دین یا ادیان
عموماً مباحث دین شناسی میں لفظ ”دین“ جمع (ادیان) کی صورت میں
استعمال کیا جاتا نیز ھر نبی کے لئے ایک مخصوص دین حساب کیا جاتاھے جیسے دین یھودیت، دین عیسائیت یا دین اسلام لیکن قرآن مجید کے اصول و قوانین کے مطابق از آدم تا محمد، دین خدا فقط ایک ھے اور تمام انبیاء صرف ایک مکتب کی طرف دعوت دیتے رھے ھیں۔
"ان الدین عند الله الاسلام"
بیشک خدا کے نزدیک دین فقط اسلام ھے۔(۱)
تمام انبیاء کے اصول وبنیادیں ایک ھی ھیں لیکن ان میں دو جھتیں پائی جاتی ھیں:
الف) شرائط زمان ومکان، معاشرہ اور خصوصیات انسانی کی بنیاد پر بعض فرعی مسائل میں فرق۔
ب) مرتبہٴ تعلیمات میں فرق، ھربعد میں آنے والا نبی، فکر بشری کے ارتقاء وکمال کے مطابق اپنی تعلیمات کا درجہ ومرتبہ بڑھاتا رھتا تھا۔ مثلاً خدا، قیامت اور انسان وغیرہ سے متعلق موجودہ اسلامی معارف وتعلیمات گذشتہ انبیاء کی تعلیمات کے بالمقابل بے حد عمیق ووسیع ھیں۔
انسان مکتب ومدرسہٴ انبیاء میں اس طالبعلم کی مانند ھے جو درجہٴ اول سے آخری درجے تک کے علمی مراحل بتدریج طے کرتا ھے۔ اس سلسلے میں دین واحد کا ارتقاء کھنا صحیح ھے نہ کہ جدا گانہ ادیان کے طور پر پیش کرنا۔
قرآن مجید نے ھرگز لفظ ”دین“ کو جمع (ادیان) کی صورت میں استعمال نھیں کیا ھے بلکہ انبیائے الٰھی کو ایک دوسرے کی تائید وتصدیق کرنے والے کے طور پر پر پیش کیا ھے اور اس سلسلے میں انبیائے کرام سے سخت عھد و پیمان لیا گیا ھے۔
"واذ اخذالله میثاق النبیین لما آتیتکم من کتاب وحکمة ثم جائکم رسول مصدق لما معکم لتؤمنن بہ ولتنصرنہ قال اٴاقررتم واخذتم علیٰ ذلکم اصری قالوا اقررنا قال فاشھدوا وانا معکم من الشاھدین"
اور ( اس وقت کو یاد کرو) جب خدا نے تمام انبیاء سے عھد لیا کہ ھم تم کو جو کتاب وحکمت دے رھے ھیں اس کے بعد جب وہ رسول آجائے جو تمھاری کتابوں کی تصدیق کرنے والا ھے تو تم سب اس پر ایمان لے آنا اور اس کی مدد کرنا اور پھر پوچھا کہ کیا تم نے ان باتوں کا اقرار کرلیا ار ھمارے عھد کو قبول کرلیا تو سب نے کھا کہ بیشک ھم نے اقرار کرلیا۔ ارشاد ھوا کہ اب تم سب بھی گواہ رھنا اور میں بھی تمھارے ساتھ گواھوں میں ھوں۔(۲)
خاتم الانبیاء
یہ بھی ضرریات اسلام میں سے ھے کہ رسول اکرم ، سلسلہٴ انبیاء کی آخری کڑی ھیں۔ آنحضرت کے بعد اب کوئی نبی نھیں آئے گا۔ قرآن کریم سورہٴ احزاب کی ۴۰ویں آیت میں اس حقیقت کو قاطعانہ طور پرصاف صاف بیان کررھا ھے:
"ماکان محمد ابا احد من رجالکم ولکن رسول الله وخاتم النبیین وکان الله بکل شیٴ علیماً"
محمد، تمھارے مردوں میں سے کسی ایک کے بھی باپ نھیں ھیں لیکن وہ خدا کے رسول اور سلسلہٴ انبیاء کے خاتم ھیں اور خدا ھر شےٴ کا خوب جاننے والا ھے۔(۳)
علت ختم نبوت:
کیوں گذشتہ زمانوں میں انبیاء یکے بعد دیگرے بھیجے جاتے تھے اور سلسلہٴ نبوت ختم نھیں ھوتا تھا لیکن حضرت محمد مصطفےٰ صلی الله علیہ وآلہ وسلم کے بعد یہ سلسلہ منقطع ھوگیا؟ ا س سوال کے جواب کے لئے تین نکتوں کی طرف اشارہ ضروری ھے۔
(۱) زمانہٴ قدیم کا بشر اپنے عدم رشد اور عدم ارتقائے فکر کی وجہ سے آسمانی کتاب کی حفاظت نھیں کرسکتا تھا۔ یھی وجہ تھی کہ گذشتہ آسمانی کتابیں یا تو بالکل ھی غائب ھو جاتی تھیں یا اس میں تحریف وتبدیلی ہوجاتی تھی۔ اس صورت میں ایک بارپھر ایک نئے پیغام و پیغامبر کی ضرورت ھوتی تھی لیکن رسول اکرم کی بعثت کے بعد بشریت اپنے طفلگی کے حدود سے باھر نکل کر رشد و ارتقائے فکری کے اس مقام تک دسترسی حاصل کرچکی تھی کھ اپنی علمی ودینی میراث کی محافظت کرسکے۔ اسی بنا پر، فقط قرآن مجید ایسی آسمانی کتاب ھے جس میں کسی بھی قسم کی تحریف یا تبدّل وتغیّر نھیں ھوسکا ھے۔
(۲) زمانہٴ قدیم کے بشر میں اس قدر صلاحیت و قدرت نھیں تھی کہ وہ اپنے سفر زندگی کا ایک کلی خاکہ بنا سکے اور اس خاکے کی مدد سے اپنے سفر کو جاری رکھ سکے۔ اس لئے ضروری تھا کہ بتدریج اور مرحلہ بہ مرحلہ بشر کی راھنمائی کی جائے۔لیکن بعثت رسو ل خدا کے ساتھ وہ وقت بھی آگیا جب بشر اپنے اس نقص پر قابو پاچکا تھا۔
(۳) خدا کی طرف سے ھدایت بشر کے لئے بھیجے جانے والے انبیاء میں سے بعض نئی شریعت لے کر آئے تھے اور بعض کوئی نئی شریعت لے کر نھیں آئے تھے بلکہ اپنے سے پھلے والے نبی کی شریعت کی ہھی تبلیغ و ترویج کیا کرتے تھے۔ اس طرح، انبیاء دو طرح کے ھوتے ھیں:
۱۔ صاحب شریعت
۲۔ وہ انبیاء جو شریعت تو لے کرنھیں آتے مگر گذشتہ نبی کی شریعت کی تبلیغ کرتے ھیں۔ اکثر و بیشتر انبیاء صاحب شریعت نھیں ھوتے تھے اور اگر صاحب شریعت انبیاء کو شمار کیا جائے تو ان کی تعداد شاید دس سے بھی آگے نہ بڑھ سکے۔ غیر صاحب شریعت انبیاء کی ذمہ داری یہ ھوتی تھی کہ وہ اس شریعت کی ترویج ، تبلیغ وتفسیر اور اجراء کریں جوان کے زمانے میں پائی جاتی تھی۔
مذکورہ بالا نکات کے پیش نظر کھا جاسکتا ھے کہ ختم نبوت کی علت، بشرکے رشد وارتقائے فکری میں پوشیدہ ھے کیونکہ بعثت رسول خدا کے وقت بشر اس مقام تک پھونچ گیاتھا کہ:
۱) اپنی آسمانی کتاب کو ھر قسم کے نقصان یا تحریف سے محفوظ رکھ سکے۔
۲) اپنی ھدایت، سعادت وکمال کا دستورالعمل یکجا طور پر حاصل کرسکے۔
۳) ترویج و تبلیغ دین، امر بالمعروف ونھی عن المنکر کوخود ادا کرسکے یعنی اس ذمہ داری کو قوم کے علماء اورصلحاء انجام دیں سکیں۔
۴) اجتھاد کی روشنی میں کلیات وحی کی تفسیر وتشریح کرسکے اور ھر زمانے کے مختلف شرائط کے تحت اصل کی طرف رجوع کرکے ھر مسئلے کا حل پیش کرسکے۔ یہ ذمہ داری بھی علماء کی ھے۔
حوالہ:
۱۔سورہ ٴآل عمران/۱۹۔
۲۔سورہ ٴآل عمران/ ۸۱۔
۳۔ سورہ احزاب /۴۰۔