www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

امریکہ میں انتخابات کے تعلق سے نسل پرستی کے خاتمے کے نصف صدی بعد امریکی سپریم کورٹ نے نسلی اقلیتوں کے حق رائے دھی کی 

حفاظت کرنے والا قانون ختم کردیا ہے۔ امریکی سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے بعد وہ ریاستیں جن پر نسل پرستی کا الزام ہے ان کے لئے ضروری نھیں ھوگا کہ وہ ریاست میں انتخابات کے قوانین بناتے ھوئے فڈرل حکومت کے قوانین کی پابندی کریں۔ اس طرح نئے قوانین کی منظوری تک یہ خدشہ ظاھر کیا گيا ہےکہ نسلی اقلیتوں کے خلاف امتیازی رویہ برتا جاسکتا ہے۔
امریکہ میں منصفانہ اور آزاد انتخابات کرانا ایک تاریخی جدوجھد سے عبارت ہے۔ اٹھارویں صدی کے اواخر میں امریکہ کےقیام کے وقت صرف سفید فاموں کو جن کےپاس کافی مال ودولت ھوتی تھی انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت تھی۔ آھستہ آھستہ یہ حق سیاہ فاموں اور عورتوں کو بھی دیا جانے لگا اور اٹھارہ سو چونسٹھ کی داخلی جنگ کے خاتمے کےبعد بردہ داری بھی ختم کردی گئی جس کے نتیجے میں کروڑوں سیاہ فام باشندوں کو آزادی مل گئي۔ اس کے باوجود ایک صدی تک زندگي کے مختلف شعبوں میں سیاہ فاموں کے خلاف بری طرح سے امتیازی رویہ برتا جاتا رھا خاص طور سے سیاسی اور انتخابی شعبوں میں انھیں شدید تعصب کا سامنا تھا۔ اس وقت تک امریکہ کی جنوبی ریاستوں نے ماضی کی روایت قائم رکھتے ھوئے انتخابات میں سیاہ فاموں کی شرکت کے لئے سخت قوانین وضع کئے۔مثال کے طور پر جو سیاہ فام باشندے مرکزی حکومت میں اپنا نمائندہ بھیجنا چاھتے تھے انھیں سب سے پھلے تو خواندگي کا امتحان دینا پڑتا تھا اور اپنی مالی توانائيوں کا اظھار بھی کرنا پڑتا تھا لیکن چونکہ سیاہ فاموں کی ا کثریت ناخواندہ اور غریب تھی وہ عام طور سے منتخب ھونے یا ووٹ دینے سے محروم رھتے تھے۔ امریکہ میں انسانی حقوق اور شھری حقوق کی تنظیموں منجملہ مارٹن لوتھر کنگ کی برسھا برس کی جدوجھد کے نتیجے میں سرانجام امریکی حکومت نے انیس سو پینسٹھ میں نیا قانون منظو کروایا جس سے اقلیتوں کے ووٹنگ حقوق کی ضمانت فراھم ھوتی ہے۔اس قانون کے مطابق سیاہ فام باشندے بغیر کسی روک ٹوک کے سفید فاموں کی طرح ھی ووٹ ڈال سکتے ہیں۔ اس قانون میں ایک اھم شق یہ تھی کہ امریکی ریاستوں کو بالخصوص جھاں نسل پرستی کا خطرہ ہے فڈرل حکومت سے اجازت لئے بغیر انتخابات کے قوانین میں تبدیلی لانے کی اجازت نھیں تھی۔ یہ شق دراصل اس بات کی ضمانت تھی کہ جنوب کی پندرہ ریاستیں سیاہ فاموں سے حق رائے دھی سلب نہ کرلیں۔ اب جبکہ اس قانون کو پچاس برس گذررھے ہیں امریکہ کے سپریم کورٹ نے یہ شق کالعدم قراردے دی ہے۔ امریکہ کے سب سےبڑے قانونی ادارے یعنی سپریم کورٹ نے دعوی کیا ہےکہ انیس سو پینسٹھ کا قانوں پرانا ھوچکا ہے اور کانگریس کو اس ضمن میں نئے قوانین وضع کرنے چاھیں اور جب تک نئے قوانین منظور نھیں ھوجاتے انیس سو پینسٹھ کا قانون کالعدم رھے گا۔ چونکہ اب کانگریس اور سینیٹ میں ری پبلیکن اور ڈیموکریٹس کے اختلافات اپنے عروج پر پھنچ چکے ہيں لھذا یہ امید کرنا عبث ہےکہ مستقبل قریب میں امریکہ میں انتخابات کا کوئي نیا قانونی منظور ھوسکتا ہے تاکہ سیاہ فاموں کے حق رائے دھی کی حفاظت کی جاسکے۔ اگر امریکی کانگریس جلد از جلد کوئي تدبیر نھیں کرتی ہے تو امریکہ میں انسانی حقوق تنظیموں کی اھم اور تاریخ کامیابی قصہ پارینہ بن جاے گي اور اس ملک کے انتخابی نظام میں ایک اور بحران کھڑا ھوجائے جو کہ پھلے ھی سے متعدد مسائل کا شکار ہے۔
 

Add comment


Security code
Refresh