا جاسکتا ہے۔
سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی سوچ یکسر غلط تھی اور آج جب حقائق سامنے آگئے ہیں، تب بھی عبرت حاصل نہیں کر رہے۔
یمن کے خلاف جارحیت کا صحیح پتہ یہ ہے، امریکہ، اسرائیل اور برطانیہ جارحیت کی نگرانی کر رہے ہیں، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات ٹھیکیدار ہیں، کچھ حکومتوں، فوجوں اور گروہوں کو اس کام کے لیے اجیر کیا گيا ہے۔
جب بھی یمن پر جارحیت کرنے والا اتحاد، اخلاقی، میدانی اور سیاسی تنگی کا شکار ہونے لگتا ہے اقوام متحدہ سامنے آجاتا ہے اور یمنیوں سے کہتا ہے کہ ایک دوسرے کو قتل نہ کرو۔
اس ملک کے غدار(یمن کی مستعفی حکومت ) بھی سعودی عرب کی تابع ہیں، ان کے پاس کوئی اختیار نہیں اور وہ خود بھی اس کا اعتراف کرتے ہیں۔
یمن کے مقبوضہ صوبوں کے ہوائي اڈے، بندرگاہیں اور اہم تنصیبات براہ راست سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی نگرانی میں ہیں۔
جارحین نے مختلف علاقوں میں چودہ سو مساجد کو وہاں موجود قرآنی نسخوں کے ساتھ تباہ کرکے، اسلامی مقدسات کو پامال کیا ہے۔
کیا اسکولوں اور طالبعلموں اور تعلیم و تربیت سے مربوط ہر چیز پر حملہ کرنا، کوئی جائز ہدف ہے یا اس کا مقصد یمن میں تعلیمی عمل کو نابود کرنا ہے؟
سیکڑوں اسپتالوں اور طبی مراکز کو جان بوجھ کر اور براہ راست نشانہ بنانے کا کوئی جواز پیش نہیں کیا جاسکتا۔
کسی قوم کے خدماتی اداروں پر حملہ کرنے والا، کیا اس ملک اور اس کے عوام کا خیرخواہ ہوسکتا ہے؟
اس جنگ اور تباہی سے، صرف ایک پارٹی یا خاص طبقے کو نہیں بلکہ پوری ایک قوم کو نقصان پہنچایا گيا ہے۔
کسی قوم پر جارحیت اور اس کی مصیبتوں پر لطف اٹھانے کا مقصد قوموں کے عزم کو کمزور کرنے کی کوشش کرنا ہے۔
بازاروں پر دشمن کے حملوں کا مقصد زیادہ سے زیادہ لوگوں کے قتل اور ان کی زندگی تباہ کرنے کے سوا اور کچھ نہیں۔
جارح ملکوں نے سمنٹ بنانے کی فیکٹریوں سے لیکر غذائی اشیا تیار کرنے والے کارخانوں اور پیٹرول اسٹیشنوں تک کو نشانہ بنایا ہے تاکہ یمن کی قومی معیشت کو نابود کیا جاسکے۔
تعجب کی بات تو یہ ہے کہ یمن پر جارحیت کرنے والوں نے زلزلہ پیما مراکز کو بھی نہیں چھوڑا حتی جانوروں کے اسطبل بھی ان کے حملوں سے محفوظ نہیں رہے۔
اتنے بڑے پیمانے پر انجام پانے والے جرائم کو محض ایک شخص کی خودسری کا نام نہیں دیا جاسکتا۔ جارح قوتوں کے پاس تو ہر طرح کی ٹیکنالوجی موجود ہے، جو ان کے لیے اہداف کی نشاندھی کرتی ہے۔
دشمن کے خطرناک ترین حملوں میں سے ایک، ہماری قوم کا شیرازہ بکھیرنا اور اسے نسل پرستانہ اور فرقہ وارانہ بنیادوں پر تقسیم کرنا ہے۔
