حضرت امام محمد تقی علیہ السلام فرماتے ہیں :"توبہ میں تاخیر کرنا دھوکہ ہے، اور توبہ کرنے میں بھت زیادہ دیرکرنا
حیرت و سرگردانی کا سبب ہے، خدا سے ٹال مٹول کرنا ھلاکت ہے اور بار بار گناہ کرنا تدبیر خدا سے ایمن ھونا ہے"۔
حضرت امام محمد تقی علیہ السلام دنیا کے تمام فضائل کے حامل تھے ،دنیا کے تمام لوگ اپنے مختلف ادیان ھونے کے باوجود آپ علیہ السلام کی غیر معمولی صلاحیتوں سے حیرت زدہ تھے ،آپ علیہ السلام سات سال اور کچھ مھینے کی عمر میں درجۂ امامت پر فائز ھوئے،آپ علیہ السلام نے ایسے علوم و معارف کے دریا بھائے جس سے تمام عقلیں مبھوت ھو کر رہ گئیں، تمام زمانوں اور آبادیوں میں آپ علیہ السلام کی ھیبت اور آپ کی عبقری (نفیس اورعمدہ) صفات کے سلسلہ میں گفتگو ھونے لگی۔
اس عمر میں بھی فقھا اور علماء آپ علیہ السلام سے بھت ھی مشکل اور پیچیدہ مسائل پوچھتے تھے جن کا آپ علیہ السلام ایک تجربہ کار فقیہ کے مانند جواب دیتے تھے ۔ راویوں کا کھنا ہے کہ آپ علیہ السلام سے تین ھزار مختلف قسم کے مسائل پوچھے گئے جن کے جوابات آپ علیہ السلام نے بیان فرمائے ہیں ۔
ظاھری طور پر اس حقیقت کی اس کے علاوہ اور کو ئی وجہ بیان نھیں کی جا سکتی ہے کہ شیعہ اثناعشری مذھب کا عقیدہ ہے کہ خداوند عالم نے ائمہ اھل بیت علیھم السلام کو علم ،حکمت ،اور فصل الخطاب عطا کیا ہے اور وہ فضیلت عطا کی ہے جو کسی شخص کونھیں دی ہے ھم ذیل میں مختصر طور پر اس امام علیہ السلام سے متعلق بعض خصوصیات بیان کر رھے ہیں :
امام محمد تقی علیہ السلام اپنے والد بزرگوار کی زند گی میں
امام علیہ السلام نے اپنے والد بزرگوار کے زیر سایہ اور آغوش پدری میں پرورش پائی اور تکریم و محبت کے سایہ میں پروان چڑھے، امام رضا علیہ السلام آپ کو آپ کے نام کے بجائے آپ کی کنیت ابو جعفر سے پکارتے تھے ، جب امام رضا علیہ السلام خراسان میں تھے تو امام محمد تقی علیہ السلام آپ کے پاس خطوط لکھا کرتے تھے جو انتھائی فصاحت و بلاغت پر مشتمل ھوتے تھے ۔
امام علی رضا علیہ السلام نے اپنی اولاد کو جو اعلیٰ تربیت دی ہے اس میں سے ایک یہ ہے کہ آپ (ع) ان کو ھمیشہ نیکی، اچھائی اور فقراء کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیتے تھے جیسا کہ آپ (ع) نے خراسان سے اُن کے نام ایک خط میں بسم اللہ کے بعد یوں تحریر فرمایا :
"میری جان تم پر فدا ھو مجھے اطلاع ملی ہے کہ بعض غلام نے تمھاری سواری کو باغ کے چھوٹے دروازے سے باھر نکالتے ہیں ،یہ ان کی کنجوسی کی وجہ سے ہے تاکہ کوئی بھی تمھیں راستہ میں نہ ملنے پائے ،لھذا میرا تمھاری گردن پر جو حق ہے اس کی بنا پر میں یہ چا ھتا ھوں کہ تمھاری آمد و رفت صرف بڑے دروازے سے ھونی چا ھئے ،اور جب بھی تم سوار ھو کر نکلو تو تمھارے ساتھ سونے ،چاندی (درھم و دینار کے سکے )ضرور ھونا چا ھئیں ،تاکہ جو بھی تم سے مانگے اس کو فوراً عطا کردو ،اور تمھارے چچاؤں میں سے جو کوئی تم سے نیکی کا مطالبہ کرے اس کو پچاس دینار سے کم نہ دینا اور تمھیں زیادہ دینے کا بھی اختیار ہے ،اور اپنی پھوپھیوں کو بھی پچاس دینار سے کم نہ دینا اور زیادہ دینے کا تمھیں اختیار ہے، خدا تمھیں بھترین توفیق عطا فرمائے لھذا انفاق کرتے رھو اور خدا کے سلسلہ میں کسی طرح کے بخل کا خیال مت کرو"۔
