www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

صدر اسلامی جمھوریہ ایران حجت الاسلام والمسلمین ڈاکٹر حسن روحانی نے آج کابینہ کے اجلاس کے بعد نامہ نگاروں کے

 ایک گروپ سے بات چیت کی اور اپنی تقریب حلف برداری میں 55 ممالک کے وفود ـ جن میں سے 11 وفود صدور کی سرکردگی میں اور باقی وزراء اور پارلیمانوں کے اسپیکروں کی کی سربراھی میں ایران آئے تھے ـ کی شرکت کی طرف اشراہ کرتے ھوئے کھا: ان وفود کے ساتھ رابطہ اور مذاکرہ در حقیقت اس حکومت کی بیرونی سفارتکاری کا آغاز اور بین الاقوامی سطح پر بھت مؤثر تھا۔
اسلامی جمھوریہ ایران کے صدر نے شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس میں اپنی شرکت کو دنیا کے ساتھ تعمیری تعامل کے سلسلے میں نئی حکومت کا دوسرا اھم قدم قرار دیتے ھوئے کھا: شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس میں ھماری کئی صدور مملکت اور متعدد وزائے خارجہ سے ملاقاتیں ھوئیں۔ خاص طور پر ھم نے روس اور چین کے صدور کے ساتھ بات چیت کی جو بھت اھم تھی۔ ان دو صدور کے ساتھ ملاقاتوں میں دو طرفہ تعلقات اور علاقائی اور بین الاقوامی مسائل پر بات چیت ھوئی اور چین کے صدور کے ساتھ ھمارے رابطے مسلسل جاری رھیں گے اور میرے نمائندے ان دو صدور کے نمائندوں کے ساتھ رابطے میں رھیں گے۔
صدر روحانی نے کھا: دنیا کے ساتھ تعمیری تعامل کے حوالے سے تیسرا اھم قدم اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں میری اور میرے وفد کے اراکین کی شرکت سے عبارت تھا؛ یہ قدم چند مراحل میں انجام پایا اور باقاعدہ سفارتکاری کے میدان میں کئی ملاقاتیں انجام پائیں۔
نیویارک کے دورے کے درمیان اٹھارہ ملاقاتیں انجام پائیں جن میں بین الاقوامی تنظیموں کے سربراھوں یا اھلکاروں سے ملاقاتیں، مختلف فورموں میں تقاریر، امریکی ذرائع ابلاغ کے سربراھوں کے اجلاس میں شرکت نیز امریکی مسلمانوں کے راھنماؤں کے اجلاس میں شرکت، شامل ہیں۔ ایک اجلاس امریکی خارجہ تعلقات کی کمیٹی اور امریکہ میں مقیم ایشیا سوسائٹی کے زیر اھتمام منعقد ھوا جس میں 300 مفکرین نے شرکت کی۔
صدر نے کھا: میں نے اس دورے میں جوھری موضوع، ایرانی قوم کی مظلومیت، غیر انسانی پابندیوں وغیرہ کے سلسلے میں ایرانی عوام کے حقوق پر زور دیا اور خصوصی و عمومی اجلاسوں میں بھی اس موضوع کو واضح کیا اور میرا خیال ہے کہ ایران وفد اس سلسلے میں کامیاب تھا۔
انھوں نے کھا: بھت سے ممالک کے حکام نے ایرانی وفد کے ساتھ ملاقات کا اھتمام کیا اور ان سب کا خیال تھا کہ ایران پر لگائی گئی پابندیاں غیرمفید ہیں اور بعض نے تو یھاں تک کہ کہ یہ پابندیاں غیرمنصفانہ ہیں؛ بعض نے ھماری اس بات کو بھی تسلیم کیا کہ یہ پابندیاں غیر انسانی ہیں چنانچہ حقیقت یہ ہے کہ عالمی حالات کا تقاضا ہے کہ ایران کے خلاف پابندیوں کو ختم کیا جائے۔
صدر نے ایرانی قوم کے حقوق کی وضاحت کرتے ھوئے کھا: اگلے قدم کے طور پر ملت ایران کے خلاف لگائی گئی ناحق پابندیوں کو اٹھانا چاھئے۔ اور اس حوالے سے زیادہ اقدامات عمل میں لانا چاھئے اور ھم اگلے مراحل میں ان پابندیوں کو اٹھا سکتے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ اس حوالے سے بڑے قدم اٹھائے گئے ہیں۔ اور وہ یوں کہ 1 + 5 کے کے وزرائے خارجہ کا اجلاس منعقد ھوا اور 1 + 5 کے کے تمام وزرائے خارجہ نے ایران کے جوھری حق کو تسلیم کیا۔ چنانچہ ھم نے قدم آگے بڑھایا دوسرا قدم یہ تھا کہ طے پایا کہ اگلے اجلاس میں ان موضوعات پر بحث ھوگی اور طے پائے گا کہ اگلا قدم اٹھانے کی کیفیت کیا ھونی چاھئے۔ اتفاق ھوا کہ اگلا اجلاس جنیوا میں ھوگا۔
انھوں نے کھا: دوسرا بڑا اور اھم مسئلہ یہ تھا کہ علاقے میں نئی جنگ کا سد باب کیا جائے۔ مسلمانوں کی جانوں اور ان کے خون اور اور ان کے حق حیات اور علاقے کا استحکام ھمارے لئے بھت اھم ہے۔ میں نے مختلف ملاقاتوں اور تقاریر میں علاقے کے امن و سلامتی پر زور دیا اور شام کے مسئلے پر بات چیت کی۔ دوطرفہ ملاقاتوں میں شام کے مسئلے کو زیر بحث لایا گیا۔
