روسی پارلیمان کی خارجہ تعلقات کمیشن کے سربراہ نے کھا ہے کہ ھماری تجویز سے حکومت شام کے اتفاق کا مفھوم یہ نھیں ہے کہ شام کے
پاس کیمیاوی ھتھیار پائے جاتے ہیں بلکہ ھم نے یہ تجویز پیش کرکے اوباما کو حیرت سے چھٹکارا دلایا اور شام نے اس تجویز سے اتفاق کرکے خونریزی اور تباھی کا سد باب کیا۔
روسی پارلیمان "دوما" کی خارجہ تعلقات کمیشن کے سربراہ آلیکسی بوشکوف نے شام کے کیمیاوی ھتھیاروں پر عالمی نگرانی کے منصوبے کے ابھامات کا جواب دیتے ھوئے کھا کہ ھماری تجویز اور شام کے خیرمقدم کا مفھوم اس بات کا اعتراف نھیں ہے کہ شام کے پاس کیمیاوی ھتھیار موجود ہیں بلکہ صدر اوباما شام کے خلاف کاروائی کے سلسلے میں حیرانگی اور پریشانی کا شکار تھے اور ھم نے تجویز پیش کرکے انھیں اس کیفیت سے نجات دلائی اور شام نے ھماری تجویز مان کر مزید تباھی اور خونریزی کا سد باب کیا۔
انھوں نے کھا: اوباما نے کھا تھا کہ کیمیاوی ھتھیار کا استعمال شام میں امریکہ کے لئے سرخ لکیر کی حیثیت رکھتا ہے اور اگر شام اس لکیر کو پار کرے تو ممکن ہے کہ اس کو امریکہ کی طرف سے عسکری اقدامات کا سامنا کرنا پڑے اور امریکہ نے بھرحال حملے کی تیاری بھی کردی جبکہ روس نے شام میں کیمیاوی ھتھیاروں کی نگرانی کی تجویز پیش کرکے اوباما کو موقع فراھم کیا کہ وہ جنگ سے دوری کرے کیونکہ اوباما کو امن کا نوبل انعام دیا گیا ہے اور یہ جنگ اس کی حیثیت اور اعتبار کو نقصان پھنچائے گی۔
بوشکوف نے زور دے کر کھا کہ کیمیاوی ھتھیاروں پر بین الاقوای نگرانی کے لئے ضروری ہے کہ اقوام متحدہ کے نگرانوں کا وفد ان علاقوں میں موجود رھیں جھاں ان ھتھیاروں کی موجودگی کا امکان پایا جاتا ہے اور یوں کوئی بھی ان علاقوں پر حملہ نھیں کرے گا۔
انھوں نے بحیرہ روم میں روس کی بحری یونٹوں کی موجودگی کے بارے ميں کھا: ھماری عسکری موجودگی سے اس حقیقت کا اظھار ھوتا ہے کہ ھم شام کے مسئلے کے لئے غیر معمولی اھمیت کے قائل ہیں۔