کیا آپ (ع) نے اس عظیم الشان تربیت کا اندازہ لگایا ہے جس میں شرافت و کرم بالکل نمایاں و آشکار ہے ؟ امام رضا علیہ السلام نے اپنے فرزند ارجمند کے دل کی گھرا ئیوں میں مکارم اخلاق اور اچھے اخلاق کو بھر دیا ہے تاکہ وہ اپنے جد کی امت کے لئے اسوۂ حسنہ یا نمونۂ عمل بن سکیں ۔
خاندان نبوت کا اعزاز و اکرام
خاندان نبوت و رسالت امام محمد تقی علیہ السلام (جبکہ آپ بالکل نو عمر ھی تھے )کے ذریعہ عزت و شرافت و بزرگی میں اور چند قدم آگے نظر آتا ہے ،اور کمسنی کے باوجود ان کی امامت و فضا ئل کے معترف ہیں جیسا کہ محمد بن حسن عمارہ سے روایت ہے :
میں مدینہ میں علی بن جعفر کے یھاں تھا اور دو سال سے آپ کے بھا ئی یعنی امام مو سیٰ کاظم علیہ السلام کے اقوال و احادیث لکھا کرتا تھا ،جب ابو جعفر محمد بن علی رضا مسجدالنبی میں داخل ھوئے تو علی بن جعفر نعلین اور ردا ء کے بغیر آپ کے پاس پھنچے، آپ کے ھاتھوں کو چوما اور آپ کی تعظیم و تکریم کی اور امام محمد تقی علیہ السلام نے اُن کی طرف متوجہ ھوتے ھوئے عرض کیا : اے چچا خدا آپ پر رحم فرمائے، تشریف رکھئے ۔
علی بن جعفر بڑے ھی ادب اور خضوع سے یہ کھتے ھوئے جھکے :اے میرے سردار !میں آپ کے کھڑے ھوتے ھوئے کیسے بیٹھ سکتا ھوں ؟
جب امام محمد تقی علیہ السلام واپس چلے گئے تو علی بن جعفر اصحاب کے پاس آئے اصحاب نے اُن سے کھا : آپ ان کے باپ کے چچا ہیں پھر بھی اُن کی اتنی تعظیم کرتے ہیں!! علی بن جعفر نے جذبۂ ایمانی کے انداز میں ، جواب میں اپنی داڑھی کو مٹھی میں پکڑ کر جواب دیا ،خاموش رھو کیونکہ جب خدا نے میری اس بزرگی کو امامت کے لئے مناسب نہ سمجھا اور اسی جوان کو امام قرار دیا اور اُ س کو اس کے مناسب مقام پر رکھا تو میں تمھاری بات سے خدا کی پناہ چا ھتا ھوں بلکہ میں تو اُن کا غلام ھوں ۔
یہ حدیث علی بن جعفر کے عمیق ایمان پر دلالت کرتی ہے، آپ نے اپنے اصحاب پر یہ واضح کر دیا کہ بیشک امامت انسان کی مشیت اور اس کے ارادہ کے تابع نھیں ھو سکتی ،امرامامت اللہ کے ھاتھ میں ھوتا ہے یہ ایسا امر ہے جس کو خداوند عالم اپنے بندوں میں سے جسے چا ھتا ہے عطا کر دیتا ہے چا ھے وہ عمر میں چھوٹا ھو یا بڑا ۔
امام محمد تقی علیہ السلام کا زھد
امام محمد تقی علیہ السلام اپنی ساری زند گی میں متقی و پرھیز گار و زاھد رھے ،آپ نے دنیا میں اپنے آباء و اجداد کی طرح زھد اختیار فرمایا ،ان ھی کی طرح زندگی بسر کی ،جنھوں نے دنیا سے بے رغبتی کی اور خدا سے لو لگائی۔
