جھاد ، تاریخ انبیاء میں
قرآن کی آیتیں گواہ ھیں کہ انبیاء کی سیرت یہ رھی ھے کہ وہ تنبیہ و بشارت ، روشن آیات حق اور گذشتہ و آئندہ انسانوں کے تذکرے سے انسانی عقل و فطرت کو نھایت نرمی اور دلسوزی کے ساتہ بیدار کرنے کی کوشش سے اپنی دعوت کا آغاز کرتے تھے ، قدرتی بات ھے کہ پا ک وصاف دل اور بیدار و خدا خواہ ضمیر نھایت خندہ پیشانی سے ان کی دعوت کو قبول کرتے تھے ،لیکن مردہ دل ، آلودہ روح اور سر کش نفس رکھنے والے ان کی دعوت کوٹھکرا دیتے اور نور خدا کو خاموش کرنے کے لئے انبیاء کے مقابلے میں اٹھ کھڑے ھوتے تھے ۔ جھاں کھیں محاذ حق کمزور ھوتا اور اس میں مقابلے کی طاقت نہ ھوتی تو وہ اپنی اور اپنے اصحاب و انصار کی جان کی حفاظت اور محدود پیمانے پر چراغ توحید کی جلائے رکھنے پر اکتفاء کرتے ھوئے مشرکوں پر عذاب الٰھی کے نازل ھونے کا انتظار کرتے تھے ۔ جب پیمانہ صبر لبریز ھو جاتا اور اھل حق امتحان کی کٹھن منزلوں کے طے کرتے ھوئے موت و حیات کے دور اھے پر پھنچ جاتے ، اس وقت وعدھٴ الٰھی پورا ھوتا ، اور مومنوں کو ان سر کش طاغوتوں سے چھٹکارا مل جاتا تھا ، جیسا کہ حضرت نوح علیہ السلام،حضرت ھود علیہ السلام، حضرت شعیب علیہ السلام،حضرت صالح علیہ السلام، حضرت ابراھیم علیہ السلاماور حضرت موسیٰ علیہ السلامکے قصوں میں بیان کیا گیا ھے : ” فدعا ربہ انی مغلوب فانتصر ، ففتحنا ابواب السماء بماء منھم “ (۳۵)
تو اس نے اپنے پروردگار سے دعا کی کہ میں مغلوب ھوگیاھوں میری مدد فرما ۔ تو ھم نے ایک موسلا دھار بارش کے ساتہ آسمان کے دروازے کھول دئے ۔
” قال لو ان لی بکم قوة اوٰاوی الی رکن شدید ․․․․․فلما جاء امرناجعلنا عالیھا سافلھا۔۔۔۔۔،، (۳۶)
لوط نے کھا کاش میرے پاس قوت ھوتی یا میں کسی مضبوط قلعہ میں پناہ لے سکتا ۔پھر جب ھمار ا عذاب آگیا تو ھم نے زمین کو تھہ و بالا کردیا ۔
قالوا حرقوہ و انصروا الھتکم ان کنتم فاعلین ، قلنا یا نار کونی بردا و سلاما علی ابراھیم ، واراد وا بہ کیدا فجلعنا ھم الاخسرین “(۳۷)
ان لوگوں نے کھا کہ ابراھیم کو آگ میں جلا دو اور اگر کچہ کرنا چاھتے ھوتو اس طرح اپنے خداؤں کی مدد کرو ۔ تو ھم نے بھی حکم دیا کہ اے آگ ابراھیم کے لئے سرد ھوجا اور سلامتی کا سامان بن جا ۔ اور ان لوگوں نے ایک مکر کا ارادہ کیا تھا تو ھم نے بھی انھیں خسارہ والا اور ناکام قرار دیا ۔
” قال اصحاب موسیٰ انالمد رکون۔قال کلا ان معی ربی سیھدین ․․․ثم اغرقنا الاخرین “ (۳۸)
اصحاب موسی نے کھا کہ اب تو ھم گرفت میں آجائیں گے ۔ موسی نے کھا ھرگز نھیں ھمارے ساتہ ھمار اپروردگار ھے و ہ ھماری رھنمائی کرے گا ۔۔۔پھر باقی لوگوں کو غرق کردیا ۔
ایک مقام پر بطور کلی ارشاد ھوتا ھے : ” فکلا اخذ نا بذنبہ فمنھم من ارسلنا علیہ حاصبا و منھم من اخذتہ الصیحة و منھم من خسفنا بہ الارض و منھم من اغرقنا “(۳۹) پھر ھم نے ھر ایک کو اس کے گناہ میں گرفتار کرلیا کسی پر آسمان سے پتھروں کی بارش کردی کسی کو ایک آسمانی چیخ نے پکڑ لیا اور کسی کو زمین میں دھنسا دیا اور کسی کو پانی میں غرق کردیا ۔
