انبیائے خدا کے خصوصیات میں سے ایک خصوصیت، عصمت ھے۔
لغت میں عصمت کے معنی منع کرنے اور حفاظت کرنے کے ھیں۔
ابن فارس ، مقاییس اللغة میں کھتے ھیں: العصم : اصل واحد صحیح یدلُّ علی امساک و منع و ملازمة ”مفردات“ میں راغب کھتے ھیں : العصم : الامساک اور ”صحاح “میں ھے کہ عصمت منع کرنے کے معنی میں ھے ۔ سورہ احزاب کی سترھویں آیت”من ذاالذی یعصمکم من اللہ “ اور سورہ ھود کی تیتالیسویں آیت” و ساوی الیٰ جبل یعصمنی من الماء “ میں عصمت کے دونوں مذکورہ معنی ، یعنی حفاظت اور منع کرنا ھی پائے جاتے ھیں ۔
عصمت انبیاء سے مراد یہ ھے کہ پیغمبران خدا:
اولاً: وحی کے حصول، نگھداری اور ابلاغ و ترسیل میں ھر قسم کی غلطی یا اشتباہ سے محفوظ ھوتے ھیں۔
ثانیاً: ھر قسم کے گناہ سے پاک اور مبرّا ھوتے ھیں۔
مذکورہ دونوں نکات کی مزید وضاحت کے لئے ضروری ھے کہ انھیں جداگانہ طور پر بیان کیا جائے۔
وحی کے حصول، نگھداری اور ابلاغ سے متعلق عصمت
انبیائے خدا، وحی( جو کہ انسانوں کی ھدایت و سعادت کا ذریعہ ھے تاکہ وہ اپنے اعلیٰ کمال تک پھونچ سکیں) کو دریافت اور ارسال کرنے میں کسی قسم کی غلطی نھیں کرتے تھے یعنی وحی کو صحیح طرح سے حاصل اور ادارک کرتے تھے نیز بغیر کسی کمی یا زیادتی کے بشر کے حوالے کردیتے تھے۔ لھٰذا، پیغام خدا جس طرح سے نازل ھوا ھے اسی طرح انبیاء کے توسط سے بغیر کسی تبدیلی وتغیر، نہ عمداً اور نہ سھواً، کے ھم تک پھونچ گیا ھے۔
یہ ایک ایسی حقیقت ھے جس پر تمام شیعہ و سنی متکلمین متفق ھیں نیز عقل و نقل بھی اس کی تائید کرتی ھیں۔
دلیل عقلی
حقیقت یہ ھے کہ وہ دلیل جو ضرورت بعثت پر دلالت کرتی ھے وھی مذکورہ حقیقت پر بھی دلالت کرتی ھے کیونکہ انسان، وحی اور نبوت کے ذریعے مخصوص ھدایت الٰھی سے مکمل اور صحیح طور پر فقط اسی صورت میں مستفید ھوسکتا ھے جب وحی کے حصول، ادراک اور ابلاغ میں کسی طرح کی غلطی یا اشتباہ کا گذر نہ ھوا ھو۔
خداوند عالم چونکہ حکیم ھے، لھٰذا اس نے ارادہ کیا ھے کہ اس کا پیغام یعنی وحی کسی کمی وزیادتی کے بغیر اس کے بندوں تک پھونچے ۔
وہ چونکہ علیم ھے لھٰذا جانتا ھے کہ اپنے پیغام کو کیسے اور کس کے ذریعے نازل کرے کہ اس کے بندوں تک صحیح وسالم حالت میں پھونچ جائے۔
"اللہ یعلم حیث یجعل رسالتہ" (۱)
چونکہ قدیر ھے لھٰذا مستحکم اور قابل اعتماد ذرائع اور وسائل کا انتخاب کرسکتا ھے نیز انھیں اپنی ذمہ داری اور وظائف کی ادائیگی میں ھرطرح کی خطا اور غلطی سے محفوظ بھی رکھ سکتا ھے۔
