www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

 مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے زیراھتمام سیمینار بعنوان "شام کے خلاف اسلام دشمن قوتوں کی سازشیں " کا انعقاد کیا گیا۔

سیمینار سے رھبر مسلمین جھان حضرت آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای کے شام میں نمائندے آیت اللہ سید مجتبیٰ حسینی نے خصوصی خطاب کیا۔
سیمینار سے خطاب کرتے ھوئے آیت اللہ سید مجتبیٰ حسینی نے کھا کہ تاریخ انسانیت میں ھمیشہ حق و باطل صف آراء رھے ہیں۔ انھوں نے کھا کہ اس جنگ میں باطل نے ھمیشہ حق کا لبادہ اوڑھ کے اپنے باطل کی ترویج کی اور ھمیشہ چاھا کہ لوگوں کو حق کے ذریعے، حق کا نعرہ لگا کر غافل کر دے۔
انہوں نے مزید کھا کہ تاریخ میں بھت سے مواقع ایسے دیکھنے میں آئے کہ تحریکیں شروع ھوئیں، انھوں نے زور پکڑا، عوامی تبدیلیوں کے نعرے لگے لیکن ان سب کے پس پشت جو عوامل کارفرما رھے وہ یھی طاغوتی طاقتیں تھیں جنھوں نے ان انقلابات کے اندر شامل ھو کر اپنے ھی مقاصد کو کارفرما کیا۔
آیت اللہ سید مجتبیٰ حسینی کا کھنا تھا کہ عالمی استعمار و طاغوتی طاقتوں کی تمام تر سازشوں اور منصوبہ بندیوں کے باوجود دنیا نے اس صدی کا سب سے بڑا معجزہ انقلاب اسلامی ایران کی صورت میں دیکھا کہ جو ایک عادل، فقیہ، بابصیرت انسان یعنی حضرت امام خمینی (رہ) کے ھاتھوں انجام پایا۔ تمام تر سازشوں کے باوجود یہ تحریک آگے بڑھی اور حکومت کی تبدیلی کا باعث بنی۔
انھوں نے کھا کہ دشمن نے چاھا کہ اس انقلاب کو بھی ھائی جیک کر لے لیکن امام خمینی (رہ) کی بابصیرت قیادت اور ملت ایران کی شعور، فھم و بصیرت پر مبنی قربانیوں کے نتیجے میں یہ سازش کامیاب نھیں ھو سکی اور آج بھی ان اسلامی انقلاب رھبر معظم حضرت آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای کی قیادت میں تیزی سے آگے بڑھ رھا ہے۔
نمائندہ ولی فقیہ نے کھا کہ انقلاب اسلامی ایران کو دیکھ کر دنیا بھر کے مستعضفین نے حقیقی آزادی کو دیکھنا شروع کیا، اس لئے شرق و غرب کی طاغوتی طاقتیں اس انقلاب سے خوفزدہ ھونا شروع ھوئیں اور کوششیں کی کہ کسی طرح اس انقلاب کا راستہ روکا جائے، لیکن نہ تو استعمار اس اسلامی انقلاب کا راستہ روکنے میں کامیاب ھو سکا۔
آیت اللہ سید مجتبیٰ حسینی نے کھا کہ اسی انقلاب اسلامی کی ایک برکت حزب اللہ کی صورت میں لبنان کے اندر وجود میں آئی، جس نے تاریخ انسانیت میں ایک عظیم مقاومت کی داستان رقم کی اور خطے میں عالمی صھیونیت کی تمام سازشوں کو ناکام بنا دیا۔
سیمینار سے خطاب میں آیت اللہ سید مجتبیٰ حسینی نے کھا کہ گزشتہ سالوں میں عرب ممالک میں خصوصاَ مصر و تیونس میں اسلامی بیداری کی تحریکوں سے عالمی استعمار و طاغوت حقیقیت میں گھبرا چکے ہیں، انھوں نے اسے عرب اسپرنگ یا عرب بھار کا نام دینا شروع کیا تا کہ اس کے اسلامی چھرے کو قومیت میں ڈھال سکیں۔
