شام میں بدنام زمانہ دھشت گرد تنظیم کے ذیلی گروہ "دولۃالاسلامیہ في العراق والشام" (داعش) کا سرغنہ اور خطرناک دھشت گرد
محمد عمر الشیشانی ریف حلب میں میں مسلح کرد مدافعین کے خلاف لڑتا ھوا مارا گیا ہے۔
داعش کے دھشت گردوں نے کل ریف حلب کے دیھاتوں تل سلورہ، جلمہ، دیر بلوط، دیوا اور ملا خلیل پر غلبہ پانے کے لئے متعلقہ پھاڑیوں پر قبضہ کرنے کے لئے حملہ کیا۔
چندریس کے دیھی علاقے پر حملے میں داعش کے متعدد افراد عوامی دفاعی تنظیم کے کرد مجاھدین کے ھاتھوں مارے گئے؛ تا ھم مدافعین زیادہ تر ھلاکین اور زخمیوں کو لے کر فرار ھونے میں کامیاب ھوئے صرف دو لاشیں رہ گئیں جن میں سے ایک لاش داعش کے سرغنے محمد عمر شیشانی کی تھی جبکہ دوسری لاش وسطی ایشیا کے ایک دھشت گرد "ابو معاذ" کی تھی۔
باخبر ذرائع نے بتایا کہ عمر شیشانی عفرین کے کرد نشین شھر عفرین کے نواحی گاؤں تل سلورہ کے قریب کرد مدافعین کی گولیوں کی زد میں آکر ھلاک ھوگیا۔
عمر شیشانی چیچنیا میں القاعدہ کا سرغنہ تھا اور سینکڑوں افراد اس کی سرکردگی میں متحد تھے اور عمر اپنے ساتھیوں کے ھمراہ ترکی کی خفیہ ایجنسی کے توسط سے 2012 میں شام پھنچایا گیا تھا۔
ترک خفیہ ایجنسی چیچنیا اور مرکزي ایشیا سے دھشت گرد بھرتی کرکے انھيں شام کے شمالی علاقوں میں پھنچاتی ہے۔
عمر شیشانی ابتداء میں شام پھنچا تو جیش المھاجرین والانصار نامی دھشت گرد ٹولے سے جاملا جو جبھۃالنصرہ کا ذیلی گروپ تھا لیکن بعد ازاں وہ النصرہ سے جدا ھوا اور القاعدہ کی ذیلی تنظیم داعش میں شامل ھوا جو بجائے خود اس بات کا ثبوت ہے کہ جبھۃالنصرہ نامی تنظیم جو القاعدہ کی ذیلی تنظیم کے نام سے مشھور ھوئی ہے۔
درحقیقت اخوان المسلمین سے تعلق رکھتی ہے اور ترکی کی حکومت جو اخوانیت کی علمبردار ہے اس کی حمایت کرتی ہے جبکہ سعودی عرب داعش کی حمایت کرتا ہے اور ان دنوں شام میں داعش اور النصرہ کے درمیان مسلسل جھڑپیں ھورھی ہیں اور داعش چونکہ زيادہ مالی اور عسکری وسائل سے بھرہ مند ہے اسی لئے جبھۃالنصرہ اور فری سیرین آرمی کو ان سے مسلسل شکست کھانی پڑرھی ہے اور یہ جنگ درحقیقت آل سعود اور وھابیت کی جنگ ہے اخوان المسلمین کے خلاف۔ بھر صورت دوسرے محاذوں میں دھشت گرد ٹولوں کے ساتھ جنگ میں داعش کی کامیابیوں کے باوجود کرد علاقوں میں عوامی اتحاد کے خلاف انھیں مسلسل شکست کا سامنا ہے۔
وسطی ایشیا میں دھشت گردوں سے وابستہ ایک خبررسان گروپ نے کھا ہے کہ عمر الشیشانی 2000 افراد کا کمانڈر تھا اور اس کے گروپ میں وسطی ایشیا، ترکی، افغانستان اور پاکستان سے آئے ھوئے افراد شامل ہیں۔
دریں اثناء جبھۃالنصرہ کا چیف کمانڈر ابو سمیر بھی بم دھماکے میں ھلاک ھوگیا ہے لیکن اس حوالے سے کسی پر بھی الزام نھيں لگایا گیا ہے۔
تاھم کھا جاتا ہے کہ ایک بم دھماکے میں اس کی ھلاکت اس بات کا ثبوت ہے کہ جبھۃالنصرہ کے اندر بھی دراڑیں پڑ گئی ہیں اور اس کے متعدد افراد داعش کے لئے کام کرتے ہیں جبکہ داعش اعلانیہ طور پر النصرہ کے خلاف نبردآزما ہے۔