امام محمد تقی علیہ السلام جوان تھے اور مامون اپنے پاس آنے والے حقوق شرعیہ جن کی ما لی حیثیت بھت زیادہ ھوتی تھی سب کے سب آپ کے پاس بھیج دیتا تھا آپ ان میں سے اپنے مخصوص امور کے علاوہ کچھ بھی خرچ نھیں کرتے تھے، بقیہ سب کا سب فقرا اور محروموں پر خرچ فرمادیتے تھے۔
حسین مکاری سے روایت ہے کہ جب امام محمد تقی علیہ السلام کی بغداد میں اتنی تعظیم وتکریم دیکھی تو میں نے خود سے کھا کہ اب میں اپنے وطن واپس نھیں پلٹوں گا اور عنقریب بغداد میں مقیم ھو کر نعمتوں سے مستفیض ھوں گا، امام اس کے دل کی بات سے آگا ہ ھوگئے اور اس سے فرمایا :اے حسین! مجھے میرے جد رسول اللہ کے حرم میں جو کی روٹی اور دلاھواموٹا موٹانمک اس سے زیادہ محبوب ہے جس کے بارے میں توسوچ رھا ہے ۔۔۔۔(۱)
امام ملک اور سلطنت کے خواھاں نہ تھے، آپ بالکل حکومت کی طرف سے کئے جانے والے مظاھر کی کوئی پروا نھیں کرتے آپ نے ھمیشہ زھد اختیار کیا اور دنیا سے رو گردان رھے ۔
امام محمد تقی علیہ السلام کی سخاوت
امام ابو جعفر علیہ السلام لوگوں میں سب سے زیادہ سخی وفیاض تھے، اکثر لوگوں کے ساتھ نیکی کرتے اور آپ کا فقراکے ساتھ نیکی کرنا مشھور تھا اور آپ کو آپ کے بھت زیادہ کرم اور سخاوت کی وجہ سے جواد کے لقب سے نواز ا گیا ھم ذیل میں آپ کی سخاوت کے کچھ واقعات نقل کررھے ہیں :
۱۔ مورخین نے روایت کی ہے کہ احمد بن حدید اپنے اصحاب کی ایک جماعت کے ساتھ حج کیلئے نکلے تو ان پر ڈاکوؤں نے حملہ کر کے ان کا سارا مال ومتاع لوٹ لیا، مدینہ پھنچ کر احمد امام محمد تقی علیہ السلام کے پاس گئے اور ان سے سارا ماجرا بیان کیا تو آپ نے اُن کیلئے ایک تھیلی لا نے کا حکم دیا اور اُن کو مال عطا کیا تا کہ پوری جماعت میں تقسیم کردیں اس مال کی مقدار اتنی ھی تھی جتنا مال ان کا لوٹا گیاتھا۔(۲)
۲۔عتبی سے روایت ہے کہ ایک علوی مدینہ میں ایک کنیز خرید نا چا ھتا تھا، لیکن اس کے پاس اتنا پیسہ نھیں تھا جس سے اس کو خرید ا جا سکے تو اس نے امام محمد تقی علیہ السلام سے اس کی شکایت کی امام نے اس کے مالک سے سوال کیا تو اس نے آپ کو بتایا، امام نے اس کے مالک سے مزرعہ(کھیت) اور کنیز کو خرید لیا ،علوی نے کنیز کے پاس پھنچ کر اس سے سوال کیا تو اس نے بتایا کہ اس کو خرید اجا چکا ہے لیکن نھیں معلوم اس کو مخفی طور پر کس نے خرید اہے علوی نے امام کی طرف متوجہ ھو کر بلند آواز میں عرض کیا ۔فلاں کنیز فروخت کردی گئی ہے ۔
امام علیہ السلام نے مسکراتے ھوئے کھا : کیا تم کو معلوم ہے اس کو کس نے خریدا ہے ؟
اس نے جواب دیا :نھیں ۔
امام علیہ السلام اس کے ساتھ اس کھیت کی طرف گئے جس میں وہ کنیز تھی اور امام علیہ السلام نے اس کو اس میں داخل نہ ھونے کا حکم دیا تو اس نے اس میں داخل ھونے سے منع کیا چونکہ وہ اس کے مالک کو نھیں پھچانتا تھا، جب امام علیہ السلام نے اس سے اصرار کیا کہ تو اس نے قبول کرلیا جب وہ گھر میں داخل ھوا تو اس میں کنیز کو دیکھا امام علیہ السلام نے اس سے فرمایا کیا تم اس کو پھچا نتے ھو ؟