لیکن جب توحیدی طاقتیں خود کو طاقتور محسوس کرتیں اور دشمن پر غلبہ پانے کا امکان ھوتا تو وہ مقاصد رسالت کی تکمیل خدا خواھوں کے راستے کو ھموار اور ان کے سامنے سے رکاوٹوں کو دور کرنے کے لئے ھتھیار اٹھانے میں پس و پیش نھیں کرتی تھیں۔ ایسے موقع پر شرک و ائمہ شرک کے وجود کو برداشت نھیں کیا جاتا تھا ، جیسا کہ طالوت و جالوت ، سلیمان و ملکہ ٴ سبا ،موسیٰ علیہ السلامو عما لقہ کے واقعات میں تفصیل سے موجود ھے ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلامنے فرعون کے مقابلے میں ھتھیار نھیں اٹھایا وہ عالم مجبوری میں مصر سے ھجرت کے ارادے سے اپنی قوم کو لے کر دریائے نیل کا رخ کرتے ھیں ۔لیکن جب عما لقہ شام کے مقابلے میں اپنے کو طاقتور محسوس کیا تو ان پر حملہ کرنے سے گریز نہ کیا ۔ مختصر یہ کہ ایک مسلم الثبوت حقیقت ھے کہ انبیاء علیہم السلامما سلف کی زندگی میں جنگ و جھاد دونوں کی سنت موجودتھی ’‘وکاٴیّن من نبی قاتل معہ ربیون کثیر۔۔۔۔۔۔۔ “ (۴۰)اور بھت سے ایسے نبی گزر چکے ھیں جن کے ساتہ بھت سے اللہ والوں نے اس شان سے جھاد کیا ھے کہ راہ خدا میں پڑنے والی مصیبتوںسے نہ کمزور ھوئے اور نہ بزدلی کا اظھا ر کیا اور نہ دشمن کے سامنے ذلت کا مظاھرہ کیا ۔
جھاد زمان و مکان میں مقید نھیں ھے
اس حقیقت کو مد نظر رکھتے ھوئے کہ جھاد بمعنی عام جس میں اسلام اور مسلمانوں کا دفاع شامل ھے قرآن مجید میں عظیم ترین فریضہ ھے ، اسے پورے الٰھی نظام ، اور توحید کی اساس کا محافظ قرار دیا گیا ھے ، عقل ، تاریخ تجزیہ اور خارجی واقعات بھی ضرورت جھاد کی قطعی تائید کرتے ھیں ۔ اس میں شک نھیں کہ یہ فریضہ صرف صدر اسلام اور عصر رسول سے مختص نھیں ھو سکتا ، جھاد کے لئے مسلمانوں کی طاقت و قوت کے سوا کوئی شرط نھیں ۔
جھاد ۔بمعنی عام ۔ کے کسی خاص زمانے یا عام شرائط ( جس میں طاقت و قدرت بھی شامل ھے ) کے سوا دوسری شرائط سے مختص ھونے کا تصور ، آرام پسندی حقائق قرآن سے نا واقفیت ، فقھی جمود و خمود مصالح اسلام و مسلمین سے لا پرواھی ، خوف ، اخلاقی کمزوری ، معاشرے اور اس کے مسائل سے صدیوں کی دوری و گوشہ نشینی اور صوفیا نہ افکار کے غلبے کے سوا کچہ نھیں ۔
اگر یہ کمزوریاںاور نارسائیاں نہ ھوتیں تو کس طرح ایک اسلام شناس یا محقق فقھیہ چار سو سے زائد تاکیدی اور سخت لھجہ آیتوں کی صرف چند برسوں سے مخصوص سمجھتا اور اس طرز فکر سے دشمنوں کے نرغے میں گھرے ھوئے اسلام کو جس کے لئے دفاع ایک اھم ضرورت ھے ھمیشہ ھمشیہ کے لئے نھتا بنا کر مسلمانوں کی جان و مال ، عزت و آبرو ، اسلامی اقدار اور اسلامی سر زمین پردشمنوں کے غلبے کا راستہ ھموار کرتا ؟ کیا آیہ ” واعدوالھم ما استطعتم من قوة․․․․․․․․“جو مسلمانوں کی عزت و قوت کی ضمانت ھے کسی ایک زمانے سے محدود ھو سکتی ھے ؟ کیا دشمنوں نے ھم سے معاھدے کرنے کے بعد اس کی خلاف ورزی نھیں کی ؟ پھر ھم نے اس آیت ” و ان نکثوا ایمانھم من بعد عھدھم و طعنوا فی دینکم فقاتلوا ائمة الکفر انھم لا ایمان لھم “ (۴۱)
