"میں درحقیقت اس رپورٹ سے متاثر ھوا، جب یہ شائع ھوئی"، "اس کے باوجود کہ اس رپورٹ اور عراق میں وسیع تباھی پھیلانے والے
ھتھیاروں کے رسوائے زمانے منظرنامے کے درمیان شباھت کے باوجود، میرا تاثر اس رپورٹ کے سلسلے میں ـ اس وقت کی نسبت بالکل مختلف ہے ـ جب میں اس پر معترض تھا"۔ "امریکی انٹیلجنس سوسائٹی میں 2003 کی نسبت بڑی تبدیلیاں آئی ہیں، اوباما بھی ھرگز مشرق وسطی میں فوجی مداخلت کے لئے تیار نظر نھيں ہیں، اور یہ مسئلہ اس رپورٹ کی صحت و اعتبار میں اضافہ کرتا ہے"۔
یہ ھتھیار کنٹرول ایسوسی ایشن کے مشھور ٹل مین، کے جذبات تھے جن کا اظھار انھوں نے شام کے کیمیاوی ھتھیاروں کے سلسلے میں اوباما انتظامیہ کی 4 صفحات پر مشتمل رپورٹ پر کیا تھا۔ یہ جذبات اس لحاظ سے بھت ہیں کہ اس کا مقصد امریکی رائے عامہ کو اوباما کی تجویز سے اتفاق کے لئے تیار کرنا تھا جبکہ گیلپ سروے کی رپورٹ کے مطابق 51 فیصد امریکی اس حملے کے خلاف تھے اور صرف 36 فیصد نے اس کی حمایت کی تھی۔ البتہ گیلپ کو یاد ھوگا کہ اس سے بھی زيادہ غیرپیشہ ورانہ منظرنامے نے عراق کے سلسلے میں 59 فیصد لوگوں کے ووٹ حاصل کئے تھے اور اور اس سے پھلے 11 ستمبر کے بدولت افغانستان پر حملے کے لئے 82 فیصد امریکیوں نے حملے کے موافق رائے دی تھی۔ چنانچہ اندرونی رائے عامہ کے حوالے سے نامناسب حالات کو مناسب بنانے کے لئے کانگریس اور اقوام متحدہ جیسے اوزاروں کو استعمال کیا جاتا ہے تاکہ امریکی رائے عامہ جنگ پسندوں کا ساتھ دیں۔
اب دیکھتے ہیں کہ چار صفحاتی رپورٹ کیا ہے؟
یہ دستاویز سی آئی اے کی رپورٹ کا اعلانیہ اور غیر مرتب شدہ (Unclassified) متن کا خلاصہ ہے جس پر "اعتماد کی سطح "اعلی" (level of confidence, High)" کی مھر لگی ھوئی ہے جس کا مفھوم یہ ہے کہ امریکی انٹیلجنس اس رپورٹ کی قطعی طور پر تائید کرتی ہے اور یہ کہ صدر اسد ھی 21 اگست کے کیمیاوی حملے کے ذمہ دار ہیں۔ اس دستاویز میں کھا گیا ہے:
"ھم اعلی درجے کے اعتماد کے ساتھ اندازہ لگاتے ہیں کہ شام کی حکومت نے چھوٹی سطح پر ـ دمشق کے نواح سمیت ـ کیمیاوی ھتھیار استعمال کئے ہیں"۔
"حکومت شام نے دمشق کے نواحی علاقوں کو ـ جو مخالفین کے زیر استعمال ہیں ـ صاف کرنے کے لئے وسیع کوششوں کا آغاز کیا ہے اور کئی ٹھکانوں کو خالی کرانے میں اسے کامیابی بھی ملی ہے ان ھی علاقوں میں وہ علاقہ بھی شامل ہے جو 21 اگست کو حملے کا نشانہ بنا"۔
"ھمارے پاس ایسی معلومات ہیں جن سے معلوم ھوتا ہے کہ شام کی کیمیاوی یونٹوں کے اھلکار حملے سے چند روز قبل کیمیاوی ھتھیار تیار کررھے تھے۔۔۔ وہ 18 اگست سے 21 اگست تک دمشق کے نواح میں "آدرا" کے علاقے میں جو حملے کے موقع کے قریب ہے، مصروف عمل تھے"۔
