شیخ یوسف قرضاوی نے تازہ ترین موقف میں مصر کے فوجی حکمران جنرل عبدالفتاح السیسی کو خونخوار قرار دیا ہے۔
ادھر مصر کے مشھور آرٹسٹ حسن یوسف نے ایک ٹیلی ویژن پروگرام میں بات چیت کرتے ھوئےکھا ہے کہ قرضای یا تو مرچکے ہیں یا پھر صھیونی ریاست نے ان کے دماغ میں چِپ لگا رکھی ہے۔
علمائے مسلمین ایسوسی ایشن کے سربراہ اور قطر کے مصری نژاد مفتی ڈاکٹر شیخ یوسف قرضاوی۔ جنھوں نے عرب دنیا کی تبدیلیوں کےسلسلے میں متنازعہ آراء ونظریات دے کر اپنے لئے متعدد القاب اور بےشمار دشمنیاں کما لئے ہیں اور کچھ عرصے میں سعودی اور مصری حکام کے خلاف بولنے لگے ہیں ـ نے مصر کے فوجی حکمران جنرل عبدالفتاح السیسی کو خونخوار کا خطاب دیا ہے۔
یوسف قرضاوی جو علمائے مسلمین ایسوسی ایشن کی صدارت کے عھدے پر بھی فائز ہیں، ایک بار پھر جنرل عبدالفتاح السیسی پر تنقید کی ہے اور انھیں خونخوار قرار دیتے ھوئے کھا ہے کہ انھوں نے ھزاروں مصریوں کو قتل کیا ہے۔ وہ صدر مرسی کے خلاف السیسی کی فوجی بغاوت اور مصری افواج کے ھاتھوں بےشمار مصریوں کی قتل عام کے بارے میں اظھار خیال کررھے تھے۔
انھوں نے مصریوں سے کھا ہے کہ فوجی کمانڈروں کے خلاف قیام کریں کیونکہ انھوں نے محمد مرسی کی حکومت کا تختہ الٹ دیا ہے۔
انھوں نے مصریوں سے اپیل کی تھی کہ جمعہ کے روز سڑکوں پر آئیں اور ھفتے اور اتوار کو اپنا ضائع شدہ انقلاب دوبارہ لوٹا دیں اور طاغوتوں کے خلاف انقلاب بپا کریں۔
قرضاوی قطر کے دارالحکومت دوحہ میں نماز جمعہ کے اجتماع سے خطاب کررھے تھے۔
انھوں نے مصری افواج پر تنقید کی اور انھیں 1967 میں اسرائیل کے مقابلے میں شکست کا طعنہ دیتے ھوئے کھا: اس شکست کا سبب بھی یہ تھا کہ فوجی سیاست میں مداخلت کررھے تھے۔
انھوں نے کھا: السیسی کی صدارت میں ایک اجلاس کی ویڈیو رپورٹ سے معلوم ھوتا ہے کہ اکثر فوجی افسران ان کے اقدامات کے خلاف ہیں۔
واضح رھے کہ قرضاوی کا ھر موقف در حقیقت ریاست قطر کے حکمران خاندان کی ترجمانی کے زمرے میں آتا ہے جبکہ یہ خاندان مصر میں مرسی کی اخوانی حکومت کا حامی تھا اور مرسی کو ھٹائے جانے کے بعد قطر اور ترکی مصر کی موجودہ عبوری حکومت کے خلاف شدید موقف رکھتے ہیں۔
قرضاوی نے اس سے قبل قرضاوی حکومت کے خلاف کسی بھی قسم کے احتجاج کو حرام قرار دیا تھا اور عبدالفتاح السیسی کو خائن قرار دیا تھا جو بچوں، بوڑھوں اور عورتوں کو قتل کرتا ہے۔ انھوں نے قرضاوی کو ھٹانے کے بعد السیسی کی طرف سے عوام کو ریلیوں کی دعوت پر رد عمل ظاھر کرکے کھا تھا کہ ان کی دعوت پر کسی بھی مظاھرے میں شرکت حرام ہے۔
انھوں نے شیخ الازھر پر بھی تنقید کی تھی اور کھا تھا کہ مرسی کے خلاف ھونے والے اقدامات کی الازھر کی طرف سے تائید، بھت بڑی غلطی ہے اور شیخ الازھر کو اپنے ضمیر سے رجوع کرنا چاھئے اور ایک بیان پر تو ان کے خلاف بھت سخت الفاظ ادا کئے تھے۔
جب السیسی نے مرسی کا تختہ الٹ دیا تو سب سے پھلے سعودی بادشاہ عبداللہ بن عبدالعزیز نے السیسی کو مبارک باد کا پیغام بھیجا جبکہ مرسی نے سعودیوں کی خوشنودی کے حصول کے لئے ایران اور عالم تشیع کے خلاف موقف اپنایا تھا اور ایران کے ساتھ اخوان المسلمین کے تاریخی تعلق کا خاتمہ کردیا تھا۔ وہ پھلے بیرونی دورے پر سعودی عرب گئے تھے اور بعض لوگوں کے بقول انھوں نے عبداللہ کا ھاتھ تک چوما تھا لیکن جب ان کی حکومت گرگئی تو آل سعود نے جشن منایا اور مبارک باد کے پیغامات بھجوائے اور جناب قرضاوی جو کئی برسوں سے شیعہ دشمنی کی بنیاد پر آل سعود کی تعریف و تمجید میں مصروف تھے، ریاض میں مرسی کی برطرفی کا خیرمقدم ھونے کے بعد آل سعود کے خلاف بھی بولنے سے نہ رھے اور بادشاہ کو توبہ کرنے کی تلقین کی۔