انھوں نے کھا: ہم اس حوالے سے بھی کامیاب رھے کیونکہ مذاکرات میں ھمارے فریقوں نے اعتراف کیا کہ نئی جنگ علاقے اور دنیا کے مفاد میں نھيں ہے۔ یورپی حکام سمیت جس جس سے بھی میری بات چیت ھوئی سب یک زبان کھہ رھے تھے کہ شام کے مسئلے کا کوئی فوجی راہ حل نھیں ہے اور سب تسلیم کررھے تھے کہ آخرکار شام کے مسئلے میں ھمیں عوامی رائے کا سھارا لینا پڑے گا اور کسی بھی بیرونی حکومت یا حکمران کو شام کے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا حق حاصل نھيں ہے۔ حتی امریکی وزیر خارجہ نے ھمارے وزیر خارجہ کے سامنے کھا کہ امریکہ کو یہ حق حاصل نھيں ہے کہ وہ شام کے مستقبل اور حکومت کے بارے میں فیصلہ کرے اور یہ اختیار صرف اور صرف شامی عوام کو حاصل ہے۔
صدر روحانی نے مزید کھا: ھماری کوشش تھی کہ جو ماحول اسرائیلی امریکہ میں بناتے ہیں اور جھوٹ بول کر گذشتہ برسوں میں اور میرے دورہ نیویارک سے پھلے، دورے کے دوران اور دورے کے بعد، انھوں نے جھوٹ کے ذریعے جو ماحول بنایا تھا، اس کو تبدیل کریں اور جب نیتن یاھو نیویارک جارھا تھا تو ھم نے چاھا کہ اس کے لئے حالات کو دشوار کردیں اور امریکی رائے عامہ کو ان مسائل کی طرف متوجہ کریں جو اسرائیل بیان کرتا ہے لیکن ان کا حقیقت سے کوئي واسطہ نھيں ہے۔ گوکہ اسرائیلی لابی امریکہ میں بھت طاقتور ہے وہ کانگریس میں اثر و رسوخ رکھتے ہیں؛ انھوں نے وھاں بھت کام کیا ہے اور اب ھمیں امریکہ میں ایرانی لابی کی جگہ پر کرنی پڑے گی۔
انھوں نے کھا: ھمیں کوشش کرنی پڑے گی کہ ایران کے موقف اور افکار کو امریکی عوام تک پھنچائیں اور میں سوچ رھا ھوں کہ امریکہ میں مقیم ایرانیوں کو اس سلسلے میں پھلا قدم اٹھانا پڑے گا۔ میں نے امریکی ایرانیوں کے ساتھ اپنی ملاقات میں یہ موضوع پیش کیا کیونکہ امریکہ میں مقیم ایرانی ھمارا ریڈیو اور ٹیلی ویژن اور ھماری صدا اور تصویر ہیں اور انھھیں ایران کے حقائق امریکیوں تک منتقل کرنے پڑیں گے۔
صدر نے کھا: ایک مسئلہ دھشت گردی اور شدت پسندی کے خطرے کا مسئلہ ہے ۔۔۔ اور جس سے بھی ھم نے بات کی سب نے تسلیم کیا کہ دھشت گردی اور تشدد پسندی ایک خطرہ ہے۔ میں نے تقریر میں کھا کہ دنیا کو شدت پسندی اور انتھاپسندی کا مقابلہ کرنا چاھئے اور میری باتوں کا خیر مقدم کیا گیا اور اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے بھی میرے ساتھ خصوصی ملاقات میں اس نکتے پر تاکید کی۔ دنیا سمجھ گئی ہے کہ شدت پسندی عالمی استحکام کے لئے اور دھشت گردی عالمی امن کے لئے ایک بڑا خطرہ ہے اور دنیا تسلیم کرتی ہے کہ اس سلسلے میں ھاتھ میں ھاتھ دے کر انتھاپسندی کا سد باب کرنا چاھئے۔
انھو نے کھا: ھم نے اس نکتے کو آگے بڑھایا کہ ھمارا موقف امن و آشتی، اعتدال پسندی اور عالمی یکجھتی اور پرامن بقائے باھمی ہے؛ ایک نکتہ ایران اور امریکہ کے درمیان تناؤ کم کرنے یا تناؤ کی شدت کا سدباب کرنے سے عبارت تھا۔ قبل ازیں میں نے اس حکومت کی پالیسیوں کے ضمن میں بیان کیا تھا کہ ھم امریکہ سمیت کسی بھی ملک کے ساتھ تناؤ میں شدت لانے کے حامی نھيں ہیں اور اگر ممکن ھو تو ھماری کوشش ھوگی کہ اس تناؤ کو کم کردیں؛ امریکی حکام کی مسلسل کوشش تھی کہ دو صدور کے درمیان ملاقات ھو اور اس سے قبل کہ میں امریکہ جانے کے لئے ایران سے روانہ ھوجاؤں اور دورے سے چند روز قبل مجھے ان کا پیغام موصول ھوا جس کا تعلق جمعہ سے تھا جبکہ میں پیر کے دن اس دورے پر گیا۔ ان کا دوسرا بھی اسی جمعے کو ملا اور ھفتے اور اتوار کے دن بھی مجموعی طور پر امریکیوں نے پانچ پیغامات بھیجوائے اور ھم نے ان پیغامات کا کوئی جواب نھيں دیا تھا اور میں نے وزارت خارجہ کے رفقاء سے کھا کہ نیویارک پھنچ کر اس سلسلے میں فیصلہ کروں گا اور جس رات ھم نیویارک پھنچے مزيد پیغامات موصول ھوئے اور بات چیت ھوئی اور آخر کار ملاقات انجام نہ پاسکی۔ کیونکہ تمام مسائلی کے سلسلے میں تفصیلات پر بحث کرنے کی فرصت نہ تھی۔
 

Add comment


Security code
Refresh