"شواھد سے معلوم ھوتا ہے کہ شامی حکومت نے 21 اگست کی صبح کو دمشق پر توپخانے اور مارٹرز کے حملے کئے ہیں۔ سیٹلائٹ کے مشاھدات سے معلوم ھوتا ہے کہ یہ حملے حکومت کے زیر کنٹرول علاقوں سے ھوئے ہیں اور بطنا، جوھر۔ عین ترما، درایا اور محمدیہ کے علاقے پر بھی کیمیاوی حملے ھوئے ہیں اور ان میں وہ حملہ بھی شامل ہے جو حکومت کے زیر کنٹرول علاقوں سے ھونے والے حملوں کی خبر کی اشاعت سے 90 منٹ پھلے انجام پایا تھا۔ مذکورہ مشاھدات سے معلوم ھوتا ہے کہ اس علاقے میں کوئی پرواز نھيں ھوئی اور حکومت نے میزائل اور مارٹر حملے کئے"۔
"چار گھنٹوں کے دوران صبح اڑھائی بجے کی پھلی رپورٹ کے مطابق، نواح کے بارہ علاقوں سے ھزاروں اخباری رپورٹیں موصول ھوئی ہیں جن میں سے بعض میں کھا گیا ہے کہ کیمیاوی حملہ کیمیاوی مواد سے بھرے گئے مارٹر شیلوں کے ذریعے کیا گیا اور یہ شیل مخالفین کے زیر قبضہ علاقوں پر گرے"۔
"ھم نے چوری چھپکے( (Eavesdropping کے ذریعے اعلی حکام اور کیمیاوی یونٹ کے اھلکاروں کے درمیان ھونے والا مکالمہ سنا ہے جس سے اس حملے کی تائید ھوتی ہے اور بین الاقوامی معائنہ کاروں کی رسائی کے حوالے سے فکرمندی کا اظھار ھوتا ہے، ھمارے پاس ایسی اطلاعات ہیں جن سے معلوم ھوتا ہے کہ شامی حکومت نے 21 اگست کی شام کو کیمیاوی حملے بند کرنے کی ھدایت کی ہے اور اسی اثناء میں حکومت نے کیمیاوی ھتھیاروں کا نشانہ بننے والے علاقوں کو بھاری توپخانے کی گولہ باری کا نشانہ بنایا ہے۔ 24 گھنٹوں کے دوران توپخانے اور مارٹرز کے یہ حملے سابقہ 10 دنوں کے دوران حملوں کی نسبت چار گنا زیادہ بھاری اور شدید تھے۔ یہ گولہ باری 26 اگست کی صبح تک جاری رھے ہیں۔"۔
"اس حوالے سے مزید معلومات بھی جو مذکورہ معلومات کی تائید و تصدیق کرتی ہیں جن کو اطلاعات، ان کے ذرائع اور روشیں خفیہ رکھنے کی غرض سے خفیہ رکھا جاتا ہے اور انھیں کانگریس اور بین الاقوامی حلیفوں کو پیش پیش کیا جائے گا"۔
چور کی داڑھی میں تنکا
سی آئی اے نے بھت زیادہ زحمت کی تھی لیکن قرائن اور شواھد سے معلوم ھوتا ہے کہ بھت سے ماھرین نے ٹل مین کی طرح، سی آئی کے کوڈز کو سنجیدہ نھیں لیا ہے۔ اور رابرٹ فسک جیسے ماھرین ـ جنھوں نے عراق کے وسیع پیمانے پر تباھی پھیلانے والے ھتھیاروں کی تلاش کے لئے مختلف علاقوں اور ٹھکانوں کو چھان مارا ہے اور اس قدر سی آئی کی طرف سے رپورٹس کی اشاعت اور حتی کہ عدم اشاعت سے دھوکا کھاتے رھے ہیں کہ ـ اب وہ سی آئی اے کی ان رپورٹوں کو کسی طور پر بھی قابل قبول نھيں سمجھتے"۔ اس حوالے سے اھم سوال یھی ہے کہ امریکہ ـ جس کو 3 روز قبل معلوم ھوچکا تھا کہ شامی فوج کے اھلکار کیمیاوی ھتھیاروں سے حملہ کرنے کی تیای کررھے ہیں ـ تو اس نے اس دوران کوئی اقدام کیوں نھيں کیا یا دنیا کو آگاہ کیوں نھيں کیا اور ھلاکتوں کا سد باب کیوں نھیں کیا؟