اس نے کھا: ھاں ۔
علوی کو معلوم ھو گیا کہ امام علیہ السلام نے اس کو خریدلیا ہے۔
امام علیہ السلام نے اس سے فرمایا:یہ کنیز ،قصر،مزرعہ غلہ اور جو کچھ اس قصر میں مال ودولت ہے سب تیرے لئے ہے، علوی خوش ھو گیا اور اس نے امام کا بڑی گرمجو شی سے شکریہ اداکیا ۔(۳)
یہ امام علیہ السلام کی سخاوت و کرم کے بعض واقعات تھے ۔
امام محمد تقی علیہ السلام کے وسیع علوم
امام محمد تقی علیہ السلام بچپن میں ھی اپنے زمانہ کے تمام علماء میں سب سے زیادہ علم رکھتے تھے ،بڑے بڑے علماء آپ کے مناظروں ،فلسفی ،کلامی اور فقھی بحثوں سے متأثر ھوکر آپ کی عظمت کا لوھا مانتے تھے ،اور منتصر کے پاس جاکر آپ کے فضل و بر تری کا اقرار کرنے تھے ،فقھا اور علماء سات سال کی عمر میں ھی آپ کا بھت زیادہ احترام کرتے تھے اور آپ کے علوم سے مستفیض ھوتے تھے یہاں تک کہ آپ کی فضیلت شائع ھو گئی ، مختلف بزموں اور نشستوں میں آپ کا چر چا ھونے لگا ،اپنے کمال و فضل کی بنا پر آپ دنیا والوں کے لئے حیرت وتعجب کاسبب قرار پائے ،جب مامون نے اپنی بیٹی کا امام علیہ السلام سے عقد کرنے کا ارادہ کیا تو اُس نے عباسیوں کو بلایاتو اُنھوں نے مامون سے امام کے امتحان کا مطالبہ کیا تو مامون نے قبول کر لیا ۔
اس نے امام کے امتحان کے لئے بغداد کے قاضی القضات یحییٰ بن اکثم کو معین کیااور یہ وعدہ کیا کہ اگروہ امام کوان کے امتحان میں ناکام کردے اور وہ جواب نہ دے سکیں تو اس کو بھت زیادہ مال و دولت دیا جا ئے گا،یحییٰ اس مجلس میں پھنچا جس میں وزراء اور حکّام موجود تھے سب کی نظریں امام علیہ السلام پر لگی ھوئی تھیں چنانچہ اس نے امام علیہ السلام سے عرض کیا :کیا مجھے اجازت ہے کہ میں آپ سے کچھ دریافت کروں ؟
امام علیہ السلام نے مسکراتے ھوئے فرمایا :"اے یحییٰ !جو تم چاھو پوچھو "!
یحییٰ نے امام علیہ السلام سے کھا :آپ فرمائیے حالت احرام میں شکار کرنے والے شخص کا کیا حکم ہے ؟
امام علیہ السلام نے اس مسئلہ کی تحلیل کرتے ھوئے اس طرح اس کی مختلف صورتیں بیان کیں اور یحییٰ سے سوال کیا کہ تم نے ان شقوں میں سے کونسی شق پوچھی ہے ؟
امام علیہ السلام نے فرمایا :" اُس نے حدود حرم سے باھر شکارکیا تھا یا حرم میں ،شکار کرنے والا مسئلہ سے آگاہ تھا یا نھیں ،اس نے عمدا شکار کیا ہے یا غلطی سے ایسا ھو گیا ہے ،شکار کرنے والا آزاد تھا یا غلام ،وہ بالغ تھا یا نا بالغ ،اُس نے پھلی مرتبہ شکار کیا تھا یا بار بار شکار کر چکا تھا ،شکار پرندہ تھا یا کوئی اور جانور تھا ، شکار چھوٹا تھا یا بڑا ، شکاری شکار کرنے پر نا دم تھا یامُصر ،شکار رات کے وقت کیا گیا ہے یا دن میں اور اس نے حج کیلئے احرام باندھا تھا یا عمرہ کیلئے"؟