انھوں نے ان جگھوں پر اسے ناکام بنانے کیلئے شدت پسندوں کو آگے لائے اور بعض جگہ لبرل ازم کے سامنے لائے تاکہ لوگوں کے ذھنوں میں اسلامی تبدیلی کے تصور کو بد ل دیں اور اس کام کیلئے شدت پسندوں کو آگے بڑھایا گیا۔ اسی پلاننگ کے تحت انھوں خطے میں شام کا انتخاب کیا جس کے تمام تر شواھد عام ھو چکے ہیں۔
ان کا کھنا تھا کہ استعمار و طاغوت کی جانب سے شام کے نشانہ بنانے کی خاص وجہ یہ بھی ہے کہ شام انقلاب اسلامی ایران کا شروع دن سے ساتھ دیتا چلا آ رھا ہے، حزب اللہ لبنان کی پشت پناھی کرتا ہے اور فلسطینی مزاحمتی و مقاومتی اسلامی تحریکوں کو شامی حکومت سپورٹ کرتی رھی ہے۔
آیت اللہ سید مجتبیٰ حسینی نے کھا کہ پھلے انھوں نے شام پر دباﺅ ڈالا کہ آپ ایران سے روابط ختم کریں، حزب اللہ کی حمایت ترک کریں اور شام میں فلطینیوں کے ٹریننگ کیمپوں کو بند کریں کہ جھاں فلسطینی آکر ٹرینگ کرتے ہیں اور اسرائیل کے خلاف جھاد کرتے ہیں۔ ان کا کھنا تھا کہ شامی حکومت نے جب عالمی استعمار کے اس دباﺅ کو مسترد کر دیا تو انھوں نے کوشش کی کہ کسی طرح عوام کو سڑکوں پر لا کر ایک عوامی تحریک کے ذریعے شامی حکومت کا خاتمہ کرکے اپنی من پسند حکومت شام پر مسلط کر دیں۔
انھوں نے مزید کھا کہ دشمن نے یھاں جو پھلی غلطی کی کہ وہ شام، وھاں کی عوام اور حکومت کی صحیح معنیٰ میں شناخت نھیں کر سکا، اسکے ساتھ ساتھ دشمن نے اپنی تدبیر اور منصوبہ بندی میں غلطی کی اور تیسری چیز جو شام کو بچانے کی وجہ بنی وہ یہ تھی کہ شامی حکومت کے پیچھے جو کار فرما افراد تھے وہ بھت بابصیرت و باشعور تھے اور شامی حکومت کو بھت زیادہ سپورٹ کرنے والے تھے۔
آیت اللہ سید مجتبیٰ حسینی کا کھنا تھا کہ دشمن یہ سمجھا کہ شاید بشار الاسد اور اس سے پھلے حافظ الاسد کے طولانی اقتدار سے شامی عوام پریشان ھو کر تبدیلی چاھتی ھوگی، اس نے اس قسم کے اقدامات اٹھائے۔ لیکن حقیقت میں تمام تر غلطیوں و خامیوں کے باوجود شامی حکومت کے صھیونی اسرائیل مخالف کردار، استعمار کے خلاف ڈٹ جانے اور شامی حکومت کی مقاومت نے اسے شامی عوام کے دلوں میں زندہ رکھا جس کی وجہ سے دشمن کو اپنے منصوبوں میں ناکام ھونا پڑا۔
آیت اللہ سید مجتبیٰ حسینی نے مزید کھا کہ دنیا میں تبدیلی کے تحریکوں عوام اپنے حقوق کی بات کرتی ہے مگر شام میں شروع میں ھی جو نعرے لگائے گئے وہ تفرقے پر مشتمل تھے، وھاں شیعیت کے خلاف نعرے لگائے گئے، عیسائیت کے خلاف نعرے لگے، علویوں کے خلاف نعرے لگے، کھیں پر بھی عوامی حقوق کی بات نھیں کی جاتی تھی بلکہ ھر جگہ تفرقہ پر مشتمل شرنگیزی کی جاتی تھی۔
انھوں نے کھا کہ عوامی تحریکوں میں لوگ خود پرجوش طریقے سے حصہ لیتے ہیں اور اپنے حقوق کی بات کرتے ہیں مگر شام میں جو لوگ سامنے آئے، جنھوں نے کام کیا انھیں تمام تر فنڈنگ بیرون ممالک سے ھوا کرتی تھی حتیٰ انھیں شام کے اندر کھیں سے بھی فنڈز نھیں ملتے تھے، شام مخالف ممالک نے انھیں فنڈنگ کی۔ لھٰذا شام میں حکومت مخالف گروہ کو نہ صرف کامیابی اور عوامی پذیرائی حاصل نھیں ھوئی بلکہ خود شامی عوام نے اس دھشت گرد گروہ کو اپنے لئے حقیقی خطرہ تصور کیا۔