اس جعلی رپورٹ میں کھا گیا ہے کہ حملے میں 1429 افراد مارے گئے ہیں جس کی وجہ سے رپورٹ کی حقیقت مشکوک ھوئی ہے اور کھا جارھا ہے کہ رپورٹ لکھنے والے ناقابل اعتماد ہیں۔ کیونکہ اس رپورٹ کا موازنہ دوسری رپورٹوں کے ساتھ کرایا جائے تو اس میں مبالغہ آرائی واضح ھوجاتی ہے۔ مثال کے طور پر حملے کی سازش میں امریکہ کا ساتھ دینے والے ملک فرانس کی رپورٹ میں کھا گیا ہے کہ 100 کے قریب افراد مارے گئے ہیں اور امریکہ و یورپ اور عرب و اسرائیل کے زیر سرپرستی دھشت گردوں نے رپورٹ دی ہے کہ 179 افراد مارے گئے ہیں۔ برطانیہ سمیت اس سازش میں امریکہ کا راستہ صاف کرنے والی بین الاقوامی انسانی حقوق کی تنظیموں اور بغیر سرحد کے ڈاکٹروں کی تنظیم نے بھی فرانسیسی رپورٹ کی تصدیق کی ہے۔ اگر ھم قبول کریں کہ یہ رپورٹیں درست ہیں اور 100 سے 179 تک افراد سرکار کے کیمیاوی حملے میں مارے گئے ہیں تو یہ سوال اٹھتا ہے کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک حکومت دنیا بھر کو اپنے خلاف لاکھڑا کرکے اتنے سے دھشت گردوں کو مارنے کے لئے ایٹمی حملے کرے؟ یا حتی اس تعداد کا چار یا پانچ گنا کرنے کے لئے امریکی حملوں کا خطرہ مول لے؟؟!
نیز مغربی ذرائع عراق کے مسئلے میں سرگرم رھنے والے اقوام متحدہ کے کیمیاوی ھتھیاروں کے ایک معائنہ کار کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ یہ رپورٹ بالکل ان ھی رپورٹوں کی طرح ہے جو 2003 میں عراق کے بارے میں شائع کی گئیں۔ اس معائنہ کار نے اپنا نام فاش نہ ھونے کی شرط پر کھا ہے: میں نے جمعہ کے روز اس رپورٹ کو دیکھا تو مجھ پر غم اور اداسی کی سی کیفیت طاری ھوئی؛ اس رپورٹ میں یہ نھيں کھا گیا ہے کہ شامی فوج کے استعمال کردہ کیمیاوی مواد کی نوعیت کیا ہے؟ جس سے معلوم ھوتا ہے کہ رپورٹ کے شواھد اور ثبوت بالکل قابل قبول نھیں ہیں اور ان کی بنیاد پر کوئی فیصلہ نھيں کیا جاسکتا۔
بدگمانیوں کا سلسلہ یھیں رکتا نھیں ہے۔ 20 اگست کو ترکی کے راستے ٹینک شکن ھتھیاروں، انفرادی ھتھیاروں اور گائیڈڈ میزائلوں پر مشتمل 400 ٹن فوجی ساز و سامان شام میں دھشت گرد ٹولوں تک پھنچایا گیا۔ اتنا بڑا فوجی سازوسامان شام میں شر انگیزیوں کے آغاز سے آج تک دھشت گردوں تک نھيں پھنچا تھا؛ اس حقیقت کے ساتھ یہ معلومات بھی ملا دیں کہ امریکہ، قطر اور ترکی کے انٹیلجنس افسران نے متعدد بار شام کے اندر میدان جنگ میں دھشت گردوں کے سرغنوں کے ساتھ ملاقاتیں کی ہیں۔ ان ملاقاتوں کے اوقات کا جائزہ لیا جائے تو ظاھر ھوتا ہے کہ امریکیوں کو 21 اگست کے واقعے کی پیشگی اطلاع تھی یا پھر یہ حملہ دھشت گردوں نے امریکہ کی مرضی سے ھی کیا تھا۔
