سعودی انٹیلی جنس کے سربراہ جو علاقے میں امریکہ کے فیلڈ کمانڈر کی حیثیت رکھتے ہیں نے شام پر امریکی حملے کی حوصلہ افزائی
کے لیے ۷۰ میلین ڈالر کے اخراجات برداشت کئے ہیں۔
سعودی عرب کی انٹیلی جنس کے سربراہ بندر بن سلطان کے قریبی ذرائع نے بتایا ہے کہ شام پر امریکہ کی جنگی مداخلت میں امریکہ کی حوصلہ افزائی کرنے کے لیے سعودی عرب نے ۷۰ میلین ڈالر براہ راست خرچ کئے ہیں۔
موجودہ صورت حال میں سعودی عرب اور امریکہ دو اصلی کھلاڑی ہیں جو علاقے میں سالمیت کو بحال کرنے یا بگاڑنے میں اھم کردار رکھتے ہیں۔
سعودی انٹیلی جنس کے سربراہ بندر بن سلطان سعودی عرب کے اھم اور فیصلہ کن افراد میں سے ہیں جو علاقے کے حالات میں موثر کردار رکھتے ہیں۔
سعودی عرب میں سی آئی اے کے سربراہ کے دورے کے بعد ملک عبد اللہ کے حکم سے بندر بن سلطان براہ راست سعودی سلامتی سسٹم کے پتوار بن کر آخری دھائیوں میں امریکہ اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات کے استحکام میں کلیدی کردار ادا کر رھے ہیں جسے تجزیہ نگار تیل اور پیسہ کے معاملے کے نام سے یاد کرتے ہیں۔
بندر بن سلطان کی امریکہ کے انٹیلی جنس اداروں کے ساتھ گھرے روابط اس بات کا باعث بنے کہ وہ علاقے میں امریکہ کے فیلڈ کمانڈر کی حیثیت اختیار کر جائیں تاکہ امریکہ اپنے اس آلہ کار کے ذریعے انتھائی مختصر وقت میں مشرق وسطی اور جھان اسلام میں اپنے مفاد حاصل کرنے میں کامیاب ھو سکے۔
گیارہ ستمبر ۲۰۰۱ کے واقعے کے بعد اس حملے میں سعودی عرب کا ھاتھ ھونے کے حوالے سے معتبر اسناد فاش ھونے کی وجہ سے امریکہ اور سعودی عرب کے درینہ روابط میں سردی آگئی تھی۔ وہ اسناد جن سے واضح ھو گیا تھا کہ گیارہ ستمبر کے واقعے میں سعودی عرب کا براہ راست کردار تھا اور اس نے حملہ آوروں کی مالی امداد کی تھی جبکہ خود سعودی عرب کے افراد بھی اس میں شامل تھے اطلاعات کے مطابق گیارہ ستمبر کے واقعہ کو وجود لانے والے ۱۷ افراد میں سے ۱۵ افراد نہ صرف سعودی عرب کے رھنے والے تھے بلکہ آل سعود کے اقرباء تھے۔
لیکن بندر بن سلطان کی زحمتوں اور امریکی کمپنیوں کے ساتھ تیل کے معاملات میں میلیونوں ڈالروں کے معاھدوں نے نہ صرف امریکہ اور سعودی عرب کے باھمی روابط میں دوبارہ گرمی پیدا کر دی بلکہ امریکہ کے سعودی عرب سے نکلنے اور اس ملک پر القاعدہ کو نابود کرنے کی غرض سے امریکی حملے کی راہ میں رکاوٹ بن گئے اور امریکہ کے حملوں کا رخ افغانستان اور عراق کی طرف موڑنے میں کامیاب ھو گئے۔
باب ووڈورڈ کی لکھی کتاب اٹیک پلان میں اس بات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ بندر بن سلطان بوش کے ذریعے امریکہ کے عراق پر حملے میں بنیادی کردار رکھتے ہیں۔
بندر بن سلطان کی امریکہ کی نسبت خدمات اس قدر زیادہ ہیں کہ امریکہ نے آج تک سعودی عرب کے نظام میں اصلاح کرنے اور ڈیموکریسی لانے کے سلسلے میں زبان درازی نھیں کی بلکہ امریکہ اس بات پر تاکید کرتا آ رھا ہے کہ اس ملک میں شاھی نظام ھی اس ملک کی عوام کے لیے بھترین نظام ہے۔
بندر بن سلطان وائٹ ھاوس میں بھی اس قدر نفوذ رکھتے ہیں کہ کھا جاتا ہے کہ سعودی عرب کا یہ پھلا سفیر ہے جو امریکہ کی وزارت خارجہ کی جزئی منصوبوں سے بھی واقف ہے۔