یحییٰ کے ھوش اڑ گئے وہ عاجز ھو گیا چونکہ اُس نے اپنے ذھن میں اتنی شقیں سوچی بھی نھیں تھیں، مجمع میں تکبیر و تھلیل کی آوازیں بلند ھونے لگیں ، اور سب پر یہ آشکار ھو گیا کہ اللہ نے اھل بیت علیھم السلام کو علم و حکمت اسی طرح عطا کیا ہے جس طرح اُس نے انبیاء اور رسول کو عطا کیا ہے ۔
امام محمد تقی علیہ السلام نے اس مسئلہ کی متعدد شقیں بیان فرما ئیں جبکہ ان میں سے بعض شقوں کا حکم ایک تھا جیسے شکار رات میں کیا جائے یا دن میں ان دونوں کا حکم ایک ہے لیکن امام علیہ السلام نے اس کی دشمنی کو ظاھر کرنے اور اسے عاجز کرنے کے لئے ایسا کیا تھا چونکہ وہ آپ کا امتحان لینے کی غرض سے آیا تھا ۔
مامون نے اپنے خاندان والوں کی طرف متوجہ ھو کران سے کھا :ھم اس نعمت پر خدا کے شکر گذار ہیں، جو کچھ میں نے سوچا تھا وھی ھوا ،کیا تمھیں اُن کی معرفت ھو گئی جن کا تم انکار کر رھے تھے ؟ ۔(۴)
جب عباسی خاندان پر اس چھوٹے سے سِن میں امام محمد تقی علیہ السلام کا فضل و شرف اور اُن کا وسیع علم آشکار ھو گیا تو مامون نے اپنی بیٹی ام الفضل کا آپ سے عقد کر دیا ۔
حقیقی ایمان
اللہ پرایمان اس پر بھروسے اور توکل پر دلالت کر تا ہے ھم اُن میں سے ذیل میں چند نصیحتیں بیان کر رھے ہیں :
۱ ۔ اللہ پر اعتماد
امام محمد تقی علیہ السلام کا فرمان ہے :جوشخص خدا پر بھروسہ کر تا ہے خدا اس کو خو شی دکھلاتا ہے، جوشحص خدا پر توکل کرتا ہے خدا اس کو مصیبتوں سے بچاتا ہے خدا پر بھروسہ ایسا قلعہ ہے جس میں مو من ھی جا سکتا ہے خدا پر توکل کرنا برائی سے بچانے کا ذریعہ اور ھر دشمن سے حفاظت کا وسیلہ ہے ۔(۵)
اِن سنھرے کلمات میں جس چیز کی تمام انسانوں کو اپنی زندگی میں ضرورت ھوتی ہے وہ خالق کائنات اور زندگی دینے والے پر بھروسہ کرنا ہے جس نے اللہ پر بھروسہ کیا وہ خو شی دیکھے گا اور اللہ پر بھروسہ کرنا انسان کے امور کے لئے کافی ہے ۔
۲۔اللہ کے ذریعہ بے نیازی
امام محمد تقی علیہ السلام نے اللہ کے ذریعہ بے نیازی اور اسی سے امید باندھنے کی دعا فرمائی :جوشخص خدا کے ذریعہ بے نیاز ھوگا لوگ اسی کے محتاج ھوں گے ،اور جو اللہ کا تقویٰ اختیار کرے گا لوگ اس سے محبت کر یں گے ۔(۶)
۳۔اللہ سے لو لگانا
امام محمد تقی علیہ السلام نے اللہ سے لو لگانے کی ترغیب دلائی چونکہ خدا کا فیض اور لطف وکرم کبھی ختم نھیں ھوتا: لیکن جس نے اللہ کے علاوہ کسی اور سے لَولگائی خدا اس شخص پر لولگانے والے کو غالب کردیتا ہے ۔(۷)
مکارم اخلاق
امام محمد تقی علیہ السلام نے مکارم اخلاق اور محاسن صفات پر مشتمل دعا میں فرمایا ہے :"انسان کے بھترین اخلاق کی ایک نشانی یہ ہے کہ وہ کسی کو اذیت نھیں پھنچاتا ،اس کے کرم کی نشانی یہ ہے کہ وہ اپنے محب کے ساتھ اچھا برتاؤ کرتا ہے ،اس کے صبر کا نمونہ یہ ہے کہ وہ شکایت نھیں کرتا ،اس کی خیر خواھی کی پھچان یہ ہے کہ وہ ناپسند باتوں سے روکتا ہے ،نرمی کی پھچان یہ ہے کہ انسان اپنے دینی بھائی کی ایسے مجمع میں سر زنش نہ کرے جھاں اُس کو بُرا لگتا ہے ،اس کی سچی صحبت کی پھچان یہ ہے کہ وہ کسی پر بار نھیں بنتا ،اس کی محبوبیت کی پھچان یہ ہے کہ اس کے موافق زیادہ اور مخالف کم ھوتے ہیں "۔(۸)