ایک ابھام بغیر سرحد کے ڈاکٹروں (Doctors Without Borders/Médecins Sans Frontières [MSF]) نے امریکی دعوے میں بھر دیا۔ جان کیری نے ان ذرائع کا نام لیا تھا جنھوں نے بقول ان کے اس بات کی تصدیق کی تھی کہ حملہ شام کی حکومت نے کیا ہے۔ چنانچہ ڈاکٹروں کی مذکورہ تنظیم نے اپنے ایک بیان کے ضمن میں واضح کیا کہ ایم ایس ایف" اس بات کا تعین کرنے کی اھلیت نھيں رکھتی کہ استعمال ھونے والی گیس "سیرین Sarin تھی تاھم نشانہ بننے والے افراد کے زخموں سے معلوم ھوتا ہے کہ ان زخموں کا سبب نیوروٹیکسین (Neurotoxin) ہے۔ اس کا مفھوم یھی ہے کہ کوئی بھی دستاویز موجود نھيں ہے جو فنی حوالے سے ثابت کرسکے کہ جو گیس استعمال ھوئی ہے وہ صرف حکومت شام کے پاس ہے اور دوسرے کسی شخص یا گروپ تک نھیں پھنچائی جاسکتی۔
اور پھر دھشت گردوں نے خود زور دے کر کھا تھا کہ استعمال ھونے والی گیس بھت زيادہ بدبو تھی جس سے معلوم ھوتا ہے کہ یہ گیس دستی طور پر تیار کردہ سیرین ہے جس کی تیاری کے اوزار اور آلات ایک سال قبل ترکی نے دھشت گردوں کو فراھم کئے تھے اور جو سیرین گیس ـ کھا جاتا ہے کہ شام کی حکومت کے پاس ہے ـ اس سے کسی قسم کی بو نھیں آتی۔ کچن سیرین کی تیاری کے لئے اوزار اور مواد کی زیر زمین سرنگوں میں موجودگی اور اس مواد کی ترکی سے دھشت گردوں کو منتقلی کی رپورٹس اور دوسرے شواھد نے مکمل طور پر واضح و آشکار کردیا کہ اس قسم کی گیس شام دشمن دھشت گردوں نے استعمال کیا ہے اور استعمال کرتے رھے ہیں۔
اور یہ جو امریکیوں نے کھا ہے کہ "ھم نے چوری چھپکے شامی حکام اور کیمیاوی حملہ کرنے والے اھلکاروں کے درمیان ھونے والا مکالمہ سنا ہے اعلی حکام اور کیمیاوی یونٹ کے اھلکاروں کے درمیان خفیہ گفتگو سن لی ہے جس سے۔۔۔"؛ تو اس کے بارے میں ڈیلی کالر (Daily Caller) نامی ویب سائٹ نے امریکہ کی مبینہ دستاویزات تک رسائی رکھنے والے چند اعلی افسروں کے حوالے سے انکشاف کیا کہ درحقیقت Eavesdropping کا یہ کام اسرائیل کی 8200 الیکٹرانک یونٹ نے انجام دیا ہے اور ریکارڈ کے مختلف کلپوں کو تحریف آمیز انداز سے جوڑ دیا گیا ہے۔ یہ ایڈیٹ شدہ یا تحریف شدہ رپورٹ سب سے پھلے صھیونی ٹی وی کے چینل دو نے نشر کی تھی اور دعوی کیا گیا تھا کہ کیمیاوی حملہ ماھر اسد کی ھدایت پر کیا گیا ہے حالانکہ Eavesdropping کی اصل رپورٹ کا متل اس دعوے سے تضاد رکھتی ہے۔
جو آوازیں ریکارڈ کی گئی ہیں وہ کچھ یوں ہیں:
"کمانڈنگ اسٹاف کا افسر ایک افسر سے توپخانے کے ذیلی کمانڈے کے بارے میں پوچھتا ہے کہ وہ حملے میں موجودتھا؟ مکالمے کے لب و لھجے سے معلوم ہے کہ مرکزی کمانڈ کے افسران ماھر کے بریگیڈ کے کسی ممکنہ خودسرانہ حملے سے خائف ہیں لیکن کمانڈر فیصلہ کن انداز سے جواب دیتا ہے کہ اس بریگیڈ نے کوئی میزائل نھیں داغا ہے"۔ رپورٹ میں یہ بھی کھا گیا ہے کہ اس کمانڈر سے تین دن تک تفتیش ھوئی ہے لیکن جب مرکزی کمانڈ کو یقین ھوجاتا ہے کہ بریگیڈ کے پاس موجود ھتھیار بےجا استعمال نھيں ھوئے اور اپنی جگہ موجود ہیں تو اس کو اپنی یونٹ میں بھجوا دیا جاتا ہے۔ یہ غلطی اس قدر بڑی تھی کہ چار صفحاتی رپورٹ کی اشاعت سے پھلے بعض ذمہ داری امریکیوں نے متعلقہ پیراگراف کو حذف کرنے کا فیصلہ کیا تھا لیکن بظاھر انھیں ایسا کرنے کی اجازت نھیں ملی تھی۔