دلیل نقلی
قرآن مجید، سورہٴ جن کی آخری آیت میں اس حقیقت کی طرف اشارہ فرماتاھے کہ خدا کے پاس ایسے مامورین اور محافظین ھیں جو وحی کو ھر طرح کے نقصان ، کمی وزیادتی یا تبدیلی وتغیر سے محفوظ رکھتے ھیں تاکہ وحی صحیح و سالم طور پر لوگوں تک پھونچ جائے۔
"عالم الغیب فلا یظھر علی غیبہ احدا۔ً الا من ارتضیٰ من رسول فانہ یسلک من بین یدیہ ومن خلفہ رصداً۔ لیعلم ان قد ابلغوا رسالات ربھم واحاط بما لدیھم واحصیٰ کل شیٴ عددًا"
وہ عالم الغیب ھے اور اپنے غیب پر کسی کو بھی مطلع نھیں کرتا ھے مگر جس رسول کو پسند کرلے تو اس کے آگے نگھبان فرشتے مقرر کردیتا ھے تاکہ وہ دیکھ لے کہ انھوں نے اپنے رب کے پیغامات کوپھونچادیا ھے اور وہ جس کے پاس جو کچھ بھی ھے اس پر حاوی ھے اور سب کے اعداد کا حساب رکھنے والا ھے۔ (۲)
علامہ طباطبائی ان آیات کی تفسیر کے ذیل میں فرماتے ھیں:
”والمعنی : فان اللہ یسلک ما بین الرسول و من ارسل الیہ و ما بین الرسول و مصدر الوحی مراقبین حارسین من الملائکة و من المعلوم ان سلوک الرسد من بین یدیہ و من خلفہ لحفظ الوحی من کل تخلیط و تغییر بالزیادة والنقصان یقع فیہ من ناحیة الشیاطین بلا واسطة او معھا“۔
یعنی خدا فرشتوں کو مراقب وحی قرار دیتا ھے تاکہ وحی الٰھی میں شیاطین کی طرف سےکوئی غلط یا کمی و زیادتی واقع نہ ھو ۔(۳)
گناہ سے متعلق عصمت
شیعی عقیدے کے اعتبار سے تمام انبیائے کرام اپنی پیدائش سے اواخر عمر تک ھر طرح کے گناہ، خواہ گناہ کبیرہ یا صغیرہ، سے منزہ اور پاک ھوتے ھیں حتی سھوونسیان بھی ان کے گناہ کوانجام دینے کا باعث نھیں بنتے ھیں۔
علمائےاھل سنت اس سلسلے میں اختلاف رکھتے ھیں۔ ان میں سے بعض انبیاء کرام کو فقط گناھان کبیرہ سے پاک و معصوم مانتے ھیں جب کہ ایک گروہ کے مطابق انبیاء زمانہٴ بلوغ کے بعد معصوم ھوتے ھیں۔
ساتھ ھی ایک گروہ کا نظریہ یہ بھی ھے کہ انبیاء رسالت پر مبعوث ھونے کے بعد معصوم ھوتے ھیں۔ حشویہ اور بعض اھل حدیث اصلاً منکر عصمت انبیاء ھیں یعنی ان کے مطابق انبیاء سے ھر گناہ صادر ھوسکتا ھے حتی زمانہٴ نبوت میں اور عمدی طور پر بھی۔