امام محمد تقی علیہ السلام نے ان بھترین کلمات کے ذریعہ حسن اخلاق اور مکارم اخلاق،سچائی قائم کرنے اور حقیقی فکر و محبت کرنے کی بنیاد ڈالی ۔
آداب سلوک
امام محمد تقی علیہ السلام نے لوگوں کے درمیان حسن سلوک اور اس کے آداب کا ایک بھت ھی بھترین نظام معین فرمایا ۔آپ اس سلسلہ میں یوں فرماتے ہیں :
۱۔"تین عادتوں سے دل موہ لئے جاتے ہیں :معاشرے میں انصاف ،مصیبت میں ھمدردی ، پریشا ن حالی میں تسلّی" ۔(۹)
۲۔"جس شخص میں تین باتیں ھوں گی وہ شرمندہ نھیں ھوگا :جلد بازی سے کام نہ لینا ،مشورہ کرنا ، عزم کے وقت اللہ پر بھروسہ کرنا ،جوشخص اپنے بھائی کو پوشیدہ طور پر نصیحت کرے وہ اس کا محسن ہے اور جو علانیہ طور پر اس کو نصیحت کر ے گویا اُس نے اس کے ساتھ برائی کی ہے "۔(۱۰)
۳۔"مومن کے اعمال نامہ کی ابتدا میں اس کا حسن اخلاق تحریر ھو گا ،سعادتمند کے اعمال نامہ کے شروع میں اس کی مدح و ثنا تحریر ھوگی ،روایت کی زینت شکر ،علم کی زینت انکساری ،عقل کی زینت حسن ادب ہے ، خوبصورتی کا پتہ کلام کے ذریعہ چلتا ہے اور کمال کا پتہ عقل کے ذریعہ چلتا ہے"۔(۱۱)
امام علیہ السلام کے یہ کلمات حکمت ،قواعد اخلاق اور آداب کے اصول پر مشتمل ہیں ،اگر کسی شخص کے پاس صرف یھی کلمات ھوں تو آپ کی امامت پر استدلال کرنے کیلئے کافی ہیں ، ایک کمسن اپنی عمرکے ابتدائی دور میں کیسے ایسی دا ئمی حکمتیں بیان کرنے پر قادر ھو گیا جن کا بڑے بڑے علماء مثل لانے سے عاجز ہیں ؟
امام محمد تقی علیہ السلام کے مو عظے
ھم ذیل میں امام علیہ السلام کے بعض مو عظے بیان کر رھے ہیں :
۱۔حضرت امام محمد تقی علیہ السلام فر ماتے ہیں :"توبہ میں تاخیر کرنا دھوکہ ہے ،اور توبہ کرنے میں بھت زیادہ دیرکرنا حیرت و سرگردانی کا سبب ہے ،خدا سے ٹال مٹول کرنا ھلاکت ہے اور بار بار گناہ کرنا تدبیر خدا سے ایمن ھونا ہے ،خداوند عالم کا فرمان ہے :(لا یَأْمَنُ مَکْرَ اﷲِ إِلاَّ الْقَوْمُ الْخَاسِرُونَ)(۱۲) "۔(۱۳)
"مکر خدا سے صرف گھاٹا اٹھانے والے ھی بے خوف ھوتے ہیں "
۲۔ایک شخص نے آپ سے عرض کیا :مجھے کچھ نصیحت فرما دیجئے تو آپ نے اس کو یہ بیش بھا نصیحت فرمائی : "صبر کو تکیہ بناؤ ،غریبی کو گلے لگاؤ ،خواھشات کو چھوڑ دو ،ھویٰ و ھوس کی مخالفت کرو ،یاد رکھو تم خدا کی نگاہ سے نھیں بچ سکتے، لھذا غور کرو کس طرح زند گی بسر کرنا ہے "۔(۱۴)
۳۔ حضرت امام محمد تقی علیہ السلام نے اپنے بعض اولیا کو وعظ و نصیحت پر مشتمل یہ گرانبھا خط تحریر فرمایا : "ھم اس دنیا سے چلو بھر پانی لیتے ہیں لیکن جس شخص کی خواھش اپنے دوست کی طرح ھو اور وہ اس کی روش کے مطابق چلتاھو تو وہ ھر جگہ اس کے ساتھ ھوگا جبکہ آخرت چین و سکون کا گھر ہے "۔(۱۵)