یمنی عوام مسجد الحرام کے فدائی ہیں اور مسجد الاقصی کے بھی وفادار ہیں۔ وہ مسجد الاقصی جسے عربوں نے بیچ ڈالا ہے اور سیاسی سودے بازی کی نذر کردیا ہے۔
جارح سعودی اتحاد اور اسکے نمک خوار ایک ایک علاقے میں مذہبی اور نسلی اختلافات پھیلانے میں مصروف ہیں تاکہ قوموں کے درمیان پھوٹ ڈالی جاسکے۔
یمن کا مکمل محاصرہ ، جارح اتحاد کا بدترین اقدام شمار ہوتا ہے۔
جارحیت کے مقابلے کے لیے ہم نہ تو سلامتی کونسل اور اقوام متحدہ کے محتاج ہیں اور نہ ہی ہمیں عبری لیگ( عرب لیگ پر طنز) کی موافقت کی ضرورت ہے اور نہ ہی یورپی ملکوں یا کسی بھی دوسرے ملک کی اجازت درکار ہے۔ انہوں نے( سعودی اتحاد) ہم پر حملہ کیا ہے اور ہمارے ہزاروں لوگوں کو قتل کرڈالا ہے، لہذا ہم اپنے مقدس فریضہ کی ادائیگی کے لیے کسی کی اجازت کے منتظر نہیں رہیں گے۔
شدید ترین محاصرے کے باوجود، اس قوم کے حریت پسندوں نے دفاعی سازوسامان کی تیاری کا راستہ کھولا، کلاشنکوف سے لے لیکر، بیلسٹک میزائیلوں اور کروز سے لیکر ڈرون طیاروں تک سب بنالیا جو اس قوم کی اسٹریٹیجک کامیابی ہے۔
ہماری قوم نے جارح اتحاد پر ایسی کاری ضربیں لگائیں ہیں کہ انہیں بڑی اذیت محسوس ہورہی ہے۔
ہماری قوم نے استقامت کے راستے کو چنا ہے اور ہم اس پر قائم رہیں گے۔
جب تک جارحیت اور محاصرہ جاری ہے، ہماری قوم سینہ تان کر جارحین کے مقابلے میں کھڑی رہے گی۔
میں جارح اتحاد کو نصیحت کرتاہوں کہ جارحیت اور محاصرہ فوری طور پر ختم کردو، شکست اور ناکامی ثابت ہوجانے کے لیے چھے سال بہت ہوتے ہیں۔
ہم باعزت صلح کے لیے، جس میں ہماری قوم کی آزادی، خودمختاری اور جائز حقوق ضایع نہ ہوں، پوری طرح آمادہ ہیں۔
امریکیوں، سعودیوں اور بعض دوسرے ملکوں نے ہمیں انسانی معاملات کے ذریعے بلیک میل کرکے، سیاسی اور عسکری سمجھوتوں پر مجبور کرنے کی کوشش کی ہے، حالانکہ غذائی اشیا، دواؤں اور ایندھن تک رسائی عوام کا قانونی اور انسانی حق ہے، اس پر کوئی سودے بازی نہیں ہونی چاہیے۔ کیونکہ یہ قوم کے ساتھ خیانت ہوگی۔
امن کا راستہ واضح ہے، جارحیت بند کردو، محاصرہ ختم کردو، یمن کے صوبوں کا قبضہ چھوڑ دو۔
ہم امن کے لیے تیار ہیں لیکن قوم کی آزادی، خودمختاری، عزت اور حقوق کی قیمت پر ہرگز نہیں۔
تعلقات کی بحالی کے نام پر صیہونی دشمن کی ساتھ مل جانے کی ہر کوشش قابل مذمت ہے۔
جارحیت کے ساتویں سال میں بھی ہم عسکری، دفاعی، اقتصادی اور سیاسی میدانوں میں ترقی کے اپنے عہد پر قائم رہیں گے اور جذبہ ایمانی کے ساتھ آگے بڑھیں گے۔
جارحیت بند اور محاصرہ ختم کردو ، یمن کے رہنما نے سعودی عرب کو دکھائی امن کی راہ
- Details
- Written by admin
- Category: اھم خبریں
- Hits: 290