یھاں یہ وضاحت بھی ضروری ھے کہ یھاں عصمت انبیاء سے مراد فقط گناھوں کا ارتکاب ھی نھیں ھے بلکہ مراد یہ ھے کہ انبیاء ایک مخصوص قوت ارادی اور ملکہ نفسانی کے حامل ھوتے ھیں جو تمام حالات و شرائط میں ان کو گناھوںکی انجام دھی سے باز رکھتا ھے۔ ایسے بھت سے افراد ھیں جنھوں نے اپنی ساری عمر میں قطعاً کوئی گناہ انجام نھیں دیا ھے لیکن ایسا دعویٰ شاید ھی کوئی کرے کہ وہ کسی بھی حالت یاکیفیت و شرط میں مرتکب گناہ نھیں ھوگا۔گناہ نہ کرنے اور ایسا ملکہ یا قدرت رکھنے میں جو تمام شرائط میں ارتکاب گناہ سے باز رکھے، زمین و آسمان کا فرق ھے۔
عقلی ونقلی بھت سے دلائل واستدلالات موجود ھیں جوانبیاء کے گناھوں سے معصوم ھونے پر دلالت کرتے ھیں ۔
دلیل عقلی:
خدا نے انبیاء کو اس لئے بھیجا ھے تاکہ وہ لوگوں کو صراط مستقیم کی طرف راھنمائی کرسکیں۔ اس صورت میں اگر انبیاء خود مرتکب گناہ ھو جائیں تو لوگوں کے نزدیک ان کے قول وفعل میں تضاد ھو جائے گا۔ جس کا لازمہ یہ ھوگا کہ ان کی ذات سے لوگوں کااعتماد و اعتبار اٹھ جائے گا۔ نتیجةً ھدف نبوت ور سالت مکمل طور پر نیست و نابود ھوجائے گا۔
دلیل نقلی:
قرآن مجید میں بھت سے انبیاء کو بطور مخلَص(مُخلَص ، لام پر زبر کے ساتھ ، اس شخص کو کھا جاتا ھے جس کو خدا خود مخلس و خالص بناتا ھے لیکن مُخلِص، لام پر زیر کے ساتھ ، وہ شخص ھوتا ھے جو اپنے اعمال ، اخلاص کے ساتھ اور فقط خدا کے لئے انجام دیتا ھے مُخلَصین کا مرتبہ مُخلِصین سے بھت بلند وبالا ھے۔ ) پھنچنوایا گیا ھے:
"واذکرعبادنا ابراھیم واسحاق ویعقوب اُ ولی الایدی والابصار انا اخلصنا ھم بخالصة ذکریٰ الدار"
اور پیغمبر! ھمارے بندے ابراھیم، اسحاق اور یعقوب کا ذکرکیجئے جو صاحبان قوت اور صاحبان بصیرت تھے۔ ھم نے ان کو آخرت کی یاد کی صفت سے ممتاز قرار دیا تھا۔(۴)
دوسری طرف ، شیطان نے جھاں یہ قسم کھائی ھے کہ تمام اولاد آدم کو گمراہ کر ے گا وھیں مخلص بندوں کو خارج بھی کردیاھے۔
"قال فبعزتک لاغوینھم اجمعین۔ الاعبادک منھم المخلصین"
اس نے کھا تو پھر تیری عزت کی قسم! میں سب کو گمراہ کروں گا علاوہ تیرے ان بندوںکے جن کو تونے خالص بنا دیا ھے۔(۵)
اور واضح ھے کہ اگر شیطان مخلص بندوں کو بھی گمراہ کرسکتا ھوتا تو یقینا گمراہ کردیتا۔ مخلص بندوں کا مستثنیٰ ھونا فقط شیطان کے عجز اور ناتوانی کی بنا پر ھے۔ لھٰذا مذکورہ آیات کے ذریعہ روشن ھوجاتاھے کہ شیطان انبیاء کو دھوکہ یا فریب نھیں دے سکتا۔
انبیاء گناہ سے پاک اور معصوم کیوں ھوتے ھیں؟
مذکورہ سوال کے جواب کے حصول کے لئے ایک مقدمہ کاتذکرہ ضروری ھے۔