قرضاوی نے سعودی عرب کے بادشاہ عبداللہ بن عبدالعزیز سمیت عرب بادشاھوں اور حکام سے کھا تھا کہ وہ مرسی کی برطرفی پر خوش ھوکر گناہ کا ارتکاب کرچکے ہیں چنانچہ انھيں توبہ کرکے خدا کی طرف لوٹنا چاھئے۔
عرصے سے شاہ عبداللہ کے لئے قصیدے پڑھنے والے قرضاوی نے اپنے بیان میں کھا تھا کہ سعودی بادشاہ اور دیگر عرب امراء اور بادشاہ مسلمانوں کے خون میں ملوث ہیں اور ان کے اربوں ڈالر مسلمانوں کے قتل عام کے لئے خرچ کئے جارھے ہيں۔
قرضاوی کے ان فرامین کا تعلق عراق، پاکستان اور شام و لبنان کے مسلمانوں سے نھیں ہے اور نہ ھی وہ بحرین حتی کہ مصر میں شیعیان آل رسول(ص) کے قتل پر ناراض ھوتے ہیں۔ ان کا تعلق ان چند سو مصریوں سے ہے جن کو مصری فوج نے قتل کیا اور شیعیان عالم سمیت دنیا جھاں نے مصری فوج کے اس وحشیانہ اقدام کی مذمت کی۔ لیبیا میں ھزاروں سنیوں کے قتل پر بھی انھیں کوئی افسوس نھيں ہے کیونکہ عراق و شام و لیبیا کے شیعہ اور سنی مسلمانوں اور مصر کے شیعہ مسلمانوں کے قتل عام میں تو وہ بذات خود بھی ملوث ہیں اور شام و عراق میں ان کے خطبوں اور بیانات کا روزمرہ کے کشت و خون میں سعودی مفتیوں جتنا کردار ہے۔ چنانچہ اگر شاہ عبداللہ اور خود امیر قطر لاکھوں عراقیوں اور شامیوں کو قتل کریں یا بحرین پر قبضہ کریں تو یہ جناب قرضاوی کی رضا و خوشنودی کا موجب ہے۔
ادھر ایک مصری سینئر آرٹسٹ "حسن یوسف" نے ایک ٹیلی ویژن پروگرام میں بات چیت کرتے ھوئےکھا ہے کہ قرضای یا تو مرچکے ہیں یا پھر صھیونی ریاست نے ان کے دماغ میں چِپ لگا رکھی ہے۔
حسن یوسف نے العالم سے بات چیت کرتے ھوئے کھا: یوسف قرضاوی اس وقت اسرائیلی افکار و نظریات کی ڈبلنگ کررھے ہیں اور صھیونیوں کے ترجمان ہیں۔
انھوں نے کھا: قرضاوی اب وہ شیخ نھيں ہیں جنھيں میں جانتا تھا اور ان سے مشورے کیا کرتا تھا اور ان کی آراء پر عقیدہ رکھتا تھا؛ جو بھی انھیں دیکھے اس کو یقین نھيں آئے گا یہ کہ وھی پرانے قرضاوی ہیں۔
اس مصری آرٹسٹ نے کھا: میں شیخ قرضاوی سے محبت کرتا تھا اور ھر جمعرات کو ان کے درس میں شرکت کے لئے قاھرہ سے قطر جایا کیرتا تھا۔ ان کی امامت میں نماز جمعہ پڑھتا تھا اور جمعہ کی شام کو مصر واپس آیا کرتا تھا۔ میں انھيں موجودہ صدی میں مجدد اسلام سمجھنے لگا تھا لیکن اب اس قرضای کا کوئی اثر ھی باقی نھيں ہے جنھیں میں پھنچانتا تھا اور وہ یا تو مرچکے ہیں یا پھر اسرائیل نے ان کے مغز میں چِپ (Chip) لگا رکھی ہے تاکہ وہ اس طرح کی باتیں کریں اور اس قسم کا متضاد اور متنازعہ موقف اپنائیں اور اس طرح کے فتوے دیں۔
العالم کے اینکر نے پوچھا: کیا اسرائیل کی طرف سے ان کے مغز میں چپ لگانے والی بات میں آپ سنجیدہ ہیں؟ تو انھوں نے کہا: ہاں میں سنجیدہ ہوں اور صہیونی اسرائیل سے کچھ بھی کرنا بعید نہيں ہے۔
اگست میں فوجی بغاوت کے بعد مرسی حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا تو میدان رابعۃ العدویۃ میں عوام کے قتل عام کے بعد قرضاوی نے کھا تھا کہ مصری فوج اسرائیلی فوج سے بھی بدتر ہے کیونکہ اسرائیلی فوج نے اس طرح کی کاروائیاں نھيں کی ہیں!! انھوں نے مصری افواج کو کمانڈروں کے خلاف بغاوت کی دعوت دی تھی جو اب بھی دے رھے ہیں۔
مصری افواج کے ناقابل قبول کردار پر جناب قرضاوی کی تنقید قابل قبول ہے لیکن سوال یہ ہے یک بام و دو ھوا کیوں؟ بحرینی عوام کے انقلاب کی مخالفت کیوں اور مصری عوام کے انقلاب کی حمایت کیوں؟ شام میں عوام کا قتل عام کیوں اور مصری عوام کے قتل پر اعتراض کیوں؟ عراق اور مصر اور بحرین میں سعودی دھشت گردوں کی طرف سے قتل عام کی حمایت اور قتل عام میں کردار کی تعریف کیوں اور اسی حال میں مصری حکومت کے ھاں میں ھاں ملانے پر آل سعود پر تنقید کیوں؟ یہ تضادات ہیں جو کسی فرد کی شخصیت و کردار کو لائق تنقید بناتے ہیں۔