اور گذشتہ مارچ کے مھینے میں جب حلب میں دھشت گردوں نے کیمیاوی ھتھیار استعمال کئے تو امریکہ نے الزام حکومت شام پر لگایا اور جب اقوام متحدہ کے معائنہ کاروں نے موقع کا معائنہ کیا تو انھوں نے اعلان کیا کہ یہ ھتھیار دہشت گردوں نے استعمال کئے ہیں۔ گو کہ امریکہ، اسرائیل، ترکی اور بعض عرب حکمرانوں کی طرف سے دھشت گردوں کی مدد جاری رھی اور کسی نے کی بازپرس کرنے کی ضرورت محسوس نھیں کی۔
چنانچہ اگر ھم ماضی کے کردار اور شام کے بحران کے فریقوں کے پس منظر کو بھی مدنظر رکھنا چاھیں تو وہ بھی امریکہ اور اس کے حمایت یافتہ دھشت گردوں کے نقصان میں جاتا ہے۔ اس جعل سازی کی ایک خصوصیت بھی ہے اور وہ یہ کہ اس بار دھشت گردوں نے ماضی کی مانند کیمیاوی ھتھیار استعمال کرکے انھیں اپنے زیر قبضہ علاقوں میں نھيں پھینکا تھا گوکہ یہ دعوی بھی قابل غور ہے کہ 21 اگست کے دن غوطہ شرقیہ پر کیمیاوی حملہ ھوتے وقت، یہ علاقہ سرکاری فورسز کے کنٹرول میں تھا کیونکہ اس سے پھلے شامی ذرائع نے کھا تھا کہ یہ علاقہ انھوں نے دہشت گردوں سے واپس لیا ہے۔
اور ھاں! یہ علاقہ تزویری لحاظ سے جس قدر بھی اھم ھو، نہ حملے کا وقت، نہ دھشت گردوں کی اس علاقے پر شدت اور نہ ھی یہ خاص زمانہ، اس قدر بڑا خطرہ مول لینے کا متقاضی نہ تھا کہ اسد کی حکومت کیمیاوی ھتھیاروں کا سھارا لے سکے۔ یہ خاکہ کشی اس قدر بچہ گانہ تھی کہ حتی اسد مخالف کرد جماعت PYD، اعتراف کرتی ہے کہ اس کے باوجود کہ اسد حکومت کے پاس کیمیاوی ھتھیار موجود ہیں لیکن وہ اس قدر احمق نھیں ہے کہ کیمیاوی ھتھیاروں کے ھیڈکوارٹر سے صرف 5 کلومیٹر کے فاصلے پر ان ھتھیاروں کو استعمال کرے۔
اب سوال یہ ہے کہ اگر اس واقعے میں واقعی کوئی ابھام نھیں ہے تو اوباما انتظامیہ شام پر حملہ کرنے کے سلسلے میں اس قدر جلدبازی سے کیوں کام لے رھی ہے۔ اس عجلت زدگی کا اھم ترین نتیجہ متعلقہ شواھد کے یکے بعد دیگرے ناپید ھونے کی صورت میں برآمد ھوسکتا تھا اور دوسرا نتیجہ جو برآمد بھی ھوا، اقوام متحدہ کے معائنہ کاروں کا شام سے چلا جانا تھا؛ اور قانونی لحاظ سے یہ سب اصل مجرم کے مفاد میں ھوسکتا تھا۔ شاید یہ ھمارا حق ہے کہ اس بات میں شک کریں کہ کیا حکومت شام کے مخالفین کی حالت اس قدر افسوسناک حد تک کمزور ھوچکی ہے کہ اس نے حکومت کو بدنام کرنے کے لئے خودکشی کا سھارا لیا ہے! اس گتھی کو سلجھانا مشکل نھیں ہے اور منطقی منظرنامہ موجود ہے۔