انسان ایک ایسا آزاد اور خودمختار موجود ھے جو اپنے امور کواپنے اختیار اور انتخاب سے انجام دیتا ھے۔ جو فعل اس کو مفید نظر آتا ھے اسے انجام دیتا ھے اور جو فعل نقصان دہ یا قبیح نظر آتا ھے اس سے اجتناب کرتا ھے مگر کبھی کبھی ایسا بھی ھوتا ھے کہ ارادے کی کمی اور اپنے نفس پر کنٹرول نہ ھونے کی وجہ سے ان امور کوبھی انجام دے دیتا ھے جو حکم عقل کے خلاف ھوتے ھیں۔
یھی وجہ ھے کہ ایک عقلمند شخص کسی بھی قیمت پرخود کو آگ کے حوالہ نھیں کرتا ھے یا زھر نھیں کھاتا ھے وغیرہ وغیرہ۔ اگرچہ عقلمند آدمی ان امور کو انجام دینے کی قدرت رکھتا ھے اور ان کو انجام بھی دے سکتا ھے مگر چوں کہ یہ اس کے لئے نقصان دہ ھیں لھٰذا ان کے قریب بھی نھیں پھٹکتا۔
مذکورہ مقدمہ کی روشنی میں ھم کھہ سکتے ھیں کہ انبیاء دو خصوصیات کے حامل ھوتے ھیں جو انھیں ھر طرح کے گناہ سے محفوظ رکھتی ھیں۔ پھلی خصوصیت یہ ھے کہ انھیں گناھوں کے بارے میںمکمل علم ویقین ھوتا ھے اس طرح کہ ھرگناہ ان کی نگاہ میں دھکتی ھوئی آگ اور قاتل زھر کی مانند ھوتا ھے۔
دوسری خصوصیت یہ ھے کہ ان کے پاس ایک قوی، مستحکم اور عمیق اراد ہ ھوتا ھے جو ان کے جذبات، شھوات نفسانی اور غیظ و غضب کو کنٹرول کرتا ھے۔ ابنیاے ٴ خدا ایسے بزرگ وبالا بندگان خدا ھیں جن کے ارادے میں ذرہ برابر ضعف یا کمی نھیں پائی جاتی ھے۔
ان دو خصوصیات کی بنا پر کوئی بھی نبی کسی بھی حالت یا کیفیت میں گناہ کا مرتکب نھیں ھوسکتا اگرچہ اس گناہ کو انجام دینے کی قدرت رکھتا ھے۔
اس سلسلے میں استاد شھید مطھری فرماتے ھیں:
”گناہ سے مربوط عصمت، ایمان اور تقویٰ کی شدت اور زیادتی سے پیدا ھوتی ھے۔ اس سلسلہ میں قطعاً ضروری نھیں ھے کہ کسی انسان کے ”معصوم“ ھونے کے لئے ایک خارجی قوت جبراً اور زبردستی اس کو گناہ سے باز رکھے یا معصوم شخص اپنی جسمانی اور ذھنی ساخت و طینت کی بنا پر گناہ کی انجام دھی کی قدرت نہ رکھتا ھو۔ اگر کوئی شخص گناہ کو انجام دینے کی قدرت ھی نہ رکھتا ھو یا کوئی دوسری قوت ھمیشہ اس کو گناہ کی انجام دھی سے باز رکھتی ھوتو اساساً ایسے شخص کے لئے گناہ کامرتکب نھ ھونا نہ کوئی فضیلت ھے اور نہ اس کا کمال کیونکہ ایسا شخص اس شخص کی طرح ھے جس کو کسی جگہ قرار دے دیا گیا ھو اور وہ کوئی کام اپنی مرضی سے نہ کرسکتا ھو“۔ (۶)
حوالہ:
۱۔سورہ ٴانعام /۱۲۴۔
۲۔سورہٴ جن/ ۲۸،۲۶۔
۳۔المیزان فی تفسیر القرآن ، ج/ ۲۰ص/۵۴۔
۴۔سورہ ٴ ص/ ۴۶،۴۵، نیز سورہ ٴمریم/ ۵۱وسورہٴ یوسف/۲۴۔
۵۔سورہ ٴص/۸۳،۸۲۔
۶۔مجموعہٴ آثار: ج/۲،ص/۱۶۱۔