سنہ دو ھزار تین میں امریکہ نے عراق پر حملے سے قبل شور مچانا شروع کردیا تھا کہ عراق کے پاس عام تباھی پھیلانے والے ھتھیار موجود ہیں۔
اقوام متحدہ کے معائنہ کاروں نے عراق کا کونہ کونہ چھان مارا لیکن ان کو وھاں سے عام تباھی پھیلانے والے ھتھیارنہ ملنا تھے نہ ملے۔اس کے باوجود امریکی حکام نے عراق کے پاس عام تباھی پھیلانے والے ھتھیاروں کا بھانہ بنا کر اس عرب اور مسلمان ملک پر حملہ اور قبضہ کرلیا۔ اب ایک عشرہ گزرنے کے بعد سنہ دو ھزارتیرہ میں ایک بار پھر امریکہ ایک اور اسلامی اور عرب ملک شام پر حملے کے لۓ پرتول رھا ہے ۔ اب کی بار وہ یہ پروپیگنڈہ کر رھا ہے کہ شام کی حکومت نے مسلح دھشتگردوں کے خلاف کیمیاوی ھتھیار استعمال کۓ ہیں۔ امریکی حکام کھہ رھے ہیں کہ بشار اسد کی حکومت نے ریڈ لائن عبور کرلی ہے اور وہ شام کے خلاف فوجی کارروائی کی بات کررھے ہیں۔ اس بات سے قطع نظرکہ امریکی حکام نے جس طرح عراق کے بارے میں جھوٹ بولا تھا اسی طرح وہ شام کے بارے میں بھی جھوٹ بول رھے ہیں یھاں بھت سے سوالات اٹھتے ہیں مثلا یہ کہ کیا امریکی حکام شام کو بھی عراق ھی سمجھ رھے ہیں؟ کیا ان کو بشار اسد اور صدام حسین کا فرق بھی معلوم نھیں ہے؟ کیا ان کو دو ھزار تین اور دو ھزار تیرہ کے ایک دوسرے سے مختلف حالات سے آگاھی نھیں ہے؟ کیا ان کو شام پر فوجی حملے کے خطرناک نتائج تک کی سوجھ بوجھ بھی نھیں ہے؟ کیا وہ اس بات سے بھی بے خبر ہیں کہ شام کے خلاف فوجی کارروائي کی صورت میں ناجائز صھیونی حکومت کا وجود ھی مٹ جائے گا؟ اور کیا امریکی حکام شام پر ممکنہ حملے کی یہ قیمت چکانے کے لۓ آمادہ ہیں؟