اگر امریکہ شام پر حملہ نہ کرے تو سب سے بڑی شکست اس شخص کو ھوگی جس نے اس حملے کے لئے سب سے زیادہ کوششیں کیں،
تکفیری دھشت گردوں کو اربوں ڈالر کا ھتھیار خرید کر دیا اور اس مسئلے پر اپنی موت یا حیات کی شرط لگادی لیکن حالات اس کی پسند کے مطابق آگے نہ بڑھے۔
ابوالفتنہ، شام اور عراق میں تکفیری دھشت گردوں کا چیف کمانڈر، عرب ممالک کی افواج کو تباہ کرنے کے مشن پر کاربند اور صھیونی غاصبوں کا سب سے بڑا نجات دھندہ، وہ القاب ہیں جو اس شخص کو دیئے جاسکتے ہیں۔ اس نے کئی بار خود بھی اعتراف کیا ہے کہ افغانستان سے لے کر قفقاز اور عراق و لبنان اور شام میں تکفیری دھشت گرد ٹولوں کی نکیل اس کے ھاتھ میں ہے اور وہ انھیں مفت کے ڈالروں کے ذریعے کسی بھی ملک کی تباھی کے لئے میدان جنگ میں اتار سکتا ہے لیکن اب امریکہ شام پر حملے کے منصوبے سے پسپا ھونے لگا ہے تو واضح سی بات ہے کہ علاقے اور دنیا کو حیرت و اضطراب سے دوچار کرنے والے اس منظرنامے میں ولن کا کردار اس شخص کو دیا گیا ہے اور تاریخ اس شخص کو سب سے بڑا ھارنے والے اور شکست کھانے والے شخص کے عنوان سے اپنے صفحات پر ثبت کرے گی۔
بندر بن سلطان کا نام خطے کے نھایت پیچیدہ سیکورٹی کیسز میں نمایاں ہے؛ یہ سعودی کنیز زادہ ـ جس کو اپنے دوسرے کنیز زادہ بھائیوں اور چچا زاد بھائیوں کی نسبت آل سعود کی حکومت میں نشو ونما ملی ہے اور جانتا ہے کہ اسی (کنیز زادہ ھونے کی) بنا پر وہ کسی صورت میں بادشاہ نھیں بن سکے گا ـ اپنے اھداف کو خطے کے عوام کے قتل اور انھیں دھشت گردی کا نشانہ بنانے کے ذریعے حاصل کرنے کا قائل ہے چنانچہ اس نے ایک بار پھر اس مجروح خطے کو جنگ میں جھونکنے کی کوشش کی لیکن اس بار وہ ناکام رھا۔
بندر بن سلطان نے حال ھی میں روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کے ساتھ بات چیت کے دوران ضمنی طور پر کھا تھا کہ قفقاز کے علاقے میں دھشت گردوں کا کنٹرول اس کے ھاتھ میں ہے اور اگر روس سعودی عرب کی بات مانے اور شام کا ساتھ چھوڑ دے تو وہ سوچی کے علاقے میں آنے والے ونٹر اولیمپکس پر چیچن دھشت گردوں کے حملے نہ ھونے کی ضمانت دینے کے لئے تیار ہے۔
بندر بن سلطان نے امریکہ اور فرانس پر بھی دباؤ بڑھایا تاکہ وہ حملہ کرکے شام میں وہ کچھ کردیں جو تکفیری دھشت گرد گذشتہ ڈھائی برسوں کے دوران نھیں کرسکے ہیں۔
روس اور ایران نے شام کو ایک دانشمندانہ تجویز پیش کی اور کھا کہ وہ شام کے کیمیاوی ھتھیاروں پر روس کی نگرانی قبول کرے اور شام نے اس پیشکش کا خیر مقدم کیا اور یوں بندر بن سلطان اور اسرائیل کی یہ سازش ناکام ھوگئی جس کے تحت امریکہ کو شام پر حملہ کرنے پر آمادہ کیا گیا تھا۔ اور اب شام کی مسلح افواج زیادہ تیز رفتاری سے بندر بن سلطان کے زیر سرپرستی فعال تکفیری دھشت گردوں کا صفایا کریں گی اور جو کچھ آل سعود کے نصیب ھوگا دھشت گردوں کے ساتھ تعاون اور صھیونیوں کی بےلوث خدمت نیز عراق کے بعد شام اور حتی مصر کی تباھی کی سازشوں میں ملوث ھونے سے حاصل ھونے والی بدنامی کے سوا کچھ نہ ھوگا۔
لگتا ہے کہ شام میں نھایت شدید شکست اور بدنامی کے بعد اب بندر بن سلطان کو لبنان، عراق اور مصر میں بھی ناکامی کے تلخ منصوبوں میں ناکامی کا مزہ چکھنے کا انتظار کرنا پڑے گا کیونکہ اطلاعات کے مطابق عراقیوں نے بھی فیصلہ کیا ہے کہ وہ عراق میں سعودی مداخلت کی وجہ سے ھونے والی دھشت گردی اور بدامنی کو مزید برداشت نھیں کریں گے اور عنقریب سعودی فتنہ سعودیوں کو لوٹا دیا جائے گا۔