آپ کے یہ وہ موعظے اور ارشادات ہیں جو انسان کو اس کے رب سے نزدیک کرتے ہیں اور اس کے عذاب وعقاب سے دور کرتے ہیں ،انسان کے نفس میں اُبھرنے والے برے صفات کا اتباع کر نے سے ڈراتے ہیں ،یہ برے صفات انسان کو ھلاکت میں ڈال دیتے ہیں ،انسان کو رذائل اور جرائم کے میدانوں میں گامزن کر دیتے ہیں ،امام محمد تقی علیہ السلام نے اپنے وعظ و ارشادات میں اپنے آباء و اجداد کا اتباع فرمایا ہے ،یہ وہ تابناک نصائح ہیں جن کا ھم اُن کی سیرت و سوانح حیات میں مطالعہ کرتے ہیں ۔
مامون کا امام محمد تقی علیہ السلام سے مسئلہ کی وضاحت طلب کرنا
مامون نے امام محمد تقی علیہ السلام سے اس مسئلہ کی وضاحت طلب کی جو آپ نے یحییٰ بن اکثم سے پوچھا تھا،تو آپ نے یوں وضاحت فرمائی :
"اگر حالتِ احرام میں حدود حرم سے باھر شکارکیا ہے اور شکار پرندہ ہے اور بڑا بھی ہے تو اس کا کفارہ ایک بکری ہے ،اگر یھی شکار حدود حرم کے اندر ھوا ہے تو کفارہ دُوگنا (یعنی دو بکریاں )، اگر پرندہ چھوٹا تھا تو دنبہ کا وہ بچہ جو ماں کا دودھ چھوڑ چکا ھو ،اگر یہ شکار حرم میں ھوا ہے تو اُس پرندہ کی قیمت اور ایک دنبہ ،اگر شکار وحشی گدھا ہے تو کفارہ ایک گائے اوراگر شکار شتر مُرغ ہے تو کفارہ ایک اونٹ ہے اگرشکاری کفارہ دینے پر قادر نھیں ہے تو ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلائے اور اگر اس پر بھی قادر نھیں ہے اٹھارہ دن روزے رکھے ، اگر اس نے گائے کا شکار کیا ہے تو اس کا کفارہ بھی ایک گا ئے ہے اگر اس کفارہ کو دینے پر قادر نہ ھو تو ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلائے اور اگر اس پر بھی قادر نہ ھو تو نو دن کے ر وزے رکھے ،اگر شکار ھرن ہے تو اس کا کفارہ ایک بکری ہے اگر وہ اس کفارہ کو دینے پر قادر نہ ھو تو دس مسکینوں کو کھانا کھلائے اگر یہ بھی نہ دے سکے تو تین دن کے روزے رکھے ،یہ شکار اگر حدود حرم میں ھوا ہے تو کفارہ دوگُنا ھوگا :(ھدْیاًبالغ الکعبۃِ)اگر احرام حج کا ہے تو قربانی منیٰ میں کرے گا جس طرح دوسرے حا جی کرتے ہیں اور اگر احرام عمرہ کا ہے تو کفارات کو خانۂ کعبہ تک پھنچانا ھھوگا اور قربانی مکہ میں ھو گی ،اور بکری کی قیمت کے مانند صدقہ دینا ھوگا ۔
اگر اس نے حرم کے کسی کبوتر کا شکار کیا ہے تو وہ ایک درھم صدقہ دے گا اور ایک درھم سے حرم کے کبوتروں کے لئے چارا خریدے گا ،بچہ کا شکار کرے تو آدھا درہم صدقہ دے گا اور اگر بیضہ توڑدے تو ایک چوتھائی درھم صدقہ دے گا ،محرم کو ھر حال میں کفارہ ادا کرنا ھوگا چاھے وہ جان بوجھ کر شکار کرے یا بھول کر شکار کرے ،چاھے وہ اس مسئلہ سے واقف ھو یا ناواقف ،غلام کا کفارہ مالک کو ادا کرنا ھوگا چونکہ غلام خود بھی مالک کی ایک ملکیت ھی شمار ھوتا ہے ،اگر حالت احرام میں شکار کا پیچھا کرے اور شکار مرجائے تو اس کو فدیہ دینا ھوگا ،اگر اپنے اس فعل پر اصرار کرے گا تو اُس پر آخرت میں بھی عذاب ھوگا اور اگر اپنے اس فعل پر پشیمان و شرمندہ ھوگا تو وہ آخرت کے عذاب سے بچ جائے گا ،اگر وہ رات میں غلطی سے اس کا گھونسلا خراب کردے تو اُس کو کچھ نھیں دینا ھوگا جب تک کہ وہ شکار نہ کرے ،اگر وہ رات یا دن میں اس کا شکار کرلے تو فدیہ دینا ھوگا ،اوراگر احرام حج کا ہے تو فدیہ کو مکہ پھنچانا ھوگا ۔۔۔"۔