آیت اللہ سید مجتبیٰ حسینی نے مزید کھا کہ یھی وجہ ہے کہ شامی حکومت کے خلاف تمام تر بیرونی فنڈنگ کے باوجود چند ھزار سے زائد لوگوں کے مظاھروں کا انعقاد نھیں ھو سکا مگر اس کے مقابلے میں شامی بشار حکومت کے حق میں دنیا نے لاکھوں افراد پر مشتمل شامی عوام پر مبنی ریلیاں دیکھیں۔
آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای کے شام میں نماندہ نے اپنے مرکزی خطاب میں کھا کہ شام مخالف دشمن ممالک کی تمام تر سیاسی، اقتصادی و دیگر حوالوں سے نقصان پھنچانے کی کوششوں کے باوجود شامی حکومت نے بھترین استقامت کا مظاھرہ کیا اور پھلے سے بھتر انداز میں آگے بڑھ رھی ہے خاص طور پر گزشتہ دو تین ماہ سے اپنے راستے پر بھترین انداز میں گامزن ہے۔
انھوں نے کھا کہ شام مخالف دشمن ممالک کی تمام تر سازشوں کی ناکامی کے پیچھے خداوند عالم کی تائید و نصرت ہے۔ ان کا کھنا تھا کہ اللہ تعالیٰ استقامت کو پسند فرماتا ہے اور چونکہ شامی بشار حکومت نے خطے میں صھیونی اسرائیل مخالف حقیقی اسلامی مزاحمتی تحریکوں کا ساتھ دیا، حزب اللہ کی حمایت کی، فلسطینی مزاحمتی تنظیموں کا ساتھ دیا لھذا پروردگار عالم نے بھی شامی حکومت کی استقامت پر اسکی تائید و نصرت فرمائی اور آج شامی حکومت بھتر انداز میں آگے بڑھ رھی ہے۔
سیمینار سے خطاب میں آیت اللہ سید مجتبیٰ حسینی نے کھا کہ صھیونی میڈیا نے بھرپور انداز میں شام میں شیعہ سنی لڑائی کا جھوٹا پروپیگنڈا کیا۔ اس جھوٹے پروپیگنڈا کے لئے یہ حقیقی مثال ھی کافی ہے کہ جب شام کے شھر حمص میں لڑائی شروع ھوئی تو وھاں سے دمشق ھجرت کرنے والی دو ھزار شیعہ تھے جبکہ گیارہ ھزار سے زائد اھلسنت افراد نے شامی حکومت کے مرکز دمشق میں پناہ لی۔ انہوں نے کہا کہ شواہد عام ہیں کہ شامی میں لڑائی کے باعث جو افراد ھجرت کر چکے تھے اب واپس آنے والوں اھلسنت افراد کی تعداد دیگر فرقوں کے مقابلے کھیں زیادہ ہے۔
آیت اللہ سید مجتبیٰ حسینی نے کا کھنا تھا کہ شام میں جس لڑائی کو شیعہ سنی رنگ دینے کی ناکام کوشش کی گئی یہ ایک خالصتاَ سیاسی مسئلہ ہے، جسے عالمی استعمار و استکبار و طاغوت نے بنایا، اسے اسلامی نقاب پھنانے کی کوشش کی گئی اور اس کیلئے ایک تکفیری گروہ کا وجود ایجاد کیا گیا جس کا نظریہ یہ ہے کہ ھمارے مخالف جو بھی آئے، جو بھی ھم سے اختلاف رکھتا ہے وہ واجب القتل ہے۔
جھاد النکاح کے شرمناک فتویٰ کے حوالے سے آیت اللہ سید مجتبیٰ حسینی نے کھا کہ شام کے معاملے میں سعودی مفتیوں نے ایسے فتاویٰ دیئے کہ جس پر ذرہ برابر بھی سوچا جائے تو معلوم ھو جائے کہ بات غلط ہے۔
انھوں نے کھا کہ وہاں باغیوں کو اس بات کی اجازت تھی کہ وہ تین تکبیر کھہ کر اپنے لئے ھر چیز کو جائز کر سکتے ہیں، حرام چیز آپ کیلئے حلال ھو جائے گی۔ لوگوں کی جان، مال حتیٰ کہ لوگوں کی ناموس بھی تین تکبیریں کھہ کر اپنے لئے حلال کر لیتے تھے۔