کفر کے سربراھوں سے کھل کر جھاد کرو ان کے قسموں کا کوئی اعتبار نھیں ھے شاید یہ اسی طرح اپنی حرکتوں سے باز آجائیں ۔پر عمل کیوں نہ کیا ؟ خدا وند عالم کا یہ وعدہ ” لا تھنوا و لا تحزنوا و انتم الاعلون ان کنتم مومنین “(۴۲)
خبردار سستی نہ کرنا مصائب پر محزون نہ ھونا اگر تم صاحب ایمان ھو تو سربلندی تمھارے ھی لئے ھے ۔ کیا صرف چند برسوں کے لئے تھا ؟ اگر جھاد ابتدائی میں شک و شبہ ھو سکتا ھو تو کیا دفاع میں بھی شک کیا جاسکتا ھے ؟ تمام زمانوں میں مسلمانوں کو دفاع کی ضرورت رھی ھے اور آج دشمن ھر زمانے سے زیادہ اسلام و مسلمین کے مقابلے میں صف آرا ھے ، اسے کسی مکر و حیلے سے عار نھیں ،آج اپنی جان و مال عزت و آبرو کی حفاظت کے لئے ھر زمانہ سے زیادہ امداد باھمی ، تعاون اسلحے کی فراھمی ، طاقت میں اضافہ اور جھاد کی ضرورت ھے۔
اگر نعوذ باللہ ھم مسلمان نہ ھوتے پھر بھی تقاضائے عقل و فطرت یہ تھا کہ ھم اپنے دفاع کے لئے اٹہ کھڑے ھوتے ، اور اتنی زیادہ ذلت و خواری برداشت نہ کرتے ، ایک ارب مسلمانوں کے لئے یھی ذلت کافی ھے کہ تیس لاکہ یھودیوں کے سامنے جن کے بارے میں قرآن کھتا ھے ت علیھ” ضرب م الذلة و المسکنة “ (۴۳)اب ان پر ذلت اور محتاجی کی مار پڑ گئی ۔
سر ذلت جھکائے ھوئے ھیں ۔ روز بروز ان کے لئے میدان ھموار کرتے جا رھے ھیں اور دست بستہ ان کے احکام و فرامین کی بجا آوری کے لئے تیار ھیں ۔ کیا اس ذلت کو برداشت کرنے کے لئے محض یہ بھانہ کافی ھے کہ امریکہ اسرائیل کا حامی ھے ؟ کیا خدا ھمارا حامی و مدد گار نھیں ؟ پھر یہ ذلت کیوں ؟
خدا کی نصرت و حمایت کے وعدے بر حق ھیں ،لیکن ھمارا اس پر ایمان نھیں ، ھم شرط ایمان ( ان کنتم مومنین )سے کورے ھیں ۔ ھم اس آیت کے مصداق بن گئے ھیں کہ ” ارضیتم بالحیوٰة الد نیا من الاخرة ․․․․․الا تنفروا یعذبکم عذابا الیما ویستبدل قوما غیرکم ۔۔۔۔۔“ ( ۴۴)ایمان والوں تمھیں کیا ھوگیا ھے کہ جب تم سے کھا گیا کہ راہ خدا میں جھاد کیلئے نکلو تو تم زمین سے چپک کر رہ گئے کیا تم آخرت کے بدلے زندہ گانی دنیا سے راضی ھوگئے اگر تم راہ خدا میں نہ نکلو گے تو خدا تمھیں دردناک عذاب میں مبتلا کرے گا اور تمھارے بدلے دوسری قوم کو لے آئے گا اور تم اسے کوئی نقصان نھیں پھونچا سکتے ھو کہ وہ ھر شئی پر قدرت رکھنے والا ھے
تمام مسلمانوں کا فریضہ ھے کہ ان مقاصد کی تکمیل کے لئے اس نظام سے تعاون کریں اور اپنے اسلامی فریضے کے پیش نظر قومیت ، نسل ، زبان اور جغرافیائی اختلافات سے صرف نظر کرتے ھوئے وحدت اسلامی کے جھنڈے تلے متحد و ھم آھنگ ھو کر اسلام و مسلمین کے ظاھر و جابر دشمنوں کا مقابلہ کرنے کو اٹہ کھڑے ھوں ، عزت کی موت کو ذلت کی زندگی سے بھتر سمجھیں ، تاکہ جھاد کے شیریں ثمرات سے لطف اندوز ھوں اور خدا وند عالم کے دست شفقت و محبت کے سایے میں اپنے دشمن پروار کریں اور خود اس لمس ربانی کی تصدیق کریں :” ید اللہ فوق اید یھم “ ۔