مامون نے اس مسئلہ کو لکھنے کا حکم دیا اس کے بعد عباسیوں سے مخاطب ھو کریوں گویا ھوا :کیا تم میں کوئی اس مسئلہ کا جواب دے سکتا ہے ؟
نھیں ،خدا کی قسم قاضی بھی اس کا جواب نھیں دے سکتا ۔
اے امیر المو منین! آپ بھترجانتے ہیں ۔۔۔
آگاہ ھوجاؤ کیا تم نھیں جانتے کہ اھل بیت علیھم السلام عام مخلوق نھیں ہیں ؟رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے امام حسن اور امام حسین علیھما السلام کی بچپن میں ھی بیعت کی ہے اور ان دونوں بچوں کے علاوہ کسی اور کی بیعت نھیں کی ہے، کیا تمھیں نھیں معلوم کہ حضرت علی علیہ السلام نو سال کے سن میں رسول(ص) اللہ پر ایمان لائے ،اور اللہ و رسول (ص) نے ان کا ایمان قبول کیا اور ان کے علاوہ کسی اور بچہ کا ایمان قبول نھیں کیا ؟ نہ ھی رسول (ص) اللہ نے آپ کے علاوہ کسی اور بچہ کو دعوت دی ،اور کیا تمھیں نھیں معلوم کہ اس ذریت میں جو حکم پھلے پر نافذ ھوگا وھی حکم آخری پر نافذ ھو گا ۔(۱۶)
مامون ایمان لے آیاکہ ائمہ اھل بیت علیھم السلام کا اسلام میں بھت ھی بلند وبالا مقام ہے اور اُن کے چھوٹے بڑے فضیلت میں برابر ہیں ۔
یہ بات بھی شایانِ ذکر ہے کہ جب امام محمد تقی علیہ السلام بغداد میں تھے تو علماء اور راوی آپ کے مختلف علوم فقہ، کلام ،فلسفہ ، قرآن کریم کی تفسیر اور علم اصو ل وغیرہ پر مشتمل دوروس تحریر کیا کر تے تھے ۔(۱۷)
امام محمد تقی علیہ السلام کے پایۂ علمی ،مناظرہ اور دیگر علمی اور فکری کارنامے آپ کی نوجوانی کے ہیں شیعو ں کا اس بات پر مطلق ایمان ہے کہ ائمہ اھل بیت علیھم السلام کو اللہ نے علم و حکمت اور فصل خطاب عطا کیا ہے اور ان کو وہ فضیلت عطاکی ہے جو دنیا میں کسی کو بھی نھیں عطا کی ہے ۔
حوالہ جات:
۱۔حیاۃالامام محمد تقی علیہ السلام،ص۷۵۔
۲۔ وافی بالوفیات ،جلد ۴،ص ۱۰۵۔
۳۔ مرآۃ الزمان، جلد ،۶ص ۱۰۵ ۔
۴۔الارشاد، ص ۲۶۱۔وسائل ،جلد ۹،ص ۱۸۷،وغیرہ ۔
۵۔ فصول مھمہ ابن صباغ، ص ۳۷۳۔
۶۔ جوھرۃ الکلام، ص ۲۵۰۔
۷۔ حیاۃ الامام محمد تقی علیہ السلام، ص۱۰۵۔
۸۔ در تنظیم ص ۲۲۳۔الاتحاف بحب الاشراف ،ص ۷۷۔
۹۔جوھرۃ الکلام ،ص ۱۵۰۔
۱۰۔ الاتحاف بحب الاشراف، ص ۷۸۔
۱۱۔ الاتحاف بحب الاشراف، ص ۷۸۔
۱۲۔ سورۂ اعراف، آیت ۹۹۔
۱۳۔ تحف العقول ،ص ۴۵۶۔
۱۴۔ تحف العقول ،ص ۴۵۶۔
۱۵۔ تحف العقول ،ص ۴۵۶۔
۱۶۔ تحف العقول ،ص۴۵۲۔وسائل الشیعہ ،جلد ۹، ص ۱۸۸۔یہ مکالمہ ارشاد، ص ۳۱۲میں مختصر طور پر نقل ھوا ہے ۔
۱۷۔ اس سلسلہ میں رجوع کیجئے: عقیدۃ الشیعہ ،ص ۲۰۰،حیاۃالامام محمد تقی علیہ السلام ، ص ۲۵۷۔