بشار الاسد پرکیمیاوی حملے کے ذریعے ڈیڑھ ھزار افراد کے قتل کا الزام، حلبی شام اور دمشقی شام کے منصوبے پر دستخط کرنے کے برابر ہے۔ یہ وہ منصوبہ ہے جو سعودی ترکی اتحاد نے جنیوا 2 کانفرنس میں پیش کرنے کے لئے تیار کیا ہے اور اس میں شام کو دو حصوں میں تقسیم کرنا مقصود ہے۔ شمالی ملک شام کے گنجان آباد ترین شھر حلب کو غنیمت کے عنوان سے اپنا دارالحکومت بنائے گا اور اس مجوزہ ملک کو ترکی کی جنوبی سرحدوں سے ملا دیا جائے گا، جو جنت ھوگی تکفیری دھشت گردوں کے لئے، محبوبہ ھوگی بندر بن سلطان بن عبدالعزیز آل سعود کے لئے؛ اور جنوبی شام وہ ھوگا جس کو کمزور کیا گیا ہے، اس کی تذلیل کی گئی ہے اور اس کو اس قدر کمزور کیا گیا ھوگا کہ مزید وہ اسرائیل کے لئے تزویری خطرہ شمار نہ کیا جاسکے گا اور حزب اللہ اور ایران کے حلقے میں اھم کڑی کی حیثیت کھوگیا ھوگا۔ یہ خواب ہے امریکہ، اسرائیل اور آل سعود کا۔
حتی ضروری بھی نھیں ہے کہ خودزنی اور خودکشی زیادہ سنجیدہ ھو۔ اسد اس سے پھلے فضائیہ اور توپخانے کے حملوں میں بیک وقت 50 کے قریب دھشت گردوں کو ھلاک کرتے رھے ہيں۔ اتنا ھی کافی ہے کہ دھشت گرد سرگرمی دکھا کر اپنی ھلاکتوں کو 3 تا 4 گنا تک بڑھا دیں اور پھر انھيں الجزیرہ، العربیہ اور مغربی چینلوں کے ذریعے چھ گنا ھلاکتوں تک بڑھا دیں اور اپنے ھاتھوں مرنے والے افراد کی دلدوز تصاویر بنا کر عالمی رائے عامہ کے سامنے پیش کریں؛ اگر سلفی درندوں کے نازک دل خودکشی میں رکاوٹ بنے یا وہ اپنی صفوں میں شامل دھشت گردوں پر شفقت کریں اور انھيں نہ مار سکیں تو بندر بن سلطان موجود ہیں وہ اپنے بندری منصوبے لے کر آئیں گے؛ ضروری نھيں ہیں کہ مظلوم دھشت گرد جان لیں کہ جو گولے ان پر پھینکے جارھے ہیں وہ کیا ہیں اور کس کی طرف سے آرھے ہیں؛ بس اتنا ھی کافی ہے کہ جب سرکاری فوج ان پر مارٹر شیل پھینکتی ہے، بندر بن سلطان کے گماشتے سعودی کیمیاوی مواد سے تیار کردہ چند مارٹر گولے اس گولہ باری کے دوران ھی اپنے حمایت یافتہ دھشت گردوں پر پھینکیں؛ تو بندر بن سلطان اپنے امریکی اور اسرائیلی آقاؤں کی مدد سے جو رپورٹ مرتب کریں گے وہ یوں ھوگی:
امریکی سیٹلائٹ رپورٹ: اسد کی افواج نے مخالفین کو مارٹر گولوں کا نشانہ بنایا ہے؛ اسد کی افواج کی نقل و حرکت کی تصویریں ھمارے پاس موجود ہیں، دیکھنے والے دیکھ سکتے ہیں؛
اسپتال کی رپورٹ: زیر علاج زخمیوں میں کیمیاوی ھتھیاروں کا شکار ھونے والے افراد بھی موجود ہیں؛
دھشت گرد ٹولوں کی رپورٹ: ھم پر اسد کے زیر کنٹرول علاقوں سے حملہ ھوا ہے؛
ھاتھ کی صفائی کی بعض دوسرے نمونے اور ایک مکمل ڈرامہ تیار جو کہ رائے عامہ کو مشتعل کرنے کے لئے کافی ھوگا۔ یہ ایک خیالی منظرنامہ نھیں ہے بلکہ عین حقیقت ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ ھم نے کبھی بھی امریکہ، مغرب، صھیونیت اور عرب رجعت پسندی کے شرمناک کرتوتوں کے بارے میں شواھد اکٹھے کرنے کی ضرورت محسوس نھيں کی ہے؛ شاید اس لئے کہ ھم اس سے پھلے اسی قسم کے مسائل کا سامنا کرتے رھے ہیں اور ھم آنکھیں بند کرکے بھی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ کس قسم کے ھاتھ ان سازشوں کے پس پردہ، کار فرما ہیں!؟۔