آیت اللہ سید مجتبیٰ حسینی نے مزید کھا کہ انہیں شرم آوار کاموں میں ایک انتھائی شرم آور کام کہ جس نے انسانیت کا سر شرم سے جھکا دیا وہ جھاد النکاح کے نام سے ایک فتویٰ تھا کہ جو ایک سعودی تکفیری شخص نے صادر کیا، اس میں حلال و حرام کی تمیز مٹا دی گئی، جس میں محرمیت کو ختم کر دیا گیا۔
انھوں نے اس حوالے سے مزید کھا کہ اس شرمناک فتویٰ کی رو سے شام میں نام نھاد جھادیوں پر یہ جائز قرار دیا گیا تھا کہ شادی، عقد و نکاح کے مسائل کو بالائے طاق رکھتے ھوئے ایک خاتون کے ساتھ بغیر کسی عدت کے ایک ھی ھفتے میں کئی مرد شادی کر سکتے تھے۔ اس کے علاوہ کئی ایسے شرمناک فتاویٰ صادر کروائے گئے کہ جس کو ھم شرم سے بیان بھی نھیں کر سکے۔
شام کے موضوع پر منعقدہ سیمینار سے اپنے خطاب میں آیت اللہ سید مجتبیٰ حسینی نے مزید کھا کہ شام میں معترضین کا جو گروہ تھا اگر اس کو شامی اپوزیشن کا نام بھی دے دیا جائے، جو حکومتی پالیسیوں کو قبول نھیں کرتا تھا، شامی حکومت نے انکا مقابلہ کئے بغیر، انکی رائے کے نتیجے میں قوانین تک میں تبدیلیاں کیں۔ انھوں نے کھا کہ شام کا ایک بنیادی و اساسی قانون تھا کہ وھاں ایک ھی حزب ھو گی جس کو حکومت کا حق حاصل ھوگا، اس میں تبدیلی کی گئی اور دیگر تنظیموں کو حکومت میں آنے کا حق دیا گیا۔ انھوں نے اس حوالے سے مزید کھا کہ دوسری بڑی تبدیلی اساسی قانون کہ جس کی رو سے شامی صدر تاحیات صدر رہ سکتا ہے اس میں تبدیلی کی گئی اور ایک شخص دو مرتبہ صدارت کے عھدے کیلئے منتخب ھو سکتا ہے اس سے زیادہ نھیں، تبدیلی لائی گئی۔
آیت اللہ سید مجتبیٰ حسینی نے مزید کھا کہ یہ تمام تبدیلیاں بشار حکومت پھلے ھی کر چکی تھی۔ اس حوالے سے شام میں معترضین کے ساتھ مزاکرات کئے گئے، گفتگو بھی کی گئی جسے ذرائع ابلاغ پر کئی بار دکھایا بھی گیا، حکومتی کابینہ تک میں ان معترضین کو لیا گیا۔ اس کے بعد جن گروہ نے مسلح کارروائیاں شروع کیں انھیں بات کرنے کی دعوت دی گئی، مل کر کام کرنے کی بات کی گئی، اسلحہ رکھنے کی صورت میں معافی کا کھا گیا۔
انھوں نے مزید کھا کہ حکومت نے معترضین اور دھشت گردوں کے سامنے تواضع کا مظاھرہ کیا لیکن چونکہ یہ منصوبہ بندی بیرون ممالک تیار کی گئی تھی جسکا ھدف نہ تو جمھوریت تھی، نہ جمھوریت کا ارتقاء تھا اور نہ عوامی خواھشات کا احترام تھا بلکہ اس کا مقصد اس نظام کو ختم کرنا تھا، بشار الاسد کی حکومت کو گرانا تھا۔ اسی لئے بشار حکومت نے انکی خواھشات پر ملکی اساسی قوانین میں جو تبدیلیاں کیں انھوں نے اسے بھی ملحوظ خاطر نھیں رکھا اور باغی دھشت گرد گروہ کی حمایت سے اپنا ھاتھ نھیں کھینچا۔
اپنے خصوصی خطاب میں آیت اللہ سید مجتبیٰ حسینی نے کھا کہ باغی دھشت گردوں کے عوامی مظالم پر شامی عوام میں مقاومت کی ایک لھر بیدار ھوئی، شامی عوام نے انتظامات اپنے ھاتھ میں لئے، عوام نے حکومت کی حمایت میں جھادی و عسکری گروہ بنائے، اسلحہ اٹھایا اور باغی دھشتگردوں کا مقابلہ کیا تو اس کے بعد عوامی مقاومت کا ایک نیا چھرہ سامنے آیا اور اس وقت شام کے اکثر علاقے دشمنوں کے تجاوز سے محفوظ ہیں۔
