www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

اقوام متحدہ کے ادارے ہیومن رائٹس واچ نے کل بدھ کے دن ایک رپورٹ جاری کی ۔ اس رپورٹ میں ھیومن رائٹس واچ نے سعودی عرب میں 

وسیع پیمانے پر ھونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو اپنی تنقید کا نشانہ بناتے ھوئے اس ملک کی شاھی حکومت کےتسلسل کو سعودی عرب میں انسان حقوق کی خلاف ورزیوں کا اصل سبب قرار دیا ہے۔
سی این این ٹی وی چینل نے ھیومن رائٹس واچ کی تازہ ترین رپورٹ کے حوالے سے کھا ہے کہ سیاست میں عوام کی شرکت ، عدالتی اصلاحات اور امتیازی سلوک کا خاتمہ آل سعود کے خلاف جدوجھد کرنے والے سعودی عرب کے شھریوں کے مطالبات کا صرف ایک حصہ ہے۔
اس رپورٹ میں سعودی عرب کی سیکورٹی فورسز کے عوام اور سیاسی شخصیات خصوصا روزنامہ نگاروں، علماء ، اسٹوڈنٹس اور یونیورسٹی پروفیسروں پر کۓ جانے والے تشدد کی شدید الفاظ میں مذمت کی گئی ہے۔
رپورٹ میں کھا گيا ہے کہ چونکہ سعودی عرب میں ایک ڈکٹیٹر شاھی خاندان کی حکومت ہے اس لۓ اس ملک کے عوام کو انتخابات میں شرکت ، اظھار رائے کی آزادی اور حکومت پر تنقید کرنے جیسے حقوق حاصل نھیں ہیں۔ اور نہ ھی اس ملک کی خواتین کو ان کے حقوق حاصل ہیں مثلا اس ملک میں خواتین ڈرائیونگ کے حق سے بھی محروم ہیں۔
سعودی عرب میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے متعلق ھیومن رائٹس واچ کی رپورٹ ایسی حالت میں سامنے آئي ہے کہ جب چند دن قبل " دھشتگردانہ جرائم اور ان کی مالی حمایت " کے نام سے ایک نیا قانون بنایا تھا جس کی رو سے بالواسطہ یا بلاواسطہ طور پر امن عامہ میں خلل ڈالنے والے ھر انفرادی اور گروھی عمل کو دھشتگردانہ جرم سمجھا جائے گا۔
حقیقت یہ ہے کہ آل سعود کی شاھی حکومت اس قانون کے بھانے ملک میں اپنے خلاف جاری عوامی احتجاج کو دبانا چاھتی ہے۔ جب سے خطے میں اسلامی بیداری کی تحریک کا آغاز ھوا ہے تب سے آل سعود کی حکومت کو جان کے لالے پڑگۓ ہیں۔ کیونکہ اسے خطرہ ہے کہ سعودی عرب کے عوام بھی اپنے جائز حقوق کے حصول کے لۓ ملک کے تمام علاقوں سے آواز اٹھا دیں گے۔ اس لۓ یہ حکومت مختلف طرح کے قانون منظور کر کے اس طرح کی ھر ممکنہ آواز کو دبانے کے درپےہے۔
سعودی عرب کے مختلف علاقوں خصوصا مشرقی علاقوں میں آل سعود کی شاھی حکومت کے خلاف اور اپنے جائز حقوق کے حصول کی آواز اٹھ رھی ہے۔ یہ لوگ ملک میں سیاسی اصلاحات اور شاھی خاندان کی بدعنوانی کے خاتمے کا مطالبہ کررھے ہیں لیکن آل سعود عوام کو اقتدار میں شامل کرنے کے بجائے اس پر اجارہ داری قائم کۓ ھوئےہیں۔ اور اپنے جائز حقوق کی آواز بلند کرنے والے عوام پر تشدد کرتےہیں۔ ایسا نظر آتا ہے کہ تیونس ، مصر اور لیبیا کے عوام کے قیام اور انقلابی تحریک کو دیکھتے ھوئے سعودی عرب کے عوام کو حوصلہ ملا ہے اور انھوں نے اس شاھی حکومت کے خلاف آواز اٹھائي ہے لیکن اس بات کو بھی نظر انداز نھیں کیا جاسکتا ہے کہ سعودی عرب میں آل سعود کی شاھی حکومت کے خلاف چلنے والی عوامی تحریک میں اس خاندان کے درمیان جاری اقتدار کی رسہ کشی بھی موثر رھی ہے۔ مطلب یہ کہ شاھی خاندان میں اقتدار کی جو رسہ کشی جاری ہے اسے دیکھتے ھوئے بھی اس ملک کے عوام کو حوصلہ ملا ہے اور ان کو توقع ہے کہ ایک دن شاھی حکومت سے ان کی جان چھوٹ جائے گی۔
دوسری جانب آل سعود کی ڈکٹیٹر حکومت یہ سمجھتی ہے کہ وہ تشدد کے ذریعے اپنا وجود برقرار رکھ سکتی ہے یھی وجہ ہے کہ وہ مسلسل اپنی تشدد آمیز پالیسیوں کا سلسلہ جاری رکھے ھوئے ہے۔ لیکن یہ حکومت اس بات سے غافل ہے کہ اس سے قبل لیبیا ، مصر ، تیونس اور یمن سمیت خطے کے بعض ممالک کے حکام نے بھی یھی پالیسی اختیارکر رکھی تھی لیکن آخر کار ان کو بھی برسھا برس کے اپنے اقتدار سے ھاتھ دھونا پڑا اور ان کی پالیسی خود ان کے زوال میں تیزی پیدا ھونے کا سبب بنی۔ اور آل سعود کی شاھی حکومت کا انجام بھی اس سے مختلف نھیں ھوگا۔
امریکہ کے ایک بین الاقوامی وکیل فرانکلین لمب نے دنیا میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرنے والے ایک بڑے ملک کی حیثیت سے سعودی عرب پر کڑی تنقید کی ہے۔ فرانکلین لمب نے پریس ٹی وی سے گفتگو کرتے ھوئے کھا ہے کہ سعودی عرب میں آل سعود کی حکومت مختلف طریقوں سے انسانی حقوق کی خلاف ورزی کررھی ہے اور حکومت نے سعودی عدالتوں کو عام شھریوں پر دباؤ ڈالے جانے کے ایک حربے میں تبدیل کردیا ہے۔
امریکہ کے اس بین الاقوامی وکیل کا کھنا ہے کہ سعودی عرب میں نصف سے زائد لوگوں کو انٹرنیت تک دسترسی حاصل نھیں ہے، خواتین ڈرائیونگ نھیں کرسکتیں، شیعہ مسلمانوں کو آزادی حاصل نھیں ہے اور عام شھریوں پر سختی کسی سے پوشیدہ نھیں ہے۔
بین الاقوامی وکیل فرانکلین لمب نے صراحت کے ساتھ کھا ہے کہ سعودی عرب میں عام شھریوں کو معمولی ترین حقوق بھی حاصل نھیں ہیں اور مجموعی طور پر سعودی عرب، دنیا کا ایک ایسا ملک ہے جھاں انسانی حقوق کی بھت زیادہ خلاف ورزی ھوتی ہے۔
قابل ذکر ہے کہ سعودی عرب میں یہ صورت حال ایسی حالت میں جاری ہے کہ مغربی ممالک نے، جو ھمیشہ انسانی حقوق کی حمایت کا دم بھرتے رھے ہیں، سعودی عرب میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر کبھی لب کشائی تک نھیں کی ہے جس کی بناء پر آل سعود کی حکومت اپنے ملک کے شھریوں پر اور زیادہ سختیاں کر رھی ہے۔