ان کا کھنا تھا کہ شامی عوام نے بشار حکومت اور فوج کی مدد سے باغی گروہ کا مقابلہ کیا اس وجہ سے باغیوں کی شدت میں کمی آئی اور انھیں علاقوں سے باھر نکلنا پڑا۔
آیت اللہ سید مجتبیٰ حسینی نے کھا کہ یھی وہ موقع تھا کہ عالمی استکباری، استعماری و طاغیتی قوتوں نے اس بات کو محسوس کیا کہ عوام بشار حکومت اور اسکی فوج کے ساتھ ہے لھٰذ ا اسے نے ایک بار پھر پوری کوشش کی کہ کسی طرح اس معاملے کو باغیوں کے حق میں ختم کرایا جائے۔ اسکے بعد شام میں ایسے واقعات رونما ھونا شروع ھوئے کہ جس سے شام میں بیرونی مداخلت کی ھموار کرنے کا راستہ ھموار کیا جائے۔
امریکا نے ایک جنگی محاذ کھڑا کرنے کی کوشش کی اور اعلان کیا کہ امریکا خود اس جنگ میں کودنا چاھتا ہے۔ آیت اللہ سید مجتبیٰ حسینی نے کھا کہ بشار حکومت پر الزام لگایا گیا کہ اس نے اپنی عوام پر کیمیائی ھتھیار استعمال کئے۔ لیکن کیمیائی ھتھیار کے استعمال کے جو شواھد دنیا کے سامنے آئے وہ باغیوں کی جانب سے استعمال کرنے کے حوالے سے آئے۔ انھوں نے کھا کہ شامی حکومت نے یھاں بھی عالمی ایٹومک انرجی کمیشن کو دعوت دی کے آ کر کیمیائی ھتھیاروں کے استعمال کا معائنہ کریں۔ شامی حکومت نے شواھد بھی دینے کا کھا کہ یہ ھتھیار استعمال ضرور ھوئے ہیں لیکن باغیوں کی طرف سے ھوئے ہیں۔ لھذا دنیا کے سامنے یہ بات کھل کر سامنے آ گئی کہ شامی عوام پر کیمیائی ھتھیار باغیوں نے استعمال کئے۔
آیت اللہ سید مجتبیٰ حسینی نے مزید کھا کہ دشمن نے یھاں بھی غلطی کی کہ یہ کیسے ھو سکتا ہے کہ شامی حکومت خود دنیا بھر سے کیمیائی ھتھیاروں کے ماھرین کو بلائے، عالمی ایٹمی ادارے کو بلائے اور پھر ان کی موجودگی میں بجائے باغیوں کے علاقوں کے اپنے فوجی کنٹرول کے علاقے میں اپنی ھی عوام پر کیمیائی ھتھیاروں کا استعمال کرے۔ انھوں نے مزید کھا کہ اس موقع پر بھی پھر امریکا نے عجلت میں شام پر حملے کرنے کا اعلان کرکے غلطی کر دی مگر پھر اسکا دو گھنٹے میں حملہ کرنے کا اعلان دنوں، ھفتوں میں تبدیل ھو کر تاخیر کا شکار ھو کر صرف دھمکیوں تک محدود ھوگیا اور یھاں بھی امریکا کو پسپائی اختیار کرنا پڑی۔
آیت اللہ سید مجتبیٰ حسینی نے کھا کہ پھر امریکا نے دنیا بھر میں اپنی جگ ھنسائی کے بعد شام پر محدود حملے کا اعلان کیا مگر یھاں بھی اسے پسپائی کا سامنا کرنا پڑا اور پھر اس نے جنگ کا ارادہ تبدیل کر دیا۔
آیت اللہ سید مجتبیٰ حسینی نے مزید کھا امریکا نے شام پر حملے کے ارادے سے پیچھے ھٹنے کا فیصلہ کسی انسانی بنیادوں پر نھیں کیا بلکہ اس کے پیچھے اسرائیل کی نابودی کے خطرے کا خوف ہے۔ انھوں نے کھا کہ امریکا اور اسرائیل جانتے ہیں کہ شام پر امریکی حملے کی صورت میں صھیونی اسرائیل، جسے شیشے کا محل تعبیر کیا جاتا ہے وہ شامی میزائیلوں اور حزب اللہ کے حملوں کے نتیجے میں نابود کر دیا جائے گا۔
 

Add comment


Security code
Refresh