آل سعود کی شاھی حکومت اپنےان تمام تر اقدامات کے ذریعے صرف اپنی بقا چاھتی ہے ۔ اس کا ھدف یہ ہے کہ خطے میں چلنے والی اسلامی بیداری کی تحریک اسے اپنی لپیٹ میں نہ لے لے۔ یھی وجہ ہے کہ یہ شاھی حکومت سارے خطے میں دھشتگردی کوھوا دے کر بھی اپنا یہ مقصد حاصل کرنے کے درپے ہے۔
آج سعودی سرمائے کے بل بوتے پر دنیا بھر کے سلفی اور القاعدہ کے جنگجوؤں کی مدد ھورھی ہے اور اس حوالے سے نہ صرف سعودی اور قطری پیسہ پانی کی طرح بھایا جا رھا ہے بلکہ سعودی عرب کے نام نھاد علماء نے اپنے فتووں کی کتابیں بھی کھول دی ہیں۔
سعودی علماء جو بحرین میں حکومت مخالف مظاھروں کو خلاف اسلام اور حرام سمجھتے تھے، آج عراق اور شام میں مسلمانوں کے قتل عام اور حکومت کو نیست و نابود کرنے کو جائز قرار دے رھے ہیں اور انکی دامے درمے سخنے مدد بھی کر رھے ہیں۔
افغانستان، پاکستان، عراق، یمن، بحرین اور اب شام میں امریکی ایجنڈے کو آگے بڑھانے والے ملک کی حثیت سے سعودی عرب کا کردار اتنا عیاں ھو گیا ہے کہ کچھ کھنے کی ضرورت ھی نھیں رہ جاتی ۔
پاکستان سمیت دنیا بھر میں ھونے والی دھشت گردی میں تکفیری دیوبندی اور تکفیری سلفیوں کے ملوث ھونے اور ان کو سعودی عرب سے برا راست حمایت اور فنڈنگ کسی سے ڈھکی چھپی نھیں ہے ، انسانی حقوق کے علمبرداروں اور تنظیموں کو چاھئے کہ وہ اقوام متحدہ اور عالمی طاقتوں کو اس بات پر مجبور کریں وہ سعودی عرب کی جانب سے کی جانے والی فنڈنگ جس سے پوری دنیا میں دھشت گردی کی جاتی ہے اس پر اور تکفیری اور سلفی دھشتگردوں کے خلاف کڑے سے کڑے اقدامات کریں۔
مشرق سے لے کر مغرب تک تمام دھشتگردی کے واقعات میں سعودی عنصر صاف دیکھا جا سکتا ہے ، پاکستان میں موجود دیوبندی تکفیری دھشت گرد بھی سعودی فنڈنگ اور اسٹیبلشمنٹ میں موجود سعودی غلاموں کی مدد سے پاکستان میں رھنے والے شیعہ اور بریلوی مسلمانوں اور اقلیتوں پر آے روز جو حملے کر رھے ہیں وہ بھی اس بات کا ثبوت ہے کے سعودی عرب اور دھشتگردی کا اپس میں چولی دامن کا ساتھ ہےآل سعود دراصل عالم اسلام میں نفاق اور افتراق کا ھدف لیکر ھی اقتدار میں آئے تھے اور اس خطے میں برطانوی سامراج کی مدد سے خاندان آل رشید کا خاتمہ کرنے کے بعد سے آج تک، اسی منحوس پالیسی پر کار بند ہیں۔
طالبان اور القاعدہ کی بھرپور حمایت اور مدد کے باوجود سعودی عرب کے امریکہ اور مغرب کے ساتھ تعلقات اعلٰی سطح پر قائم ہیں، جبکہ اسی حمایت کی عالم اسلام کو آج تک سزا دی جا رھی ہے۔
اسی بات سے آل سعود کے نفاق آمیز پالسیوں کا اندزہ لگایا جا سکتا ہے۔ اس میں ذرہ برابر شک نھیں کہ اگر آج سعودی عرب میں آل سعود کا خاتمہ ھو جائے تو جھاں سعودی عرب کے عوام کے جائز حقوق ان کو مل جائيں گے وھیں ملت اسلامیہ کے درمیان بھت سے اختلافات آن واحد میں ختم ھو جائیں گے۔
 

Add comment


Security code
Refresh